آئیے مودی جی نوٹ بندی نوٹ بندی کھیلیں!

2000 کے نوٹ پر پابندی لگاتے ہوئے وہی وجہ بتائی جا رہی ہے جو ساڑھے چھ سال قبل نوٹ بندی کے وقت بتائی گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مودی حکومت نے جس مقصد کے لیے نوٹ بندی کی تھی، وہ مکمل طور پر ناکام ہوگئی

<div class="paragraphs"><p>پی ایم مودی، تصویر یو این آئی</p></div>

پی ایم مودی، تصویر یو این آئی

user

اعظم شہاب

کہا جاتا ہے کہ آدمی کو بغیر سوچے سمجھے کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس پر اسے بعد میں افسوس کرنا پڑے۔ لیکن یہ کہاوت چونکہ ان لوگوں کے لیے ہے جو افسوس وشرمندگی کو اپنے لیے بار سمجھتے ہوں، اس لیے آپدا میں اوسر تلاش کرنے والوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی تازہ ترین مثال دو ہزار کے نوٹوں پرعائد ہونے والی پابندی ہے جس نے ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کو ایک بار پھر ہلا مارا ہے۔ اب ہوگا یہ کہ جس طرح پہلے لوگ بینکوں کے سامنے اپنے پیسے نکالنے کے لیے قطاریں لگا رہے تھے، اب اسی طرح دو ہزار کے نوٹ تبدیل کرنے کے لیے قطار لگائیں گے۔ قطاریں لگوانے کے اس فیصلے سے ’آپدا میں اوسر‘ والوں کونہ تو پہلے کوئی فرق پڑا تھا اور نہ اب پڑنے کی توقع ہے۔ یوں بھی جب آپدا(مصیبت) میں اوسر(موقع) تلاش کرنا ہی حصولیابی بن جائے تو مصنوعی مصیبت پیدا بھی کی جاسکتی ہے۔

دوہزار کے نوٹ پر پابندی عائد کیے جانے کی توجیہ بھی وہی کی جا رہی ہے جو ساڑھے چھ سال پہلے پانچ سو و ہزار کے نوٹوں پر پابندی کے وقت کی گئی تھی، یعنی بلیک منی پر نکیل کسنا۔ لیکن نکیل کسنے کے اس عمل میں ہوا یہ تھا کہ ملک کی معیشت کو نکیل پڑگئی تھی۔ نوٹ بندی کے بدبختانہ فیصلے کو آج ساڑھے چھ سال ہونے کو آگئے لیکن ملک کی معیشت آج تک پٹری پر نہیں آسکی۔ چھوٹے و اوسط درجے کے جو کاروبار تباہ ہوئے تھے وہ آج تک بحال نہیں ہوسکے اور جو کروڑوں لوگ بیروزگار ہوئے وہ آج بھی بیروزگاری جھیل رہے ہیں۔ لیکن مودی سرکار کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ اس کی رعونت اور مطلق العنانی نے ملک کو کتنا نقصان پہنچایا۔ اسے تو بس فیصلہ کرنا تھا، اس کے اثرات پر غور کرنا نہ تھا۔ یہی وجہ رہی کہ نوٹ بندی کا اعلان آر بی آئی کے بجائے پردھان سیوک نے فرمایا۔ بعد میں جب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو آر بی آئی نے لیپا پوتی کرتے ہوئے حکومت کے اس فیصلے کا بچاؤ کیا تھا۔


دوہزار کے نوٹ کو بلیک منی کی ایک بڑی وجہ بتایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کو سرکیولیشن سے نکال دینے سے بلیک منی پر روک لگے گی۔ اس کا ذکر آربی آئی، نیتی آیوگ، وزارت مالیات اور بی جے پی کے بیشتر لیڈوں نے کیا ہے۔ سب کا کہنا ہے کہ دو ہزار کے نوٹ پر پابندی لگانے سے بلیک منی ختم ہوجائے  گی۔ اب ذرا چشم تصور سے ساڑھے چھ سال قبل وزیراعظم مودی کا راشٹر کے نام سندیش کو دیکھئے جس میں انہوں نے کہا تھا جو سترہ لاکھ کروڑ روپئے ٹرانزکشن میں ہیں ان میں زیادہ حصہ بلیک منی کا ہے، اس پر نکیل لگانے کے لیے پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹ کو لیگل ٹینڈر سے ہٹا دیا گیا۔ اب دوہزار کروڑ روپئے پر پابندی کا ذکر ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سرکیولیشن کا پیسہ بڑھتے بڑھتے تیس لاکھ کروڑ روپئے تک پہنچ چکا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس دور میں بلیک منی میں اضافہ ہوگیا ہے، جبکہ نوٹ بندی کی ہی اس لیے گئی تھی کہ بلیک منی پر روک لگے؟ اگر ایسا ہے تو کیا اس کا صاف مطلب یہ نہیں ہے کہ بلیک منی کو روکنے کا مودی حکومت کا 2016 کا فیصلہ غلط تھا اور حکومت نے بغیر سوچے سمجھے نوٹ بندی کا فیصلہ کیا تھا؟

 لیکن اس بلیک منی کا رونا رونے والے معلوم نہیں کیوں اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ بلیک منی بھی سرکیولیشن میں ہی رہتی ہے جو ایک متوازی معیشت کے طور پر کام کرتی ہے۔ مثال کے طو رپر اگر کوئی سرکاری افسر رشوت لیتا ہے تو رشوت کا وہ پیسہ بھی بازار میں ہی استعمال کرتا ہے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ اگر دو ہزار کے نوٹ ختم کر دیئے جائیں تو رشوت بھی ختم ہو جائے گی۔ جو لوگ دو ہزار روپئے کی شکل میں رشوت لیتے تھے وہ کل پانچ سو روپئے کے نوٹوں میں رشوت لیں گے۔ اس دو ہزار کے نوٹ کو بند کر دینے سے اگر کسی کو کچھ نقصان ہوسکتا ہے تو وہ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو ہوسکتا ہے۔ لیکن اس سے بھی بچنے کے ان کے پاس سیکڑوں راستے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ ایسے لوگ اب دو ہزار کے نوٹوں سے سونا خرید رہے ہیں جس کی وجہ سے سونے کی قیمت میں خوب اچھال بھی آگیا ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ آخر یہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟


اگر اس بلیک منی سے مراد حکومت کی نظروں سے پوشیدہ دولت ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وکی لیکس، پناما پیپرس، ایچ ایس بی سی بینک اور سوئس بینکوں میں جن لوگوں نے سرکار سے چھپا کر پیسے جمع کیے تھے اور جن کے نام بھی منظرعام پر آگئے تھے، ان کا اور ان پیسوں کا کیا ہوا؟ اس کے علاوہ دنیا کے جن سو سے زائد ممالک میں اس طرح کے پیسے رکھے جاتے ہیں ان میں سے بیشتر کے ساتھ حکومت ہند کے معاہدے ہیں اور حکومت بلیک منی ہولڈرس کے نام چند گھٹنوں میں معلوم کرسکتی ہے۔ کیا حکومت نے ان لوگوں کے خلاف یا ان کے جمع کئے ہوئے پیسوں کے خلاف کوئی کارروائی کی؟ تو ان سب کا جواب نفی میں ہے۔ مختلف اعداد وشمار میں بلیک منی کا جتنا پیسہ بتایا جاتا ہے اتنا پیسہ اگر ملک کے خزانے میں آجائے تو یقینا ہر شخص کے حصے میں پندرہ پندرہ لاکھ روپئے آجائیں گے۔ لیکن جس طرح مودی سرکار کا پندرہ لاکھ کا وعدہ انتخابی جملہ تھا اسی طرح بلیک منی کو واپس لانے کا وعدہ بھی انتخابی جملہ ہی نکلا، کیونکہ سرکار کوئی بلیک منی واپس نہیں لائی۔

ایسے میں سابق وزیرخزانہ پی چدمبرم کا یہ بیان اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’دو ہزار روپئے کے نوٹ کبھی شفاف نہیں رہے۔ اسے ملک کی اکثریت نے کبھی استعمال نہیں کیا، اسے صرف بلیک منی کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں نے استعمال کیا‘۔ یہ ذخیرہ اندوزی کرنے والے کیا اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ ان پیسوں کو وائٹ منی میں کیسے تبدیل کیا جاتا ہے؟ کیونکہ ایس بی آئی نے خود انہیں تبدیل کرنے کی نہایت آسان طریقہ بتا دیا ہے۔ کیا ذخیرہ اندوزی کرنے والے ان راستوں کے ذریعے اپنے نوٹوں کو تبدیل نہیں کرلیں گے؟ شاید اسی وجہ سے جئے رام رمیش نے کہا ہے کہ ’اپنے خود ساختہ و شوگرو کا یہ نمونہ ہے، پہلے فیصلہ کرو پھر سوچو۔ 8 نومبر2016 کو ایک تباہ کن تغلقی فرمان کے بعد 2000 کے نوٹ دھوم دھام سے لائے گئے تھے، اب سے واپس لیا جا رہا ہے‘۔


سچائی یہ ہے کہ دو ہزار کے نوٹوں پر پابندی کے اس فیصلے کا اثر براہ راست ملک کی معیشت پر پڑے گا، اس معیشت پر جو پہلے سے ہی ادھ مری ہوچکی ہے۔ اس فیصلے سے نوٹوں کا اعتبار ہی ختم ہوجائے گا کیونکہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ جو حکومت پہلے پانچ سو اور ہزار کے نوٹوں پر پابندی لگاتی ہے پھر خود ہی پانچ سو روپئے کے نوٹ جاری کرتی ہے، کیا بعید نہیں کہ کل کو وہ پانچ سو روپئے کے نوٹ کو بھی لیگل ٹینڈر ماننے سے انکار کر دے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک میں ایسا زبردست مالی بحران پیدا ہوجائے گا جو سنبھالنے سے نہ سنبھل سکے گا۔ لیکن ایسی صورت میں یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پردھان سیوک کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی، وہ اپنا جھولا اٹھاکر چلتے بنیں گے۔ لیکن اس چلتے بننے سے پہلے وہ ملک کو جو نقصان پہنچا جائیں گے اس کا خمیازہ ملک کو برسوں بھگتنا پڑے گا۔

(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */