بہن جی داؤں الٹا پڑا تو؟

مایاوتی نے اپنی پارٹی کے مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلہ لیا ہے جس کا انہیں حق ہے لیکن اپنے اس فیصلہ سے انہوں نے یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں سے لڑنے کا ان کا دعویٰ کھوکھلا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

گزشتہ دنوں جب مایاوتی نے بی جے پی کے خلاف عظیم اتحاد یا مہا گٹھ بندھن میں شامل ہونے کے لئے با عزت سیٹیں ملنے کی شرط رکھی تھی تبھی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کے بارے میں زیادہ پر جوش نہیں ہیں کیونکہ وہ اتر پردیش سے باہر مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں جتنی سیٹیں مانگ رہی ہیں وہ ان ریاستوں میں ان کی اپنی طاقت کے مقابلہ بہت زیادہ ہیں۔

پھر بھی یہ امید تھی کہ وہ سودے بازی اور بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں گی اور جو بھی فیصلہ کرینگی وہ ان ریاستوں کے الیکشن کے اعلان کے بعد کریں گی لیکن اچانک انہوں نے چھتیس گڑھ میں کانگریس سے نکلے اجیت جوگی کی پارٹی سے سمجھوتہ کر کے اور مدھیہ پردیش میں سبھی سیٹوں پر اکیلے الیکشن لڑنے کا اعلان کر کے کانگریس سے سمجھوتے کے دروازے تقریباً بند کر دیے ہیں۔

ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ اپنی پارٹی کے عظیم تر مفاد کو سامنے رکھ کر کیا ہے جس کا انھیں پورا حق ہے لیکن اپنے اس فیصلہ سے انہوں نے یہ تو ثابت ہی کر دیا کہ فرقہ پرست طاقتوں سے لڑنے کا ان کا دعویٰ کھوکھلا اور بکواس ہے انھیں نہ ملک کے سماجی تانے بانے کی بربادی کا احساس ہے اور نہ ہی غریبوں کے منہ سے نوالہ چھین رہی مودی حکومت کی معاشی بد اعمالیوں سے کوئی پریشانی، حالانکہ وہ جس طبقہ کی مسیحائی کا دعویٰ کرتی ہیں وہی طبقہ اس حکومت اور اس پارٹی کے نظریات کا سب سے بڑا شکار ہے گجرات کے اونا سے لے کر مہاراشٹر کے بھیما پور کورے گاؤں ہو یا پھر سہارنپور کے واقعات جارح ہندوتوا کا سب سے بڑا شکار مسلمانوں کے بعد دلت ہی ہیں پھر بھی مایاوتی در پردہ سنگھ پریوار اور منووادی طاقتوں کو فایدہ پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں جس کی کئی وجوہات سیاسی مبصرین گنواتے ہیں۔

تازہ ترین اطلاع کے مطابق الہ باد ہائی کورٹ نے 14 ارب کے میموریل گھپلہ کی جانچ کی اسٹیٹس رپورٹ اترپردیش سرکار سے طلب کر لی ہے اور سخت ہدایت دی ہے کہ اس گھپلے میں شامل کوئی ملزم بچنا نہیں چاہیے لوک ایکت اور وجلینس محکمہ نے اس کی جانچ کی ہے اور یوگی حکومت شاید اسے اسی دن کے لیے دبائے بیٹھی تھی کہ وقت آنے پر اسے نکالا جائے گا۔ اس کے علاوہ بدعنوانی کے کئی اور معاملات میں مایاوتی ان کے بھائی اور ان کے زمانے کے افسران اور وزرا ملوث ہیں حالانکہ بدعنوانی کے الزامات ان پر اس سے پہلے بھی لگتے رہے ہیں، تاج کوریڈور، آمدنی سے زیادہ اثاثہ وغیرہ کے مقدمہ سے وہ اب تک بچتی رہی ہیں لیکن دل میں کہیں نہ کہیں چور تو بیٹھا ہی ہے کی بڑھاپے میں کہیں لالو پرساد یادو جیسا انجام نہ ہو اس کے ساتھ انھیں بھی یہ احساس تو ہوگا ہی کہ حکومت بدل بھی سکتی ہے بی جے پی کے بجاے غیر بی جے پی سرکار بھی بن سکتی ہے تب کیا ہوگا۔ اس لئے محض مقدموں کے ڈر سے انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے یہ ایک وجہ تو ہو سکتی لیکن واحد وجہ نہیں ہو سکتی۔

مایاوتی کایہ سیاسی کھیل دور اندیشی والا ہے وہ اتر پردیش سے باہر اپنی طاقت بڑھانا چاہتی ہیں انھیں اندازہ ہے کہ اگلی پارلیمنٹ معلق ہو سکتی ہے اور کوئی بھی دیوگوڑا کی طرح ایک دم سے منظر عام پر آکر وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ سکتا ہے، ان کی ریاضی یہ لگتی کہ اگر وہ اتر پردیش اور دیگر ریاستوں سے پچاس سیٹیں لے آیئں تو ان کا دعویٰ کافی مضبوط ہو سکتا ہے حالانکہ انھیں یہ بھی ذہن نشیں رکھنا چاہیے کہ گنگا جمنا اور گومتی میں بہت پانی بہہ چکا ہے اپنی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی لا محدود خواہشوں اور سیاسی قلا بازیوں کی وہ بہت بڑ ی قیمت ادا کر چکی ہیں، اترپردیش اسمبلی اور اس سے قبل پارلیمنٹ میں اکیلے چلنے کی پالیسی کی وہ بھاری سیاسی قیمت ادا کر چکی ہیں دلتوں کے درمیاں ہی ان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرا ہے۔

یہی حال مسلم ووٹوں کا بھی ہے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کو ووٹ دیتا رہا ہے لیکن اپنی سیاسی قلا بازیوں سے وہ مسلسل اس کا اعتماد کھوتی جا رہی ہیں اور اس اسمبلی اور مجوزہ پارلیمانی الیکشن میں اگر وہ مہا گٹھ بندھن سے دور رہیں تو رہا سہا اعتماد بھی کھو بیٹھیں گی- دلتوں کی تمام ذیلی ذاتوں میں ان کا سب سے زیادہ اثر جاٹووں پر تھا اور یہی سیاسی طور سے سب سے بیدار ذات ہے باقی پاسی، کوری، بالمیکی وغیرہ پر بی جے پی نے مضبوط گرفت بنائی ہوئی ہے وہ کم و بیش ابھی برقرار ہے، جاٹووں میں اب چندر شیکھر اور جگنیش میوانی جیسے نوجوان لیڈر ابھر چکے ہیں جو مایاوتی کی قیادت کے لئے چیلنج ہیں مایاوتی کے سامنے ان ابھرتے نوجوانوں سے نپٹنے کا بھی چیلنج ہے اس لئے وہ دو محاذوں پر لڑ رہی ہیں اگر مجوزہ اسمبلی اور پھر پارلیمانی الیکشن میں وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو وہ ایک طرف سیاسی طور سے مضبوط ہوں گی دوسری طرف دلت سیاست کا جو محور وہ بن چکی ہیں وہ بھی برقرار رہے گا، مایاوتی نے اکیلا چلو کی پالیسی اختیار کر کے ایک زبردست سیاسی داؤں بھی چلا ہے اور بہت بڑا خطرہ بھی مول لیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 23 Sep 2018, 12:58 PM
/* */