لوک سبھا انتخاب 2024: بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر ’پی ایم کے‘ نے اپنے پیر پر ہی کلہاڑی مار لی... ایلانگووَن راج شیکھرن

بی جے پی کے ساتھ اتحاد سے پی ایم کو کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں، فائدہ بی جے پی کا ہوگا، سوال اٹھتا ہے کہ پی ایم کے نے ایسا اتحاد آخر کیا ہی کیوں؟

<div class="paragraphs"><p>بی جے پی-پی ایم کے اتحاد، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

بی جے پی-پی ایم کے اتحاد، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

ڈی ایم کے اسے ’حیرت انگیز‘ امر کہتی ہے، اے آئی اے ڈی ایم کے اسے ’دھوکہ‘ قرار دیتی ہے، جبکہ پی ایم کے (پٹالی مکال کاچی) کے کارکنان مایوس ہیں اور سیاسی مبصرین حیرت زدہ ہیں۔ یہاں بات ہو رہی ہے لوک سبھا انتخاب کے لیے تمل ناڈو میں پی ایم کے اور بی جے پی کے درمیان ہوئے اتحاد کی۔

پی ایم کے نے بالکل آخر وقت میں تمل ناڈو میں این ڈی اے اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، جبکہ ریاست میں حزب مخالف پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے نے اپنے اتحاد کے دروازے سابقہ ساتھی کے لیے کھول رکھے تھے۔ پی ایم کے 2019 کے لوک سبھا انتخاب اور 2021 کے اسمبلی انتخاب میں اے آئی اے ڈی ایم کے اتحاد کا حصہ تھی جس میں دیگر شراکت دار ڈی ایم ڈی کے اور بی جے پی تھے۔


پی ایم کے فیصلے نے کئی طرح کی قیاس آرائیاں پیدا کر دی ہیں۔ پی ایم کے کو دو اہم دراوڑ پارٹیوں کے درمیان کبھی اِدھر کبھی اُدھر کا رخ کرنے کے لیے جانا جاتا رہا ہے۔ سیاسی موقع پرستی کے تحت یہ 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں این ڈی اے کا حصہ بنی تھی جس میں ڈی ایم ڈی کے اور وائیکو کی ایم ڈی ایم کے بھی تھی۔

جئے للیتا نے وہ انتخاب ’مودی یا لیڈی‘ کے نعرے پر جیتا تھا اور ان کی پارٹی کو 39 میں سے 37 سیٹیں ملی تھیں۔ ڈاکٹر ایس رام داس کے بیٹے ڈاکٹر امبومنی رام داس نے دھرم پوری انتخابی حلقہ سے الیکشن جیتا تھا۔ وہ 2019 میں ہار گئے اور اب ان کی بیوی سومیا وہاں سے امیدوار ہیں۔


تمل ناڈو میں بی جے پی کو تمل ناڈو مخالف، تمل مخالف اور اقلیت مخالف مانا جاتا ہے۔ پارٹی کا ’ایک ملک، ایک زبان، ایک ثقافت‘ کا ایجنڈہ تمل ناڈو کے ووٹرس کو تذبذب میں ڈالتا ہے۔ اپنی لیڈر جئے للیتا کی موت کے بعد بھگوا پارٹی کے ساتھ تال میل بٹھانے کے باوجود اے آئی اے ڈی ایم کے نے الیکشن سے پہلے بی جے پی کو اپنے اتحاد سے باہر کر دیا جس کی وجہ یہ تھی کہ بی جے پی کے ساتھ جانے سے پارٹی کو اقلیت اور دلت ووٹوں کا زبردست نقصان ہوتا۔ بی جے پی جب اس جھٹکے سے مایوسی میں تھی، تبھی پی ایم کے اتحاد کے لیے تیار ہو گئی۔ شمالی ضلعوں میں پی ایم کے مضبوط ہے اور اس سے بی جے پی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ جب مین اسٹریم کی پارٹیاں بھی بی جے پی سے اتحاد کرنے کو تیار نہیں ہیں، تو پی ایم کے اعلیٰ کمان کا اچانک من بدلنے کی وہج کیا ہے؟ کیا تمل ناڈو کے ذات پر مرکوز محاذ پر پی ایم کے کے لیے یہ متبادل سے زیادہ مجبوری تھی؟


پی ایم کے کی طاقت شمالی ضلعوں میں اس کی ذات پر مبنی سیاست رہی ہے جہاں سب سے زیادہ پسماندہ ذات (ایم بی سی) فہرست میں شامل ونّیار بہت اثر انداز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے جیسی پارٹیاں پی ایم کے کو اپنی طرف رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دوسری طرف 1970 کی دہائی میں ایک ذات پر مبنی پارٹی کی شکل میں شروع ہوئی اور پھر 1980 کی دہائی میں ایک علاقائی کھلاڑی کی شکل میں ابھری پی ایم کے کی موجودگی پورے تمل ناڈو میں نہیں ہے اور سیاسی جواز کے لیے اسے کسی اہم پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا پڑتا ہے۔ پی ایم کے کا ووٹ شیئر لگاتار تقریباً 5 فیصد رہا ہے، بھلے ہی وہ جس اتحاد میں ہو وہ جیتے یا ہارے۔ دوسری طرف بی جے پی کا ووٹ شیئر 4 فیصد کے آس پاس برقرار ہے۔ اپنے تمام داخلی مسائل کے باوجود اے آئی اے ڈی ایم کے نے سبھی انتخابات میں 35 فیصد ووٹ شیئر برقرار رکھا ہے۔

بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے صدر کے. انّاملائی اور ان کی ٹیم کا ماننا ہے کہ پارٹی کو تقریباً 18 فیصد ووٹ ملیں گے لیکن کسی ٹھوس ڈاٹا یا تجزیہ کی عدم موجودگی میں یہ صرف امیدوں پر کھڑی کی گئی تعداد ہے۔ اس لیے سوال اٹھتا ہے کہ پی ایم کے کی قیادت کو اس پارٹی کے ساتھ جانے کا جوا کیوں کھیلنا پڑا جس نے ابھی تک ریاست میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔


تمل ناڈو میں جیت کے لیے کسی بھی اتحاد کو 40 فیصد سے زیادہ ووٹ شیئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈی ایم کے اتحاد نے 2021 اسمبلی انتخاب میں اے آئی اے ڈی ایم کے کے 38.17 فیصد کے مقابلے 45.38 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ جیت حاصل کی تھی۔ 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں ڈی ایم کے اتحاد نے اے آئی اے ڈی ایم کے کے 30.57 فیصد کے مقابلے 53.15 فیصد ووٹ حاصل کر کے 39 میں سے 38 سیٹیں جیتیں۔ تب اے آئی اے ڈی ایم کے نے صرف ایک سیٹ جیتی تھی۔

کوئمبٹور، کنیاکماری اور رامناتھپورم میں اپنی گزشتہ کارکردگی کی بنیاد پر بی جے پی اس مرتبہ بہتر کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے، جبکہ پی ایم کے کے پاس شمالی ضلعوں کے باہر کوئی حمایت نہیں ہے۔ اس طرح جبکہ بی جے پی کا ووٹ شیئر پی ایم کے کے سبب بڑھ سکتا ہے، لیکن پی ایم کے کو اتحاد میں رہنے سے کوئی فائدہ ملنے کا امکان نظر نہیں آتا۔


ایک منظور شدہ علاقائی پارٹی ہونے کے باوجود پی ایم کے کے پاس اداکار سے لیڈر بنے سیمان کی ’نام تمیلر کاچی‘ (این ٹی کے) کے مقابلے میں کم ووٹ شیئر ہے۔ این ٹی کے کو عام طور پر انتخابات میں پورے تمل ناڈو میں تقریباً 8 فیصد ووٹ ملتا ہے۔ پی ایم کے کا فائدہ شمالی ضلعوں میں اس کی مضبوط موجودگی ہے جن میں ریاستی اسمبلی کی مجموعی طور پر 234 سیٹوں میں سے تقریباً 90 سیٹیں ہیں اور یہی بات پی ایم کے کو کسی بھی اتحاد کے لیے اہم بناتی ہے۔ این ٹی کے تنہا ہی لڑنا پسند کرتی ہے۔ دراصل بی جے پی اب تمل ناڈو کی سیاست میں این ٹی کے کی جگہ چاہتی ہے اور اس کی نظر اس کے 8 فیصد ووٹ شیئر پر ہے۔

پی ایم کے کی قیادت نے ابھی تک اے آئی اے ڈی ایم کے اتحاد سے ناطہ توڑنے کے اپنے فیصلے کی کوئی بھروسہ مند وجہ نہیں بتائی ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں امبومنی اور رام داس نے دعویٰ کیا کہ انھیں اے آئی اے ڈی ایم کے سے الگ ہونا پڑا کیونکہ پارٹی نے ایم بی سی کوٹہ کے اندر ونّیاروں کے لیے 10.5 فیصد ریزرویشن کے مطالبہ پر دھیان نہیں دیا۔ انھوں نے کہا کہ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ ای کے پلانی سوامی نے بالکل بعد میں قانون ضرور پاس کیا تھا، لیکن اب یہ قانونی جھنجھٹ میں الجھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ 2019 و 2021 میں اے آئی اے ڈی ایم کے کے ساتھ اتحاد سے پی ایم کے کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جبکہ ہمارے ووٹ اے آئی اے ڈی ایم کے اور دیگر ساتھیوں کو منتقل ہو گئے، ان کے ووٹ پی ایم کے کو منتقل نہیں ہوئے۔ یہ دھوکہ ہے۔


لیکن یہ وجہ پارٹی کے کارکنان کے گلے نہیں اتر رہی۔ چدمبرم میں نقلی زیورات کی صنعت میں کام کرنے والے پی ایم کے کے پُرجوش کارکن سریش کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے کئی ساتھی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے سے متعلق قیادت کے فیصلے سے ناخوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’اگر پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے اتحاد میں لوٹ آتی تو ڈی ایم کے محاذ کے خلاف لڑائی قریبی ہو جاتی۔‘‘ ودُتھلائی چروتھیگل کاچی (وی سی کے) لیڈر تھول تھروماولون ریزرو انتخابی حلقہ چدمبرم سے ڈی ایم کے اتحاد کے امیدوار ہیں۔

بی جے پی یہ مان رہی ہے کہ اسے ریاست میں 18 فیصد ووٹ شیئر ملے گا، لیکن اس کی حمایت میں اس کے پاس کوئی ریسرچ یا سائنس نہیں ہے، نہ ہی پی ایم کے اس طرح کے اعداد و شمار پر یقین کرتی ہے، حالانکہ اسے ملک میں دیگر مقامات پر بی جے پی کی مضبوطی کو دیکھ کر یہ امید ہو گئی ہے کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کا اسے بھی فائدہ ہوگا۔ بی جے پی کو اس انتخاب میں میدان میں اترنے کے لیے امیدوار ڈھونڈنے میں کافی جدوجہد کرنی پڑی ہے۔ وہ جانے پہچانے چہرے چاہتی تھی، اس لیے تملسائی سندرراجن کو تلنگانہ اور پڈوچیری کے گورنر عہدہ سے استعفیٰ دینا اور جنوبی چنئی سے انتخاب لڑنا پڑا۔ اس نے راجیہ سبھا رکن ایل مروگن کو نیلگری ریزرو انتخابی حلقہ سے انتخاب لڑنے کے لیے کہا ہے۔ اس نے ترونیلویلی کے میدان میں تمل ناڈو اسمبلی کے اپنے لیڈر اور رکن اسمبلی نینار ناگیندرن کو اتارا ہے۔


ریاستی پارٹی صدر انّاملائی نے صاف کر دیا تھا کہ وہ انتخاب نہیں لڑنا چاہیں گے بلکہ ریاست کا دورہ کرنا چاہیں گے۔ لیکن بی جے پی نے انھیں کوئمبٹور سیٹ سے میدان میں اتارا ہے۔ گزشتہ زمانے کی اداکارہ رادھیکا سرتھ کمار، ماہر تعلیم اے سی شنموگن اور میڈیا شخصیت و صنعت کار پریویندھر کو بھی پارٹی نے انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ دلت لیڈر اور تمیزاگا مکال منیتر کژگم کے بانی جان پانڈین بھی اتحاد کے امیدوار ہیں۔ بی جے پی کی تمل ناڈو یونٹ کا ماننا ہے کہ یہ چہرے دراوڑ پارٹیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ شناخت کی سیاست نے پی ایم کے کی مدد کی ہے، لیکن اس بار کے فیصلے کو دیکھ کر تو پی ایم کے کے 10 امیدوار موقع پرست سیاست کی بھینٹ چڑھائے گئے بلی کے بکرے جیسے نظر آ رہے ہیں۔

(ایلانگووَن راج شیکھرن کا یہ مضمون انگریزی ویب سائٹ frontline.thehindu.com پر شائع ہوا تھا جس کا اردو میں یہاں ترجمہ پیش کیا گیا ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔