مہاراشٹر: آپریشن لوٹس کا سائڈ ایفکٹ!

مشہور مراٹھی روزنامہ ’سکال‘ کےسروے میں 47؍اعشاریہ 7 فیصد لوگوں نے مہاوکاس اگھاڑی کو اپنی پہلی پسند بتایا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ 10؍ماہ قبل کئے گیے آپریشن لوٹس کو عوام نے قطعی پسند نہیں کیا ہےـ

ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس
ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس
user

اعظم شہاب

اپنے جس ہنر کے ذریعے مودی و شاہ صاحب نے مہاراشٹر میں مہاوکاس اگھاڑی کی سرکار گرا کر بی جے پی کی سرکار بنائی اور جس چانکیہ نیتی کے ذریعے شیوسینا میں بغاوت کروائی، کیا وہ ہنر اور وہ چانکیہ نیتی بی جے پی کو اب بھاری پڑنے لگی ہے؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ مہاراشٹر کے ایک بڑے مراٹھی روزنامہ ’سکال‘ نے ایک سروے کیا ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ اگر فی الوقت اسمبلی وپارلیمانی انتخابات ہوتے ہیں تو بی جے پی وشندے کی شیوسینا مہاوکاس اگھاڑی سے ہار جائے گی اور دوبارہ مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت بن جائے گی۔ پارلیمانی سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے مہاراشٹر چونکہ ملک کی دوسری بڑی ریاست ہے اور جہاں آپریشن لوٹس کے ذریعے شیوسینا کو توڑ کر بی جے پی نے حکومت بنائی تھی، اس لیے سکال کا یہ سروے کافی اہمیت کا حامل مانا جا رہا ہے۔

سکال مراٹھی ایک بڑا روزنامہ ہے اور عوام کا اس پر زبردست اعتماد ہے۔ جولوگ مہاراشٹرکے بارے میں جانتے ہیں انہیں پتہ ہوگا کہ سکال ایک بڑا اخبار ہے جسے مراٹھی کا ٹائمس آف انڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ اس اخبار نے مراٹھی کے ’سام‘ ٹی وی نیوزچینل اور ’سرکارنامہ‘ نامی نیوز ویب پورٹل کی مدد سے 29؍مئی 2023 کو یہ سروے پیش کیا ہے۔ یہ سروے 288؍اسمبلی اور48 پارلیمانی حلقوں میں کیا گیا ہے جس میں تقریباً پچاس ہزار لوگوں سے بات کی گئی ہے جن میں 32فیصد عورتیں ہیں۔ اس لحاظ سے اس سروے کا سیمپل سائز کافی بڑا ہے۔ اس سروے کے مطابق 33؍اعشاریہ 8 فیصد لوگوں نے بی جے پی کو، 5؍اعشاریہ 5 فیصد لوگوں نے ایکناتھ شندے کی شیوسینا کو، 19؍اعشاریہ 9 فیصد لوگوں نے کانگریس کو، 15؍اعشاریہ 3 فیصد لوگوں نے این سی پی کو، 12؍اعشاریہ 5 فیصد لوگوں نے ادھوٹھاکرے کی شیوسینا کو، صفر اعشاریہ 7 فیصد لوگ شیتکری کامگار پارٹی اور 2؍اعشاریہ 9 فیصد لوگوں نے ونچت بہوجن اگھاڑی کو اپنی پہلی پسند بتایا ہے۔


ان سروے کے اعداد وشمار کو اگر پارٹیوں کے اتحاد کے مطابق دیکھا جائے تو مہاوکاس اگھاڑی کو کل 47؍اعشاریہ 7 فیصد لوگوں نے اپنی پہلی پسند بتایا ہے جبکہ بی جے پی وایکناتھ شندے کی شیوسینا کا مجموعی فیصد 39؍اعشاریہ 3 ہے۔ یعنی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو این ڈی اے سے 8 فیصد زائد لوگوں نے پسند کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے کے پاس تقریباً 40؍ایم ایل اے اور 13؍ممبرپارلیمنٹ ہیں جبکہ ادھوٹھاکرے کے پاس محض 13؍ایم ایل اے اور 5 ممبر پارلیمنٹ ہیں، اس کے باوجود ایکناتھ شندے کی شیوسینا کو ادھوٹھاکرے کی شیوسینا کے مقابل عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ شیوسینا کا انتخابی نشان اور نام بھی ایکناتھ شندے کو حاصل ہوگیا ہے جبکہ ادھوٹھاکرے کو نئے نام ونشان کے ساتھ عوام میں جانا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ایکناتھ شندے نے ادھوٹھاکرے سے بغاوت کرکے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلی ہے کیونکہ عوام میں ان کی پسندیدگی محض ساڑھے پانچ فیصد ہی ہے۔

اپنے بدنام زمامہ آپریشن لوٹس کے تحت مہاراشٹر میں بی جے پی نے شیوسینا کے 39 ممبرانِ اسمبلی کو توڑکر مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت گرائی تھی۔ اسی کے ساتھ 18؍ میں سے 13؍ ممبرانِ پارلیمنٹ نے بھی ادھوٹھاکرے کا ساتھ چھوڑکر مرکز کی بی جے پی حکومت کے ساتھ آگئے تھے۔ ان ممبران کو توڑنے کے لیے جن جن حربوں کا استعمال کیا گیا اور جو جو داؤ چلے گئے وہ مہاراشٹر کی سیاست کے ایک تاریک باب بن گئے۔ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر دیوندر فڈنویس تو شب وروز مہاوکاس اگھاڑی حکومت گرانے میں ہی لگے رہتے تھے اور ان کے ساتھ مرکزی تفتیشی ایجنسیاں بھی ایم وی ے کے لیڈروں کے پیچھے یکے بعد دیگرے لگی رہتی تھیں۔ یہ آپریشن لوٹس کی ہی حکمت عملی تھی کہ اس وقت کے وزیر داخلہ انیل دیشمکھ اور ادھوٹھاکرے کی شیوسینا کے ترجمان سنجے راؤت کو سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا تھا جبکہ این سی پی کے قومی ترجمان نواب ملک ہنوز جیل میں ہیں۔


 یوں تو مہاوکاس اگھاڑی حکومت بننے کے بعد سے ہی اسے گرانے کی کوششیں جاری تھیں لیکن پیسوں کی فراوانی، مرکزی اقتدار کی طاقت اور ایجنسیوں کے بے دریغ استعمال کے باوجود کامیابی تین سال بعد ملی۔ گویا 2019 سے ہی جاری آپریشن لوٹس کا کلائمکس 10؍ماہ قبل شیوسینا میں بغاوت کی شکل میں ہوا۔ اس آپریشن لوٹس کے تحت پہلے این سی پی کے ممبران کو گھیرا گیا تھا لیکن جب وہ نہیں جھکے تو شیوسینا پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اس کے تحت پہلے شیوسینا کے درجن بھر سے زائد ممبرانِ اسمبلی کے خلاف ای ڈی کی کارروائی کروائی گئی، جن میں آج کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے بھی شامل تھے۔ اسی کارروائی کے تحت اس وقت شندے صاحب کے ایک پی اے انڈرگراؤنڈ ہوگئے تھے۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ایجنسیوں کی دھمکیوں کے ساتھ ہی ہر باغی ممبر کو فی کس پچاس کروڑ روپئے بھی دیئے گیے تھے جس کی بناء پر موجودہ حکومت کو ’کھوکے کی سرکار‘ یعنی کروڑوں روپئے میں بنائی گئی حکومت کہا جاتا ہے۔

2019 کے اسمبلی انتخابات سے عین قبل اے بی پی سی ووٹر کے ذریعے کیے گئے ایک سروے میں بی جے پی کو 46 سے47 فیصد لوگوں کی پہلی پسند بتایا گیا تھا۔ 2019 کے انتخاب کے جو نتائج آئے تھے اس میں بی جے پی کا اسٹرائک ریٹ 58 فیصد تھا۔ بی جے پی نے 164؍سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں سے105؍پر اسے کامیابی ملی تھی۔ لیکن آپریشن لوٹس کے بعد پورے مہاراشٹر میں بی جے پی کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی کے ذریعے ادھوٹھاکرے کی شیوسینا کو توڑنے اور مہاوکاس اگھاڑی حکومت گرانے کو ریاست کے عوام نے قطعی پسند نہیں کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سکال کے اس سروے میں بی جے پی کی مقبولیت میں 13؍فیصد کمی نظر آرہی ہے۔ دوسری جانب مہاوکاس اگھاڑی کی مقبولیت عوام میں دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ ریاست میں اسمبلی وپارلیمانی انتخابات میں ابھی سال بھر کا وقت ہے، اگر ایم وی اے کی مقبولیت اور بی جے پی وشندے گروپ یہ زوال پذیری ہنوز برقرار رہی تو بعید نہیں یہ 8 فیصد کا فاصلہ بڑھ کر 16؍ یا 20 تک پہنچ جائے۔ ’سکال‘ کا یہ سروے اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست میں بی جے پی کے آپریشن لوٹس کا سائیڈ ایفکٹ شروع ہوگیا ہے۔

(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔