مہاراشٹر: بی جے پی کا تین، تیرہ، تیئس!

مہاراشٹر سے بی جے پی کو بہت زیادہ امیدیں ہیں لیکن تین روز قبل آنے والے انڈیا ٹوڈے-سی ووٹر کے سروے میں وہ پہلے سے بھی نیچے کھسک گئی ہے۔

بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

دہلی کے اقتدار اعلیٰ تک پہنچنے میں اترپردیش کی شاہراہ کی مانند مہاراشٹر کی رہ گزر بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ مہاراشٹر میں لوک سبھا کی 48 سیٹیں ہیں جو یوپی کی80 سیٹوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تین روز قبل یعنی 25 اگست کو انڈیا ٹوڈے سی ووٹر کا ایک سروے آیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مہاراشٹر کی 48 سیٹوں میں سے بی جے پی کو 20 سیٹیں مل سکتی ہیں، جبکہ ’انڈیا‘ اتحاد 28 سیٹیں حاصل کر سکتی ہے۔ ایک ایسی ریاست میں جو سیٹوں کے لحاظ سے ملک کی دوسری بڑی ریاست ہو، جہاں بی جے پی کی حکومت ہو، دو بڑی پارٹیوں کو توڑ کر بی جے پی اپنے ساتھ ملا چکی ہو اور سب سے بڑھ کر جہاں آر ایس ایس کا مرکز ہو وہاں پر اس کے سابقہ سیٹوں میں سے نصف پر سمٹ جانے کا امکان یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ 2024 میں دہلی کے اقتدار تک جانے کا راستہ بی جے پی کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا گودی میڈیا کے ذریعے بتایا جا رہا ہے۔

مہاراشٹر میں آپریشن لوٹس کی کامیابی کے بعد بی جے پی کو یہ توقع تھی کہ ریاست کی 288 اسمبلی و 48 پارلیمانی سیٹوں پر وہ کامیابی کے اپنے پچھلے ریکارڈ توڑ دے گی۔ 2019 میں شیوسینا کے ساتھ مل کر اس نے 145 اسمبلی و 41 پارلیمانی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی، لیکن شیوسینا کے کانگریس و این سی پی کے ساتھ چلے جانے سے اقتدار کی کرسی اس کے ہاتھ آتے آتے رہ گئی۔ شیوسینا کی علیحدگی کے بعد بی جے پی کی حالت اس شخص کی سی ہو گئی جو گلے میں ہار پھول ڈال کر گنگا اشنان کرنے تو گیا لیکن کنارے پہنچتے ہی اس کے پیر پھسل گئے۔ ایم وی اے کی حکومت بننے کے بعد سے لے کر آپریشن لوٹس کی کامیابی تک بی جے پی جل بن مچھلی کی طرح تڑپتی رہی۔ جون 2022 میں ایکناتھ شندے نے ادھو ٹھاکرے سے بغاوت کے بعد جب بی جے پی کا دامن تھاما تو اس نے سوچا کہ اب مہاراشٹر میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں پکڑ سکتا، لیکن محض 4 ماہ بعد آئے ایک سروے میں ایم وی اے کی مقبولیت میں پہلے سے زیادہ اضافہ سامنے آ گیا۔ اس سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ اگر آئندہ 4 ماہ میں ریاست میں الیکشن ہو جائے تو ایم وی اے کی دوبارہ حکومت بن سکتی ہے۔


بی جے پی کا خواب یہ ہے کہ آنے والے 2024 کے اسمبلی الیکشن میں وہ اپنے بل بوتے پر حکومت بنائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مراٹھا ووٹرس کا جھکاؤ اس کی جانب ہو جائے۔ اسی لیے اس نے اجیت پوار کو توڑ کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ لیکن حکومت میں شامل ہو کر بھی اجیت پوار بی جے پی کو کوئی خاص فائدہ پہنچاتے ہوئے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ جس مراٹھا ووٹ بینک کے لیے اجیت پوار کو این سی پی سے توڑا گیا وہ مزید مضبوطی کے ساتھ ایم وی اے کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ اب اسے بی جے پی کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا کہا جائے۔ جس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اس نے مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کا بے دریغ استعمال کیا، جس کے لیے اس نے اپنے خزانوں کے منھ کھول دیئے، وہ ہنوز اس کی دسترس سے دور ہے۔ بی جے پی نے شیوسینا و این سی پی کو توڑ کر اپنے ساتھ ملا تو لیا لیکن انڈیا ٹوڈے سی ووٹر کے سروے نے یہ بتا دیا کہ یہ تینوں مل کر بھی ریاست کی سیاست میں کوئی ہلچل تو دور ایک چھینک تک نہیں لا سکے ہیں۔

اجیت پوار کے این سی پی سے بغاوت کے بعد عام خیال یہ تھا کہ وہ شرد پوار کی ایماء پر بی جے پی کی حکومت میں شامل ہوئے ہیں جس کا مقصد اپنے لوگوں کو ایجنسیوں سے بچانا تھا۔ ہوا بھی وہی کہ جیسے ہی اجیت پوار بی جے پی کے ساتھ شامل ہوئے این سی پی کے لیڈروں کے خلاف ای ڈی وسی بی آئی کے چھاپے  اچانک بند ہوگئے۔ اس بغاوت سے ہفتہ بھرقبل مودی کے ذریعے این سی پی پر 70ہزارکروڑ روپئے کی بدعنوانی کا الزام کو بھی بغاوت کی ایک وجہ سمجھا جارہا تھا۔ اس تصور کے باوجود بھی کہ اجیت پوار شردپوار کی مرضی سے بی جے پی کی حکومت شامل ہوئے ہیں، این سی پی کے عام ووٹرس میں تذبذب پیدا ہوگیا تھا،لیکن ممبئی میں انڈیا اتحادکی تیسری میٹنگ سے عین قبل شردپوار نے یہ بیان دے کر کہ چند لوگوں کے پارٹی چھوڑجانے سے پارٹی نہیں ٹوٹتی ہے اور یہ کہ پارٹی سے الگ موقف اختیار کرنے والے پارٹی میں ہی ہیں،اجیت پوار کے حامیوں کوہی تذبذب میں ڈال دیا۔بی جے پی یہ سوچ رہی تھی کہ اجیت پوار کے الگ ہوجانے سے شردپوار تنہاہوکر انڈیا اتحاد سے علاحدہ ہوجائیں گے لیکن ان کے تازہ موقف نے بی جے پی کی رہی سہی امیدوں پر ہی پانی پھیردیا۔


گزشتہ ماہ سکال،سام مراٹھی وسرکارنامہ کے ذریعے ایک میگا سروے کیا گیا تھا جس میں اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی تھی کہ کس پارٹی کو کتنے فیصد ووٹ مل سکتے ہیں۔یہ سروے اس لیے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ وہ اجیت پوار کے این سی پی سے بغاوت کے محض دو ہفتے بعد ہی کیا گیا، جس کے بارے میں کچھ ایسی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی کہ گویا اب شردپوار کی این سی پی کے ساتھ ہی ایم وی اے بھی ختم ہوگئی۔ لیکن اس سروے کاجو نتیجے آیا اس میں بی جے پی 26.8فیصد ووٹ لے کر سب سے بڑی پارٹی توضرور بن رہی تھی لیکن اجیت پوار کے گروپ کو5.7فیصد جبکہ شندے صاحب کی شیوسینا کو 4.9فیصد ووٹ ہی ملتے ہوئے بتایا گیا۔جبکہ خبریہ بھی ہے کہ راج ٹھاکرے کی پارٹی بھی اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے ساتھ الائنس کرنے والی ہے، اس لیے ان کی پارٹی کو ملنے والے 2.8فیصد ووٹ کو بھی اگر بی جے پی کے حصے میں شامل کرلیا جائے تو یہ 13؍فیصد ہوجاتا ہے۔ یعنی کہ بی جے پی کے ساتھ تین لوگ مل کر اس کے ووٹ شرح میں تیرہ فیصد سے زیادہ اضافہ نہیں کرپارہے ہیں۔

گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی نے 41سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ دہلی کے اقتدار تک اس کے پہنچنے میں ان 41سیٹوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر اس کوملنے والی کل 303سیٹوں میں سے یہ 41سیٹیں نفی کردی جائیں تو وہ تنہااکثریت تک بھی نہیں پہنچ پاتی۔ اکثریت کے لیے 272سیٹوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور مہاراشٹر کی سیٹیں کم کرنے کی صورت میں یہ عدد 262تک ہی رہتا۔اس لیے 2024میں بی جے پی اگر20سیٹوں پر سمٹ جائے تو اس کی سابقہ سیٹوں میں 21سیٹیں کم ہوجائیں گی۔ اسی کے ساتھ اگر تیسرے نمبر کی ریاست بہار میں سے25سیٹیں کم ہوجائیں جس کا اندازہ انڈیا ٹوڈے سی ووٹرس نے ظاہر کیا ہے تو پھر سمجھئے گئی بھینس پانی میں۔ مہاراشٹر پر بی جے پی کو بہت زیادہ اعتماد ہے۔ مہاراشٹر کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے اس نے ۳ معاون تیار کرلیے ہیں لیکن یہ تینوں مل کر تیرہ فیصد سے زائدہ ووٹ اسے نہیں دلاپارہے ہیں۔ایسی صورت میں یہ تیرہ فیصد ووٹ مل کر بھی بی جے پی کو 23سیٹ سے زائد دلاتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آنے والے پارلیمانی الیکشن میں مہاراشٹر میں بی جے پی کا تین،تیرہ تیئس ہونا تقریبا طے ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔