مہاراشٹر: اقتدار سے باہر کرنے کے باوجود اُدھو کو منانے کی کوششیں جاری، بھاگوت-فڑنویس ملاقات سے سیاسی ہلچل تیز

یہ خبر موضوعِ بحث ہے کہ آر ایس ایس چیف بھاگوت شیوسینا چیف ادھو کے تئیں اب بھی نرم رخ رکھتے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی رائے میں ٹھاکرے کی شیوسینا کو توڑنے سے ہندو ووٹوں کا بٹوارا ہوگا۔

(دائیں سے بائیں) فڑنویس-ادھو-بھاگوت
(دائیں سے بائیں) فڑنویس-ادھو-بھاگوت
user

نوین کمار

مہاراشٹر میں شیوسینا کے باغی اراکین اسمبلی کے سہارے بی جے پی نے حکومت تو بنا لی ہے، لیکن سیاسی اتھل پتھل اب بھی جاری ہے۔ اسی ضمن میں پیر کو ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے ناگپور جا کر آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے بند کمرے میں تقریباً ایک گھنٹے تک بات چیت کی۔ حالانکہ اس بات چیت کی پوری تفصیل سامنے نہیں آئی ہے، لیکن آر ایس ایس ذرائع کے حوالے سے یہ خبر موضوعِ بحث ہے کہ بھاگوت شیوسینا چیف ادھو ٹھاکرے کے تئیں اب بھی نرم رخ رکھتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق آر ایس ایس مہاراشٹر میں ہونے والے کسی بھی انتخاب میں ہندوؤں کے ووٹ تقسیم نہیں ہونے دینا چاہتی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی رائے میں ٹھاکرے کی شیوسینا کو توڑنے سے ہندو ووٹوں کا بٹوارا ہوگا اس لیے ادھو ٹھاکرے کو منانے کی کوشش ہونی چاہیے۔

پس منظر یہ ہے کہ شیوسینا کے 40 اراکین اسمبلی نے ہندوتوا کے نام پر بغاوت کر دی تھی اور ایکناتھ شندے کے ساتھ الگ گروپ بنا لیا تھا۔ ان کے ساتھ 10 آزاد امیدوار بھی آ کر جڑ گئے تھے۔ انہی کے سہارے بی جے پی نے اس گروپ کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینے کا دعویٰ ٹھوک دیا اور وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کی مہاوِکاس اگھاڑی حکومت کا اختتام ہو گیا۔ لیکن جس ہندوتوا کے نام پر شیوسینا کا باغی گروپ الگ ہوا، وہ بی جے پی کے ہندوتوا سے مختلف ہے۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ ان کا ہندوتوا بال ٹھاکرے کا ہندوتوا ہے اور گروپ نے انہی کے نظریات کو آگے بڑھانے کے لیے بی جے پی کے ساتھ حکومت تشکیل دی ہے۔ لیکن نئی حکومت ابھی کئی قانونی اڑچنوں کا سامنا کر رہی ہے۔ حالانکہ ایسا مانا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت کی مدد سے فی الحال یہ اڑچنیں شندے-بی جے پی حکومت کو پریشان نہیں کر رہی ہے۔


دلچسپ یہ ہے کہ نئی حکومت میں بی جے پی کے دیویندر فڑنویس نائب وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔ یہی تجویز ادھو ٹھاکرے نے 2019 اسمبلی انتخاب کے بعد بی جے پی کے سامنے رکھا تھا، لیکن بی جے پی نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ معاملہ پھنسنے کے بعد ادھو ٹھاکرے نے شرد پوار کی این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مہا وِکاس اگھاڑی بنا کر اتحاد کی حکومت تشکیل دی تھی۔

بی جے پی کو پہلے دن سے ہی یہ بات پریشان کر رہی تھی۔ اب حکومت میں ہونے کے باوجود سیاسی طور پر جاری اتھل پتھل کے درمیان فڑنویس اور بھاگوت کی ملاقات کو کافی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ پیر کی شب تقریباً 9.15 بجے فڑنویس آر ایس ایس ہیڈکوارٹر میں موہن بھاگوت سے ملے۔ تقریباً ایک گھنٹے چلی میٹنگ میں بتایا جا رہا ہے کہ بحث کا مرکز دو طرح کے ہندوتوا کے نام پر ہندو ووٹوں کے بنٹوارے کو روکنا تھا۔ آر ایس ایس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بھاگوت نے فکر ظاہر کیا کہ اگر ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو ہندو ووٹ بینک تقسیم ہو سکتا ہے اور آنے والے انتخابات میں اس کا نقصان بی جے پی کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔


سیاسی حلقوں میں فڑنویس-بھاگوت ملاقات کو الگ نظریے سے دیکھا جا رہا ہے۔ ناگپور سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار پردیپ میترا مانتے ہیں کہ ’اینٹی ہندو لابی میں ادھو ٹھاکرے کے شامل ہونے سے بھاگوت ناراض تھے۔ فی الحال ادھو اس لابی سے باہر ہیں۔ اس لیے بھاگوت ان کے تئیں تھوڑا نرم ریہ رکھ سکتے ہیں۔‘ میترا اشارہ کرتے ہیں کہ باغی شیوسینا لیڈر اور وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے سہارے جہاں ٹھاکرے کی شیوسینا کو توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے، وہیں شندے گروپ اب بھی ادھو ٹھاکرے پر کوئی نشانہ نہیں سادھ رہا ہے۔ حال ہی میں تشکیل ایگزیکٹیو میں بھی ادھو ٹھاکرے کو ہی سربراہ مانا گیا ہے۔

ناگپور کے ہی سیاسی تجزیہ کار جوسیف راؤ بھی کہتے ہیں کہ ’’ادھو ٹھاکرے بی جے پی سے ہندوتوا کو ہائی جیک کرنا چاہتے تھے جس سے بھاگوت ان سے خفا تھے۔ لیکن اب جس طرح سے شیوسینا کے ایک بڑے گروپ نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہے اس سے بھاگوت بہت خوش نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ٹھاکرے کے نام پر ہندوؤں کے ووٹ بنٹنے کا اندیشہ کم نہیں ہوا ہے۔ اس سے بھاگوت بھی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھاگوت اور فڑنویس کے درمیان جو سیاسی تبادلہ خیال ہوا ہے اس میں ہندوؤں کا ووٹ اہم ایشو رہا ہوگا۔‘‘


اِدھر ممبئی کے سیاسی تجزیہ کار ابھیمنیو شیتولے کا ماننا ہے کہ جب ادھو نے کہا تھا کہ ’شیوسینا کا ہندوتوا چڈی اور جنیو دھاری نہیں ہے‘ تب اسے آر ایس ایس نے نوٹس میں لیا تھا اور اس کے بعد سے ہی ادھو کے خلاف آپریشن شروع ہوا تھا۔ اب شندے بالا صاحب ٹھاکرے کے ہندوتوا کو آگے لے جانے کی بات کہہ رہے ہیں۔ لیکن بی جے پی کو شندے میں ہندتوا کی جگہ مراٹھا پالیٹیکل چہرہ نظر آ رہا ہے جس کا فائدہ بی جے پی 2024 کے انتخاب میں اٹھانا چاہتی ہے۔ شیتولے کہتے ہیں کہ اِدھر ادھو بھلے ہی ابھی اپنے ہندوتوا کے ساتھ پارٹی اور تنظیم کو بچانے کی حالت میں دکھائی دے رہے ہوں، لیکن بھاگوت اور بی جے پی کی فکر ہے کہ اگر ادھو نے یہ بات پھیلائی کہ بی جے پی نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک ہندتوادی پارٹی (شیوسینا) کو توڑا ہے تو آنے والے انتخابات میں اس کا خمیازہ بی جے پی کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔