مہاراشٹر: الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے!... اعظم شہاب

16 شیوسینا اراکین اسمبلی کی اہلیت سے متعلق فیصلے کی آخری تاریخ 10 جنوری ہے، اگر اسپیکر انھیں اہل قراردیتے ہیں تو یہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی اور اگر نااہل ٹھہراتے ہیں تو حکومت گر جائے گی۔

<div class="paragraphs"><p>مہاراشٹر اسمبلی کے اسپیکر راہل نارویکر (درمیان میں)، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

مہاراشٹر اسمبلی کے اسپیکر راہل نارویکر (درمیان میں)، تصویر آئی اے این ایس

user

اعظم شہاب

ذرا اس شخص کی کیفیت کا اندزہ لگائیے جوایک جانب تو یہ ڈینگیں مارتا پھرے کہ وہ تنہا شیر کو پنجرے میں قید کر سکتا ہے اور دوسری جانب شیر کے ذکر پر ہی اس کے پیر لرزنے لگیں۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کی آج کل یہی کیفیت ہے۔ اس کے لیڈران ایک جانب ریاست بھر میں گھوم گھوم کر یہ دعویٰ کرتے نہیں تھک رہے ہیں کہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی ریاست کی 48 میں سے 45 سیٹیں جیتے گی، تو دوسری جانب 10 جنوری کے خوف سے ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے اسمبلی کے اسپیکر کو شیوسینا کے ان 16 ارکان اسمبلی کی اہلیت سے متعلق 10 جنوری تک فیصلہ کرنے کی آخری مہلت دی تھی جو بی جے پی کی آپریشن لوٹس کے نتیجے میں پارٹی وہپ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایکناتھ شندے کے ساتھ بغاوت کیے تھے۔ اس مہلت کے ختم ہونے سے قبل ہی اسپیکر کو فیصلہ کرنا ہوگا وگرنہ گیند سپریم کورٹ کے پالے میں چلا جائے گا۔

اس معاملے میں سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 17 اکتوبر کو اسمبلی کے اسپیکر راہل نارویکر کو شیو سینا پارٹی میں پھوٹ کے بعد ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے گروپ کے اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دینے کی درخواستوں پر فیصلہ لینے کی آخری تاریخ دی تھی۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ نااہلی کی درخواستوں پر جلد از جلد فیصلہ آنا چاہیے، جس کے بعد سماعت 30 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی تھی۔ پھر 30 اکتوبر کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے اسپیکر کو ایم ایل اے کی نااہلی پر فیصلہ لینے کے لیے 31 دسمبر تک کا وقت دیا۔ اسپیکر صاحب کا تعلق چونکہ بی جے پی سے ہے اور حالات واقعات کے تناظر میں فیصلہ کرنے کی صورت میں ایکناتھ شندے سمیت 16 ممبران نااہل ہو سکتے تھے جس کے نتیجے میں حکومت گر سکتی تھی، اس لیے انہوں نے آخری تاریخ کو مزید آگے بڑھانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے، جس پر کورٹ نے 31 دسمبر کے بجائے 10 جنوری تک مدت بڑھا دی۔


اب اسمبلی اسپیکر صاحب کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایت کی تعمیل کرتے ہوئے ایکناتھ شندے کے ساتھیوں کی نااہلی کا فیصلہ کریں یا پھر جس طرح گزشتہ ڈیڑھ سال سے اس معاملے کو ملتوی در ملتوی کیا جا رہا ہے، اس بار بھی وہ وہی کریں۔ اگر وہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق 10 جنوری تک فیصلہ کرتے ہیں تو بی جے پی کی قیادت والی ایکناتھ شندے و اجیت پوار کی حکومت گر جائے گی کیونکہ سپریم کورٹ نے ادھو ٹھاکرے کے گروپ کے وہپ کو ہی اصل تسلم کیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جو بی جے پی کے لیے ایک زبردست ہزیمت اور ادھو ٹھاکرے گروپ کی بڑی جیت ہوگی۔ لیکن اگر وہ اس معاملے کو ایک بار پھر التواء کر دیتے ہیں تو پھر سپریم کورٹ خود ہی اس کا فیصلہ کر دے گا، کیونکہ گزشتہ سماعت میں عدالت نے اسپیکر صاحب کی اچھی طرح خبر لے لی تھی۔ اس کے علاوہ عدالت نے 10 جنوری تک کی جو مہلت دی تھی وہ اسپیکر صاحب کی درخواست پر دی تھی۔ ایسے میں اگر اسے ایک بار پھر ملتوی کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسپیکر صاحب ممبران اسمبلی کی اہلیت کا فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ یہ دونوں ہی صورتیں بی جے پی کے لیے نہایت پریشان کن ہیں، مگر کیا کرے کہ وہ اس سے بھاگ بھی نہیں سکتی ہے۔

اس معاملے میں مہاراشٹر کی میڈیا میں یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ اسپیکر صاحب نے اپنا فیصلہ تحریر فرما دیا ہے اور مسودے کو توثیق کے لیے دہلی کے قانونی ماہرین کے پاس روانہ کر دیا ہے۔ کیا یہ مزیدار بات نہیں ہے کہ مہاراشٹر کے ارکانِ اسمبلی کی اہلیت سے متعلق فیصلے کی توثیق دہلی کے قانونی ماہرین کریں گے۔ گویا مہاراشٹر میں قانونی ماہرین کا قحط سا پڑ گیا ہے یا مہاراشٹر کے قانونی ماہرین اس قابل ہی نہیں ہیں کہ وہ اس معاملے پر قانونی رائے دے سکیں۔ معلوم نہیں اسپیکر صاحب کو اس تکلف کی ضرورت کیوں آن پڑی۔ یوں بھی ریاست کا بچہ بچہ یہ بات جانتا ہے کہ ریاستی حکومت کا پورا فیصلہ دہلی دربار سے ہوتا ہے یہاں تک کہ اس دربار نے اس شخص کو نائب وزیر اعلیٰ بننے پر مجبور کر دیا جو الیکشن کے دوران یہ اعلان کیا کرتا تھا کہ میں دوبارہ آؤں گا۔ ایسے میں یہ بات ناقابلِ یقین ہے کہ ریاستی حکومت کے مستقبل سے متعلق کوئی فیصلہ دہلی دربار کی مرضی کے بغیر ہو سکتا ہے۔


ملک بھر میں جن جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت قائم ہے یا وہ جہاں بھی حکومت میں شامل ہے، مودی جی اسے ڈبل انجن والی حکومت کہتے ہیں۔ اس میں ایک انجن سے ان کی مراد مرکزی حکومت ہوا کرتی ہے تو دوسرے انجن سے مراد ریاستی حکومت۔ اس طرح دیکھا جائے تو پورے ملک کی حکومتیں ڈبل انجن والی ہی حکومت ہوگی، کیونکہ مرکزی حکومت کی یہ آئینی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ریاستی حکومتوں کی ہر ممکن مدد کرے۔ لیکن چونکہ مودی دور میں اپوزیشن پارٹیوں اور غیر بی جے پی ریاستی حکومتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں رہ گئی ہے، اس لیے مودی جی صرف بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کو ہی ڈبل انجن کی حکومت کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے تو مہاراشٹر کی حکومت چار انجنوں والی حکومت ہوگی کیونکہ اس میں مرکزی حکومت کے ساتھ ریاستی بی جے پی، ایکناتھ شندے کی شیو سینا اور اجیت پوار کی این سی پی شامل ہے۔ ایسے میں اسپیکر کے فیصلے سے اگر ریاستی حکومت کی صحت پر کوئی فرق پڑتا ہے تو یہ چار انجنوں والی حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہوگا، جس پر ریاست بھر کے لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے سابقہ فیصلے سے اگر ایک جانب اسپیکر کے لیے مدت طے کر دی تھی تو وہیں گورنر کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے اپنی منشاء بھی ظاہر کر دی تھی۔ اس لیے یہ بات صاف طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اسپیکر جو بھی فیصلہ کرے ریاستی حکومت گر جائے گی۔

(مضمون نگار کی رائے سے ’قومی آواز‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔