مہاراشٹر: چوری کے مال پر سینہ زوری!

ریاست میں بی جے پی حکومت کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے کوئی شخص چوری وڈکیتی کے مال پر اپنی دوکان سجالے۔

ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس
ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس
user

اعظم شہاب

مہاراشٹر کی سیاست ہالی ووڈ کی سسپنس والی فلم ہوگئی ہے کہ ہر روزکچھ نہ کچھ نیا سامنے آتا جا رہا ہے۔ اجیت پوار کی بغاوت کے بعد وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے تال ٹھوک رہے تھے کہ اب ہماری سرکار ’ٹریپل انجن‘ کی ہوچکی ہے جو مزید مضبوطی کے ساتھ کام کرے گی۔ لیکن دو دن بعد ہی ادھوٹھاکرے کے صاحبزادے آدتیہ ٹھاکرے کے اس بیان نے کھلبلی مچادی کہ شندے گروپ کے دو درجن تک ارکان ’گھر واپسی‘پر غور کر رہے ہیں اور ہمارے رابطے میں ہیں۔ ابھی اس خبر کو ’افواہ‘قرار ہی دیا جارہا تھا پتہ چلا بی جے پی کے خیمے میں بھی کچھ لوگ دبی زبان میں اپنا حق مارے جانے کا شکوہ کرنے لگے ہیں۔ ان کی شکایت یہ ہے کہ جب بی جے پی کے پاس 105؍ ایم ایل اے اور شندے و اجیت پوار کے پاس 40؍ اور 42 ہیں۔ تو پھرشندے و اجیت پوار گروپ کو بی جے پی جتنی وزارتیں کیوں دی گئی ہیں؟

9 جولائی 23 کو دیوندرفڈنویس نے بی جے پی کے لیڈروں کی ایک میٹنگ بلائی تھی تاکہ ان کی شکایت کا ازالہ کیا جاسکے۔ اس میٹنگ میں انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر میں ایم وی اے کی طاقت ہمارے لیے ایک خطرہ بن گئی تھی، اس کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے ہم نے این سی پی کو توڑا ہے۔ فڈنویس کے اس بیان پر ممکن ہے بی جے پی کے لوگوں نے تالیاں بجائی ہوں، لیکن اپنے ہاتھوں اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے فڈنویس نے ایم وی اے کے سامنے اپنی کمزوری کا بھی اعتراف کر دیا۔ اگر ایم وی اے کی طاقت بی جے پی کے لیے خطرہ تھی تو یقیناً بی جے پی ایم وی اے سے کمزور تھی۔ اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے این سی پی کو توڑا گیا، لیکن بدقسمتی سے داؤ الٹا پڑگیا۔ اب بھلا فڈنویس کو یہ کون سمجھائے کہ اپنے برابر عہدہ او روزارت دینے کے وعدے پر کسی پارٹی کے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لینے کو’توڑنا‘ نہیں بلکہ ’سودے بازی‘ کہا جاتا ہے۔


دو روز قبل ’یوگ پوروش‘ جی نے راجستھان میں کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کا مطلب لوٹ کی دوکان اور جھوٹ کا بازار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیان انہوں نے ایسے وقت دیا جب ان کے بیان کا اطلاق براہ راست ان کی ہی پارٹی پر ہو رہا ہے۔ پردھان سیوک کے اس بیان کے حوالے سے شیوسینا یو بی ٹی کے ترجمان ’سامنا‘ میں بی جے پی کی جو خیریت دریافت کی گئی ہے، اسے پڑھ پڑھ کر بی جے پی کے لوگ یقینا بخار میں مبتلا ہوگئے ہوںگے۔ سامنا میں سوال کیا گیا ہے کہ ’کانگریس کا مطلب اگر لوٹ کی دوکان، جھوٹ کا بازار‘ ہے تو لوٹ کا مال خرید کر بی جے پی اپنا گھر کیوں بھر رہی ہے؟ دراصل بی جے پی ہی اب قومی چور بازار ہوگئی ہے۔ چوری ولوٹ کا مال خریدنے والی پارٹی کے طور پر وہ بدنام ہوچکی ہے۔ مہاراشٹر کے نائب وزیراعلیٰ فڈنویس کہتے ہیں کہ میں نے کہا تھا کہ میں دوبارہ آؤں گا، وہ آئے لیکن اپنے ساتھ اور دو ایسے لوگو ں کو لے کر آئے جن پر بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فڈنویس آتے ہوئے چوری اور لوٹ کا مال ساتھ لائے۔

چونکہ اجیت پوار کو این سی پی سے توڑنے اور حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ دہلی دربار سے ہوا، اس لیے فڈنویس صاحب ریاستی بی جے پی لیڈروں کی نہ تو ناراضگی دور کر پا رہے ہیں اور نہ ہی اجیت پورا کو نوازے جانے کی کوئی وضاحت۔ اس لئے انہیں یہ اعتراف کرنا پڑگیا کہ اجیت پوار کو این سی پی سے توڑنا ریاست میں اپوزیشن کے مضبوط اتحاد کو کمزور کرنے کے لیے ضروری تھا۔ ابھی تک بی جے پی یہ کہتے نہیں تھک رہی تھی کہ اجیت پوار کی بغاوت میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے، لیکن فڈنویس کے اس اعتراف سے بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی طرح کا دعویٰ شندے کی بغاوت کے وقت بھی کیا جا رہا تھا۔ لیکن اسی دوران یہ خبر بھی آگئی کہ اجیت پوار گروپ کی جانب سے وزیراعلیٰ سے یہ سوال کیا جانے لگا ہے کہ دھوم دھام سے حلف براداری تو کروادی گئی، اب محکمہ جات کب الاٹ کیے جائیں گے؟اب بھلا وزیراعلیٰ صاحب اس کا کیا جواب دیں، کیونکہ خود ان کا عہدہ بھی تختِ دہلی کا مرہونِ منت ہے۔


سچائی تو یہ ہے کہ دہلی کی مدد سے مہاراشٹر میں این سی پی کو توڑ تو دیا گیا لیکن اس کے نتیجے میں ریاست میں اٹھنے والی سیاسی لہروں کا مقابلہ اب بی جے پی نہیں کر پا رہی ہے۔ ایم وی اے کی جانب سے بی جے پی پر جس پیمانے پر تنقید کی جارہی ہے اس نے بی جی پی کی حالت غریب کی اس جورو کی سی بنا دی ہے جسے ہر کوئی ’بھابھی‘ کہہ رہا ہے۔ راج ٹھاکرے کی پارٹی جو بی جے پی کوفائدہ پہنچانے والے ہراول دستوں میں سے ایک تھی، اس نے تو ریاست بھر میں بی جے پی کے خلاف باقاعدہ ایک دستخطی مہم شروع کر دی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بی جے پی کی ہزیمت تو یہ ہوگئی ہے کہ ریاست بھر میں ایم وی اے کے حق میں ہمدردی میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ اجیت پوار کی بغاوت کو لوگ علانیہ طور پر بی جے پی کی لوٹ اور ڈرانے دھمکانے کی سیاست قرار دے رہے ہیں، جو ظاہر ہے کہ ایم وی اے کے حق میں بڑھتی ہوئی ہمدردی کا ثبوت ہے۔

(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔