پیوش گوئل کا گول مول بجٹ!

مودی حکومت نے ایک بار پھر 2014 کی طرح خواب بیچنے کی کوشش کی ہے۔ اچھی حکومت وہی کہی جائے گی جوامیروں سے پیسہ وصول کرنے کا کام علی الاعلان کرسکے، تبھی وہ غریبوں یا محروموں کے لئے کچھ کرسکتی ہے۔

پیوش گوئل
پیوش گوئل
user

نواب علی اختر

سال2014 کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی کے وزیر اعظم عہدے کے امیدوار نریندر مودی کی انتخابی مہم ایک بہتر بھارت کی امید کے دھاگوں سے تیار کی گئی تھی۔ ان کا انتخابی نعرہ تھا ’اچھے دن آنے والے ہیں‘۔ اس کے علاوہ مودی نے ملازمتیں اور روزگار پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے’منیمم گورنمنٹ اورمیکسیمم گورننس‘ کے فارمولے پرچلنے کاوعدہ بھی کیا تھا۔ 5 سال بعد پتہ چلا کہ ’اچھے دن‘ بھی کسی عام انتخابی نعرے جیسا ہی تھا۔ چند روز قبل لیک ہوئی ایک سرکاری رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ نوٹ بندی جیسی ناکام اور بے ڈھنگے طریقے سے جی ایس ٹی لاگو کرنے کے بعد ہندوستان میں بیروزگاری کی سطح گزشتہ 46 سالوں میں سب سے اوپر پہنچ گئی ہے۔ اس رپورٹ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ مودی حکومت اپنی عزت بچانے کے لئے اسے دبائے بیٹھی ہوئی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ عام انتخابات سے عین قبل اس کی مبینہ ناکامیاں عوام کے سامنے آسکیں۔ حالانکہ افسران اب صفائی دے رہے ہیں کہ یہ (لیک ہوئی رپورٹ) غیرمصدقہ ہے، حتمی رپورٹ نہیں ہے، اس رپورٹ پر ابھی کام ہو رہا ہے۔

ایسی صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ جب سروے کرنے والی ٹیم نے اپنی رپورٹ حکومت کوسونپ دی ہے تو اسے جوں کی توں عام کر دینا چاہیے مگر رپورٹ روک کر رکھنے کی نیت سے صاف ہے کہ مودی حکومت کی عزت خطرے میں ہے، اس لئے اپنی سہولت کے حساب سے اس (رپورٹ) میں جوڑ توڑ کرنا چاہتی ہے۔ نوجوانوں میں بیروزگاری کے اعداد و شمار 13-27 فیصد کے درمیان ہے۔ اس سے ہرسال کام میں لگنے والے نوجوانوں کی تعداد (1-1.2کروڑ) تیزی سے نیچے گری ہے۔ سینٹرل فارمانیٹرنگ انڈین اکونامی کا کہنا ہے کہ سال 2018 میں ایک کروڑ سے زیادہ نوجوانوں نے اپنی ملازمتیں کھو دی ہیں۔اشیاء خورد و نوش کے داموں میں تیزی سے اضافہ کا نتیجہ بڑے زرعی بحران کے طور پر دیکھنے کوملا ہے اور یہ سب حکومت کی پالیسیوں سے ناراض کسانوں کی تحریکوں کے سبب ہو رہا ہے۔

ان سب کے باوجود حکومت یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ ملک میں ملازمتوں کی کمی ہے۔ جمعہ کو لوک سبھا میں این ڈی اے حکومت کے آخری عبوری بجٹ پیش کرنے کے دوران وزیرخزانہ پیوشل گویل اپنی پوری تقریرمیں غیر واضح طور پر یہ بھروسہ دلاتے رہے ہیں کہ ملک میں کافی ملازمتیں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب تک آپ کسی مسئلے کوتسلیم نہیں کریں گے، اس کاحل کیسے نکالیں گے۔ گویل کی تقریرکے ذریعہ مودی حکومت نے ایک بار پھر 2014 کی طرح خواب بیچنے کی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ مودی حکومت کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ (حکمراں طبقہ) بالخصوص ملک کے وزیراعظم دکانیں سجانے اوراس کی مارکیٹنگ کرنے میں ماہر ہیں۔ عبوری بجٹ کے نام پرعام لوگوں کو تو خوب ریوڑیاں باٹنے کی کوشش کی گئی ہیں مگریہ انتظام کہیں نہیں کیا گیا کہ یہ ریوڑیاں کہاں سے آئیں گی؟۔

اس بارعام لوگوں کو یہ ضرور سمجھنا ہوگا کہ بجٹ کیا ہوتا ہے؟ بجٹ ایک ایسا دستاویز ہے جس میں حکومت کی ممکنہ آمدنی اور اخراجات کاحساب ہوتا ہے۔ یعنی بجٹ کے ذریعے حکومت اپنی آمدنی کے لئے ریونیو وصولی کا اعلان کرتی ہے اور پھر یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ اس پیسے کو عوام کے لئے کہاں کہاں کتنا خرچ کرے گی۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی جمہوری حکومت کے سامنے سب سے پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ برابری کی سطح پرلانے کی سمت میں کام کرے۔

خاص طور پراس غریب طبقے کے لئے سب سے پہلے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو ناگفتہ بہ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کوراحت پہنچانے کے لئے حکومت کے پاس قانونی طریقہ یہ ہے کہ حکومت دولت مند اورخوشحال یعنی امیروں سے پیسہ وصول کرے اورغریبوں تک پہنچا دے۔ یعنی یہ صاف طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ کسی بجٹ کی اچھائی کوتولنے کے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ کوئی حکومت غریبوں تک سہولت پہنچانے کے لئے امیروں سے پیسہ وصول کرنے کا کتنا کام کر رہی ہے۔ اچھی حکومت وہی کہی جائے گی جوامیروں سے پیسہ وصول کرنے کا کام علی الاعلان کرسکے تبھی وہ غریبوں یا محرومین کے لئے کچھ کرسکتی ہے۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس حکومت کی مدت 5 سال کی تھی اور یہ حکومت اپنی مدت کے لئے مقرر پانچ بجٹ کا آخری بجٹ گزشتہ سال ہی پیش کر چکی تھی۔ اس حکومت کے تین ماہ اور باقی ہیں۔ اس لئے صرف تین ماہ کے اخراجات کے لئے اسے ایک عبوری بجٹ پیش کرنا تھا۔ باقی 2019-20 کا مکمل بجٹ مئی یا جون میں وجود میں آنے والی نئی حکومت پیش کرے گی۔ یعنی اس بجٹ کا جو تجزیہ کیا جانا چاہیے وہ گزشتہ سال کے بجٹ کو سامنے رکھ کر ہی کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس حکومت کے یہ آخری مہینے ہیں، اس لئے حد سے حد ہم اس حکومت کے گزشتہ 5 سالوں کے اقتصادی کام کا تجزیہ کرسکتے ہیں۔ اس میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس حکومت نے اپنے گزشتہ 5 سال میں کتنا پیسہ امیروں سے وصول کیا اور اس میں سے کتنا فنڈ غریبوں اورمحرومین پر خرچ کیا۔ اس طرح سے یہ بجٹ دستاویز اس حکومت کے 5 سال کا حساب لگانے تک محدود ہونا چاہیے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ گزشتہ 5 سال کا حساب کتاب کوئی نہیں لگا رہا ہے بلکہ سبھی یہ حساب لگا رہے ہیں کہ اس بے چارے عبوری بجٹ سے غریبوں اورمحرومین کو کیا ملنے جا رہا ہے۔ جبکہ یہ حساب تین مہینے بعد آنے والے مکمل بجٹ سے ہی طے ہونا ہے۔

اگریہ مان لیں کہ بجٹ کا مطلب امیروں سے ریونیو وصولی کا ہے تو اس بجٹ کا تجزیہ اسی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو نہ ہی حکومت بتا رہی ہے کہ اس نے اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے امیروں سے وصولی کا کیا کام کیا ہے اورنہ ہی زیادہ تر ماہرین اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ حکومت نے آمدنی میں اضافہ کرنے کا کیا انتظام کیا۔ حکومت نہ یہ بتا رہی ہے کہ اس نے ملک کے ہرطبقے کوبھر پور تحائف دیئے ہیں۔ ہر طبقے کا مطلب امیر، غریب، درمیانے اور کھاتے پیتے لوگوں کوخوب دیئے جانے کی تشہیر ہو ر ہی ہے جبکہ امیروں کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا ہے۔ بجٹ سے ہمیشہ ڈرنے والے امیروں کو بھی راحت یہ ملی ہے کہ اس بجٹ میں ان سے کچھ لینے کا اعلان نہیں ہے۔ ان کے لئے تو یہ بہت کچھ ملنے کے برابر ہے۔ یعنی سب کو اگر ملا ہی ملا ہے توجو دیا جا رہا ہے وہ کہاں سے آئے گا؟ بس یہی گتھی ہے جسے سمجھنے کے لئے ملک کے ہوشیار طبقے، اعداد وشمارکے ماہرین، اقتصادی ماہرین اور تجربہ کار اپوزیشن کو فوراً سے پہلے کام پرلگ جانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔