مہاگٹھ بندھن کے مشترکہ انتخابی منشور سے بہار میں امید کی شمع روشن!... اے جے پربل
بہار میں 10 میں سے 1 نوجوان بے روزگار ہے۔ اسی لیے ہر کنبہ میں ایک شخص کو سرکاری ملازمت کی بات اہم ہے۔ اسی طرح ایمرجنسی والی حالت نہ ہونے پر بھی مریضوں کو علاج کے لیے دوسری ریاستوں میں جانا پڑتا ہے۔

ہندوستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ 7 سیاسی پارٹیاں ایک ساتھ مل کر بہار کے ہر خاندان کا ایک اہم خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کا وعدہ کر رہی ہیں، اور وہ ہے ’سرکاری ملازمت‘۔ یہ وعدہ انڈیا بلاک (بہار میں اس اتحاد کو مہاگٹھ بندھن کے نام سے جانا جاتا ہے) کے 25 نکاتی مشترکہ انتخابی منشور کا حصہ ہے، جسے 28 اکتوبر کو بہار کی راجدھانی پٹنہ میں جاری کیا گیا۔
بہار آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے نوجوان ریاستوں میں سے ایک ہے اور یہ طویل عرصہ سے ہجرت و بے روزگاری کے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ گرچہ سرکاری اعداد و شمار دراصل حقیقی اعداد کو کم ظاہر کرتے ہیں، تب بھی وہ اس بحران کو چھپا نہیں پاتے۔ ادواری (پیریوڈک) لیبر فورس سروے کے مطابق 24-2023 میں 15 سے 29 سال کی عمر کے لوگوں میں بے روزگاری کی شرح 9.9 فیصد تھی۔ بظاہر حقیقی شرح اس سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے، لیکن سرکاری تخمینہ کے مطابق بھی ہر 10 میں سے 1 نوجوان بہاری بے روزگار ہے۔
’انڈیا‘ بلاک کی تمام حلیف پارٹیوں کی طرف سے روزگار کی گارنٹی سے متعلق حمایت اس وعدے کو تقویت دیتی ہے اور ایک سیاسی اتفاقِ رائے، ایک ’کم از کم مشترکہ پروگرام‘ کی نشاندہی کرتی ہے، جس پر کوئی لیبل نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلیف پارٹیوں کا ماننا ہے یہ ضمانت ممکن اور عملی ہے، اور انہوں نے غالباً ایک خاکہ پر گفتگو کی ہے۔ تیجسوی یادو کی روزگار گارنٹی کو ایک خیالی بات بتا کر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن وہ اپنی مدتِ کار کا حوالہ دیتے ہیں: ’’2020 میں، جب میں نے 10 لاکھ سرکاری نوکریوں کا وعدہ کیا تھا، تو لوگ مجھ پر ہنستے تھے۔ لیکن اگست 2022 سے جنوری 2024 کے درمیان، بطور نائب وزیر اعلیٰ، میں نے اسکول اساتذہ کو تین لاکھ نوکریاں دیں۔‘‘
منشور میں ’پورے بہار میں انقلابی تبدیلی‘ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اسے جاری کرتے وقت تیجسوی نے انکشاف کیا کہ 2023 میں ذات کے سروے کے اعداد سامنے آنے کے بعد اس خیال نے شکل اختیار کی۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ سے پہلے ماہرین سے مشورہ کیا گیا اور ریاستی بجٹ کا مطالعہ کیا گیا۔ اس سے یہ تاثر ختم ہو گیا کہ یہ وعدہ لاپروائی سے کیا گیا ہے یا یہ انتخابی وقت کا کوئی ’جملہ‘ ہے۔
انتخابی منشور میں کہا گیا ہے کہ اگر مہاگٹھ بندھن اقتدار میں آتا ہے تو حکومت بننے کے 20 دنوں کے اندر ’سرکاری نوکری‘ کی ضمانت کے لیے ایک قانونی ڈھانچہ تیار کیا جائے گا۔ ان نوکریوں کی فراہمی کے آغاز کے لیے 20 ماہ کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ یہ مدت بذاتِ خود اصل ارادے کا اظہار ہے۔ اس میں اس حقیقت کو بھی شامل کیا گیا ہے کہ پالیسی کو درست کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔
تیجسوی نے زمینی سطح پر حکومت کی مدد کرنے والی خواتین کی تنخواہ اور پنشن بڑھانے کے فیصلے کی وجہ بھی بیان کی۔ دراصل غربت، ہجرت اور بے روزگاری کا خمیازہ خواتین کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ منشور میں تقریباً 2 لاکھ ’جیویکا دیدیوں‘ کو مستقل کرنے اور ان کی تنخواہ 10 ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 30 ہزار روپے کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ جیویکا دیدیاں خود امدادی گروپوں (ایس ایچ جی) میں تقریباً 1.4 کروڑ خواتین کی نگرانی کرتی ہیں۔ انتخابی منشور میں سالانہ تنخواہ میں اضافہ کے ساتھ اعلیٰ سماجی تحفظ کی پنشن اور منریگا کے تحت سال میں 200 دن کے روزگار کی ضمانت کا بھی وعدہ کیا گیا ہے، جو اس وقت 100 دن کے روزگار کی ضمانت سے دوگنی ہے۔
جہاں آج بیشتر حکومتیں عوامی سیکٹر کو چھوٹا کر رہی ہیں، جہاں بھی ممکن ہو تعلیم، صحت و عوامی نقل و حمل کو آؤٹ سورسنگ اور نجکاری کی طرف لے جا رہی ہیں، وہیں روزگار کی ضمانت بنیادی شہری خدمات کو یقینی بنانے میں حکومت کے کردار کے تئیں عزم ظاہر کرتی ہے۔ سی پی آئی (ایم ایل) کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ نے دلیل دی ہے کہ اگر ریاست عالمگیر عوامی تعلیم اور صحت کی خدمات کو فروغ دیتی ہے اور آؤٹ سورسنگ بند کرتی ہے (جو صرف ٹھیکیداروں کو مالا مال کرتی ہے اور مزدوروں کو ہمیشہ غیر یقینی حالت میں چھوڑ دیتی ہے) تو روزگار کی ضمانت واقعی ممکن ہے۔
گرچہ مشترکہ انتخابی منشور میں زمین کی ازسر نو تقسیم کے اس وعدے کا ذکر نہیں ہے جس کی بات سی پی آئی (ایم ایل) اور کانگریس دونوں نے انتخاب سے قبل کی تھی۔ ان میں شہری بے زمینوں کو 3 ڈسمل (تقریباً 1,300 مربع فٹ) اور دیہی علاقوں میں 5 ڈسمل (2,178 مربع فٹ) زمین دینے کی بات کہی گئی تھی۔ سی پی آئی (ایم ایل) نے 26 اکتوبر کو جاری اپنے ’سنکلپ پتر‘ (عزائم نامہ) میں 21 لاکھ ایکڑ زمین کی ازسرِ نو تقسیم اور بے زمینوں کے لیے رہائش کی ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ ازسرِ نو آبادکاری کے بغیر غریبوں (خصوصاً بٹائی داروں) کے بے دخلی پر پابندی لگانے کا وعدہ کیا تھا۔ گرچہ اس بڑے خیال کے لیے اتحاد میں حمایت ہے، لیکن بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے اس پر مزید مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بہار میں زمین کے ریکارڈس غیر منظم ہیں۔ ایک تہائی سے زیادہ زمین متنازعہ ہے، کئی زمینیں اب بھی مرحوم آباء و اجداد کے نام پر ہیں، جن سے وہ ضمانت کے طور پر بے کار ہو گئی ہیں اور اس سے ادارہ جاتی قرض تک رسائی میں رکاوٹ آ رہی ہے۔ پھر بھی زمین کی اصلاح ایک سیاسی بارودی سرنگ کی مانند ہے۔
مغربی بنگال کے تجربے پر مبنی اصلاحات کے تئیں لالو پرساد یادو کا ابتدائی جوش الٹا پڑ گیا تھا اور جلدبازی میں کیے گئے وعدے نے زمینداروں کو ان سے دور کر دیا تھا۔ سینئر آئی اے ایس افسر کے. بی. سکسینہ کو زمین اصلاحات کا انچارج ایڈیشنل چیف سکریٹری 93-1992 بنانے کے چند ہی مہینوں بعد ان کے قدم ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔ اس کے بعد نتیش کمار نے 2006 میں مغربی بنگال کیڈر کے ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ڈی. بندوپادھیائے کی صدارت میں بہار کے لیے زمین اصلاحات پر سفارشات کرنے کے مقصد سے ایک 3 رکنی کمیٹی مقرر کی تھی، لیکن کسی ہلچل کے اندیشہ سے انہیں بھی پیچھے ہٹ جانا پڑا تھا۔
ریاست میں زمین کی اصلاحات کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی ارادے سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لیے ایک فیصلہ کن سیاسی مینڈیٹ کی ضرورت ہوگی، جس پر ابھی تک کسی نے بھی داؤ نہیں لگایا ہے۔ لہٰذا، ایسا لگتا ہے کہ انڈیا بلاک کے حلیفوں نے فی الحال زمین اصلاحات کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک اور قابلِ ذکر عہد فصلوں کی ریاستی حکومت کے ذریعے خرید، کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی گارنٹی اور زرعی پیداوار مارکیٹنگ کمیٹی (اے پی ایم سی) قانون کے تحت ریاستی منڈیوں کی بحالی سے متعلق ہے۔ نتیش کمار کی این ڈی اے حکومت نے منڈی نظام ختم کر دیا اور خرید بند کر دی، جس سے چھوٹے اور حاشیہ پر کھڑے کسان پرائیویٹ تاجروں کے رحم و کرم پر رہ گئے ہیں۔ صرف خوشحال کسان ہی ایم ایس پی سے فائدے کی امید میں اپنی پیداوار پنجاب اور ہریانہ لے جا سکتے ہیں۔ ریاستی منڈیوں کے ذریعے خرید کی بحالی سے کسانوں اور مزدوروں دونوں کو فائدہ ہوگا۔ گرچہ یہ اب بھی صرف ایک خیال، ایک وعدہ ہے، لیکن یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اتحاد ٹیکس دہندگان کے پیسے سے ’ریوڑی‘ بانٹنے کے بجائے ساختیاتی اصلاحات پر توجہ دے رہا ہے۔
صحت کی خدمات سے متعلق مشترکہ انتخابی منشور میں بہار کے لوگوں کو علاج کے لیے ریاست سے باہر جانے کے مسئلہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مریضوں کو علاج کے لیے ریاست سے باہر جانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، اور انہیں ایسا تب بھی کرنا پڑتا ہے جب کوئی ہنگامی یعنی ایمرجنسی حالت نہ ہو۔ منشور میں مرکزی حکومت صحت اسکیم (سی جی ایچ ایس) کی طرز پر ایک ریاستی صحت انشورنس اسکیم کی تجویز ہے، جس میں سرکاری اسپتالوں میں فی فرد 25 لاکھ روپے تک کا مفت علاج شامل ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یہ انتخابی منشور راجستھان کے ’حق برائے صحت قانون‘ (2023) کی نقل کرنے سے چوک گیا ہے، لیکن اس کا مقصد اشوک گہلوت کی قیادت والی کانگریس حکومت جیسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس قانون نے مہاجر اور وقتاً فوقتاً جا کر کام کرنے والے مزدوروں سمیت ریاست کے ہر باشندے کو تمام عوامی صحتی سہولتوں میں مفت آؤٹ پیشنٹ اور اِن پیشنٹ خدمات کا فائدہ اٹھانے کا حق دیا تھا۔ اسے پرائیویٹ اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، جنہوں نے چنندہ پرائیویٹ سروسز کو مفت خدمات فراہم کرنے کی شق پر اعتراض کیا تھا۔
انڈیا بلاک کا 25 نکاتی مشترکہ انتخابی منشور تبدیلی کی زبردست خواہش اور غیر معمولی عجلت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بڑے خواب دیکھتا ہے، لیکن انہیں کچھ ہم آہنگی اور حاصل کرنے کے قابل فہم سمجھ کے ساتھ پورا کرتا ہے۔ بہار ’اچھے دن‘ کا انتظار نہیں کر سکتا، لیکن بہتر دنوں کی صبح کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہوگی جو اپنی بات پر قائم رہیں۔ کیا بہار کا ووٹر بہتر کا مطالبہ کرنے کے لیے تیار ہے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔