مدھیہ پردیش: 18 سال وزیر اعلیٰ رہے شیوراج سنگھ چوہان کیوں نظر آ رہے بے بس!

مدھیہ پردیش اسمبلی انتخاب کے تقریباً تین ماہ بچے ہیں، گزشتہ تین سال کے دوران وزیر اعلیٰ 2715 اعلانات کر چکے ہیں، اس سے قبل سے ہی انھیں ایسا ’گھوشنا ویر‘ کہا جاتا ہے جن کے وعدے پورے نہیں ہوتے۔

شیوراج سنگھ چوہان، تصویر آئی اے این ایس
شیوراج سنگھ چوہان، تصویر آئی اے این ایس
user

کاشف کاکوی

امت شاہ کے چار گھنٹے کے لیے بھوپال پہنچنے کی خبر حال ہی میں سامنے آئی، تو پھر اس بحث نے زور پکڑا کہ شیوراج سنگھ چوہان کی وزیر اعلیٰ کی کرسی کھسک رہی ہے۔ یہ پھر ہوا ہوائی ہی نکلی۔ شاہ نے 11 جولائی کو شام 8.30 بجے سے رات 11 بجے تک بی جے پی اراکین اسمبلی اور عہدیداروں کے ساتھ میٹنگ کی۔ اس میٹنگ میں امت شاہ نے یہاں کرناٹک نہ دہرائے جانے کے لیے ہر ممکن ترکیب کرنے کو کہا۔ ابھی مئی میں کرناٹک اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کی حکومت کھسک گئی۔ مدھیہ پردیش میں نومبر میں انتخاب ممکن ہے۔ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا اور ریاست کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے کافی وقت سے نظریں گڑا رکھی ہیں۔

شیوراج سنگھ چوہان پہلی بار 2005 میں وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی ہار گئی تھی اور کمل ناتھ کی قیادت میں کانگریس کی حکومت بنی تھی۔ لیکن کچھ اراکین اسمبلی کے پارٹی بدلنے کی وجہ سے پھر بی جے پی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور شیوراج ہی وزیر اعلیٰ بنے۔ اس طرح اس عہدہ پر ان کے تقریباً 18 سال ہو چکے ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ اب وہ پارٹی میں اپنے آپ کو الگ تھلگ پا رہے ہیں۔ پہلے انھیں پارٹی کے پارلیمانی بورڈ سے ہٹا دیا گیا جبکہ اس میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کو جگہ دی گئی۔


امت شاہ کے اچانک ہوئے اس دورے کے دوسرے دن پانچ روزہ اسمبلی اجلاس کا 12 جولائی کو ہی اختتام کر دیا گیا۔ یہ اجلاس بمشکل ڈیڑھ دن ہی چل پایا۔ دراصل حکومت ریاست میں قبائلیوں پر مظالم کے معاملے پر تحریک التوا پر بحث کرانا ہی نہیں چاہتی تھی۔ کانگریس نے گورنر کو جو عرضداشت سونپا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت میں ریاست میں قبائلی مظالم کے 30 ہزار معاملے درج کیے گئے ہیں۔ اس میں سیدھی کے واقعہ کا خاص طور سے تذکرہ کیا گیا ہے جہاں کے بارے میں ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں اعلیٰ ذات کا ایک شخص بیٹھا ہوا ایک قبائلی شخص کے سر پر پیشاب کر رہا ہے۔ اس میں نیماور کے حادثہ کا بھی تذکرہ ہے جس میں ایک قبائلی کنبہ کے پانچ لوگوں کا قتل کر انھیں دفنا دیا گیا تھا۔ اس میں نیمچ کے حادثہ کی طرف بھی دھیان دلایا گیا ہے جس میں ایک قبائلی کو گاڑی سے باندھ کر مار ڈالا گیا۔

انتخابی سال میں اس وائرل ویڈیو سے ہونے والے نقصان کا اندازہ وزیر اعلیٰ کو فوراً ہو گیا۔ بھوپال سے سیدھی کی دوری تقریباً 600 کلومیٹر ہے۔ انھوں نے پولیس کو اس قبائلی کو وزیر اعلیٰ رہائش لانے کی ہدایت دی۔ وزیر اعلیٰ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں شیوراج اس قبائلی کا پیر دھو رہے ہیں، حادثہ کے لیے اس سے معافی مانگ رہے ہیں اور اسے اپنا ’دوست‘ بتا رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، شیوراج سنگھ چوہان نے ملزم کو این ایس اے کے تحت گرفتار کرنے اور اس کے گھر کے ایک حصے کو بلڈوزر سے منہدم کرنے کا حکم دیا۔ اس سب سے بھی قبائلی طبقہ مطمئن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، برہمن طبقہ کے لوگ الگ ناراضگی ظاہر کر رہے ہیں۔


گونڈوانا گنتنتر پارٹی (جی جی پی) کے جنرل سکریٹری بلویر سنگھ کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا کہ ’جن قبائلیوں کے پاس اینڈرائیڈ فون نہیں ہیں اور اندر جنگلوں میں رہتے ہیں، انھیں اس حادثہ کے بارے میں پتہ بھی نہیں ہے... ایک غریب قبائلی کے چہرے پر ایک شخص کے پیشاب کرنے کی شبیہ قبائلیوں کی اجتماعی یاد میں بنی رہے گی۔‘ ویسے، ریاست کے بی جے پی شیڈول ٹرائب وِنگ کے چیف کلسنگھ بھبر نے یقین دلایا کہ سیدھی حادثہ کا انتخابی مستقبل پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم تو قبائلی ثقافت کا جشن منا رہے ہیں اور ہم نے قبائلی علاقوں تک پینے کا پانی، آبپاشی اور دیگر منصوبے پہنچائے ہیں۔‘

ریاست میں شیڈول ٹرائب کی آبادی 21 فیصد سے زیادہ ہے۔ 230 سیٹوں والی اسمبلی میں 47 سیٹیں ان کے لیے محفوظ ہیں۔ بی جے پی نے 2013 میں ان میں سے 31 سیٹیں جیتی تھیں، لیکن 2018 میں اسے صرف 16 سیٹیں ہی حاصل ہوئیں۔ اپنا مینڈیٹ واپس پانے کی بی جے پی پرزور کوشش کر رہی ہے۔


اب شیوراج سنگھ چوہان اپنی شبیہ بدلنے کی کوشش میں ہیں۔ 2005 سے 2015 تک وہ ’وسط راہی ہندوتوا‘ والے تھے جو افطار میں شامل ہونے اور گول ٹوپی پہننے میں جھجکتے نہیں تھے۔ لیکن 2019 میں عام انتخاب میں جیت کے بعد نریندر مودی اور امت شاہ ’سخت ہندوتوا‘ پر زور دینے لگے تو چوہان بھی اسی راستے چل پڑے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی طرح وہ بھی ’فسادات کے ملزمین‘، خصوصاً مسلمانوں اور دلتوں کے گھروں کو بلڈوزروں سے گرانے کے حکم دینے لگے اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں کو بھی سیکورٹی و تحفظ دینے لگے۔ ساتھ ہی انھوں نے دلت طبقات کے ذریعہ پوجے جانے والے 15ویں صدی کے سَنت شاعر سَنت روی داس کے مندر کی تعمیر کے لیے 100 کروڑ روپے الاٹ کرنے کا اعلان بھی کیا۔ شیوراج حکومت نے سرکاری اسکولوں کے نصاب میں ہندو مذہبی صحیفوں کے حصے شامل کیے اور اورچھا، اجین و چترکوٹ میں مندر کاریڈور کی تعمیر کے لیے رقم الاٹ کیے۔

شیوراج چوہان نے اپنی شبیہ کٹر بنانے کے خیال سے ہی دموہ میں گنگا جمنا ہایر سیکنڈری اسکول کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ یہ اقلیتوں کے ذریعہ چلایا جانے والا اسکول ہے جو حاشیے کے لوگوں کے بچوں کو انگریزی میڈیم تعلیم دیتا ہے۔ اس نے اپنے طلبا کی کامیابی کو ظاہر کرتے ہوئے ایک اشتہار جاری کیا، تو بی جے پی حامیوں کو یہ برا لگا۔ انھوں نے یہ الزام عائد کرتے ہوئے ان باتوں کو ایشو بنا دیا کہ یہاں بچیوں کا اسکارف، حجاب پہننا لازمی ہے اور اسکول ’تبدیلیٔ مذہب‘ کرا رہا ہے۔ بعد میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’سارے جہاں سے اچھا‘ کے تخلیق کار علامہ اقبال کی نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ بھی یہاں دعائیہ اجلاس میں پڑھائی جاتی ہے۔ شیوراج چوہان نے کہا کہ وہ ایسے شخص کی نظم اسکول میں بچوں کو پڑھوانے کی اجازت نہیں دے سکتے جس نے ہندوستان کی تقسیم کرائی۔ ریاست میں ایسی حرکتیں نہیں چلیں گی۔ اسکول کے پرنسپل، ایک استاد اور ایک گارڈ کو ’جہادی گروہ‘ چلانے کے لیے گرفتار کر لیا گیا اور اسکول پر عمارت ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔ ویسے یہ یوگی آدتیہ ناتھ کی نقل ہی تھی۔ یہی نظم یوپی کے بریلی واقع اسکول میں پڑھائی جاتی تھی اور وہاں بھی تقریباً اسی طرح کی کارروائی کی گئی۔


اپنی شبیہ کو پختہ کرنے کے خیال سے شیوراج چوہان نے برہمن کلیان بورڈ کی تشکیل کا بھی اعلان کیا ہے۔ برہمن کی تعداد ریاست میں کم ہے لیکن وہ سماج، حکومت و انتظامیہ میں بااثر تو ہیں ہی۔ انھوں نے مندروں کے پجاریوں کی تنخواہ بھی بڑھا کر 5000 روپے کر دی ہے اور اندور میں ’پرشورام لوک‘ کی تعمیر کا حکم دیا ہے۔

حال میں ’لاڈلی بہنا منصوبہ‘ کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس کے تحت 23 سے 60 سال تک کی 1.20 کروڑ خواتین کو 1000 روپے ہر ماہ ملیں گے۔ انھوں نے کئی فلاحی بورڈ کی تشکیل کی ہے اور رواں سال 12 نئی سرکاری تعطیلات کا بھی اعلان کیا ہے۔ انھوں نے ’سیکھو کماؤ منصوبہ‘ کا اعلان بھی کیا ہے جس کے تحت نوجوانوں کو 8000 سے لے کر 10000 روپے تک کے اسٹائپنڈ دیے جائیں گے۔ انھوں نے بھروسہ دلایا ہے کہ اس کے ذریعہ ایک لاکھ خالی سرکاری عہدے بھرے جائیں گے۔


کانگریس رکن اسمبلی رام چندر دانگی کے ایک سوال کے جواب میں حکومت نے 11 جولائی کو اسمبلی میں بھی بتایا کہ جون 2020 سے لے کر جون 2023 کے تین سال میں شیوراج چوہان 2715 اعلانات کر چکے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میں سے کتنا منصوبہ کس سطح تک پورا ہوا ہے، حکومت اس کی تفصیل جمع کر رہی ہے۔ پھر بھی شیوراج چوہان خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ ابھی 10 جولائی کو اندور میں خواتین کی ایک تقریب میں انھوں نے کہا کہ ’یقین کریں، میں بالکل تنہا ہوں۔ ایک تنہا آدمی کیا کیا کر سکتا ہے؟ مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ کیا آپ میری مدد کریں گی؟‘ اس پر ہر طرف سناٹا پسرا رہا۔ یہ سناٹا بہت کچھ کہتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔