مودی کے اقتدار میں واپس آنے کے اِمکانات نہ کے برابر

ضرورت اس با کی ہے کہ کھلے ذہن والے ہندوستانی شہری بی جے پی کے پروپیگنڈا کا شکار نہ بنیں اور وہ بی جے پی کے اس پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے سے پرہیز کریں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

سید خرم رضا

عام انتخابات کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ دو جملے آپ کو سب سے زیادہ سنائی دے رہیں ہوں گے، ایک جملہ تو یہ کہ ’بی جے پی کی واپسی پر کوئی شک نہیں، چاہے سیٹیں کچھ کم ہو جائیں ‘ اور دوسرا جملہ یہ کہ ’مودی کے علاوہ ملک میں دوسرا کون سا رہنما ان کے برابر کا ہے‘۔ یہ دونوں جملے اس خوبصورتی سے عوام میں پھیلائے جا رہے ہیں کہ مودی مخالف اور با شعور افراد بھی اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مودی مخالفین ہی اپنے رویہ سے مودی کو جتا دیں گے، جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی زمین پوری طرح کھسک چکی ہے اور اس کا اقتدار میں واپس آنے کا امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔

عام انتخابات 2019 کے کسی بھی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے سال 2014 کے حالات اور نتائج کو ذہن میں ضرور رکھنا ہو گا اور سال 2014 کے انتخابات سے پہلے کے حالات کا بغور جائزہ لینا ہو گا۔ وہ حالات جن کی وجہ سے مودی کی قیادت والی بی جے پی کو مکمل اکثریت ملی تھی۔ سال 2014 سے قبل ملک میں بدعنوانی کا ایشو اپنے شباب پر تھا اور اس کے لئے میڈیا کے علاوہ کئی اور چیزیں بھی بہت زیادہ ذمہ دار تھیں۔ سی اے جی 2-جی پر اپنی رپورٹ پیش کر چکا تھا (جو بعد میں غلط ثابت ہوئی) اور اس رپورٹ میں 2-جی اسپیکٹرم میں بدعنوانی کا ذکر کیا گیا تھا۔ دولت مشترکہ کھیلوں میں کلماڈی کو لے کر بدعنوانی کا مدا کھیلوں سے زیادہ سرخیوں میں رہا۔ اس کے بعد بدعنوانی کو لے کر انا ہزارے، اروند کیجریوال، بابا رام دیو اور شری شری روی شنکر کو میدان میں اتارا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے حکومت پر بغیرسوچے سمجھے ڈنڈے برسانے کے لئے میڈیا کے پاس سب سے بڑا ہتھیار بدعنوانی آ گیا۔ میڈیا جذبات کی رو میں اتنا آگے چلا گیا کہ انا ہزارے جیسے شخص کو ’دوسرا گاندھی‘ اور اس تحریک کو ملک کی دوسری ’آزادی‘ سے تعبیر کرنے لگا۔

بدعنوانی کے مدے کے ساتھ منموہن سنگھ حکومت گزشتہ دس سال سے بر سر اقتدار تھی، اس کی وجہ سے عوام میں جو ناراضگی ہو سکتی تھی، وہ تھی۔ اس درمیان عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا جس کا اثر یہاں کی قیمتوں پر بھی پڑ رہا تھا۔ ڈالر کے مقابلہ روپے کی قیمت گر رہی تھی جو اخبار کی سرخیاں بن رہی تھیں۔ پاکستان اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے تھا، اس تمام صورت حال نے حزب اختلاف کو موقع دے دیا اور انہوں نے جملہ اچھالا کہ ’ایک کے بدلے دس سر لائیں گے‘۔ اس کے ساتھ میڈیا نے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کی شبیہ اس طرح بنانی شروع کر دی تھی جیسے صرف وہ ہی ملک کی تصویر بدل سکتے ہیں۔ ’ہندو راشٹر‘ اور ’رام مندر‘ نے اکثریتی طبقہ میں ایک نیا جوش پیدا کر دیا تھا۔ مودی نے ایسے جھوٹے وعدے کئے کہ کالا دھن بیرون ملک سے واپس لائیں گے اور ہر شہری کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے آ جائیں گے۔ بھرپور پیسہ ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا کا پوری طرح استعمال کیا گیا۔ بے چارے عوام ان حالات کو پوری طرح سمجھ نہیں پائے اور دھوکوں کی اس لہر میں بہہ گئے۔

لیکن آج کیا صورتحال ہے! آج صورتحال تقریباً ویسی ہی ہے جس کا سامنا سال 2014 میں کانگریس نے کیا تھا۔ موی 5 سال سے اقتدار میں ہیں اور انہیں عوام کے سوالوں کا سامنا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی آنے کے با وجود ملک میں تیل کی قیمتوں میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈالر کے مقابلہ روپے کی قیمت مستقل کم ہو رہی ہے۔ پاکستان کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں مستقل اضافہ ہوا ہے لیکن ’دس سر‘ ابھی تک نہیں آئے ہیں۔ رافیل کے بعد بدعنوانی ایک بڑا مدا بن گئی ہے۔ رام مندر کے مدے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ خارجہ پالیسی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کسی بھی شہری کے کھاتے میں 15 لاکھ روپے تو آئے نہیں ساتھ میں نوٹ بندی اور ’جی ایس ٹی‘ کی وجہ سے بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ کسانوں کی پریشانیوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔

اگر تمام حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو کسی بھی صورت یہ نہیں لگتا کہ بی جے پی کی اقتدار میں واپسی ہو سکتی ہے لیکن بی جے پی اور اس کے حامی ان دو افواہوں کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ’بی جے پی کی واپسی میں کوئی شک نہیں چاہے سیٹیں کچھ کم ہو جائیں ‘ اور دوسری افواہ یہ کہ ’مودی کے علاوہ ملک میں دوسرا کون سا رہنما ان کے برابر کا ہے‘۔ اس بات کو عوام میں اور خاص طور سے شہری عوام میں پھیلا کر بی جے پی اپنی گرتی ساکھ کو بچانے اور ہار کا فاصلہ کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بس اب ضرورت اس بات کی ہے کہ کھلے ذہن والے ہندوستانی شہری اس پروپیگنڈا کا شکار نہ بنیں اور وہ بی جے پی کے حربوں کو آگے بڑھانے سے پرہیز کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Mar 2019, 2:10 PM