آئیے، آزادی کے 75ویں سال پر ہم اپنے لوگوں کو متحد کرنے کا عزم دہرائیں... سونیا گاندھی

ہم سبھی جمہوری ہندوستان کے شہری ہیں، سبھی کو یکساں حقوق حاصل ہیں، پھر بھی ذات اور طبقہ کا استعمال کر لگاتار ہمیں تقسیم کیا جا رہا ہے اور ہماری آزادی پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

سونیا گاندھی

ملک کی آزادی کا 75واں سال ایک ایسا موقع ہے جو 1947 کے بعد سے ہمارے سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی سطح پر ہماری اہم حصولیابیوں کا عکس ظاہر کرتا ہے۔ ان سالوں میں جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔ معیشت اثردار انداز سے فروغ پائی ہے اور وقتاً فوقتاً اس نے اپنی مضبوطی اور لچیلے پن کا احساس بھی کرایا ہے۔ ہندوستان ایک عظیم الشان صنعتی اور زراعت پر مبنی طاقت ہے۔ سائنسی سطح پر ہندوستان کی صلاحیتیں کئی شعبوں میں بے مثال ہیں۔ صدیوں سے محروم اور حاشیے پر رہے طبقات خود مختار ہوئے ہیں اور انھیں عزت نفس و وقار حاصل ہوا ہے۔ ترقی پذیری کو توجہ میں رکھتے ہوئے کئی طرح کے قوانین بنائے گئے ہیں۔ بین الاقوامی طبقہ میں ہندوستان ایک بااثر ملک بنا ہے، اور یہ سب کچھ 2014 کے بعد حاصل نہیں ہوا ہے، بلکہ آزادی کے فوراً بعد کے سالوں میں ہمارے بانیان نے ملک کی تعمیر کی جو بنیاد رکھی ہے، اور ہمارے لیڈروں کی دانشمندی و دور اندیشی سے جو بنیادی ڈھانچہ قائم ہوا ہے، اس کا ملا جلا اور مجموعی نتیجہ ہے۔

یہ ساری حصولیابیاں اور ایک نو آبادیاتی ریاست سے عالمی طبقہ میں قیادت کرنے کی صلاحیت تک پہنچنے کی تبدیلی حقیقت پر مبنی ہے۔ اس کا سہرا ملک کی اب تک کی سبھی حکومتوں کو جاتا ہے اور یہ جدید ہندوستان کے معمار پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر آزاد خیال، جمہوری اور سیکولر اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک کے لوگوں کی سخت محنت کا نتیجہ ہے۔ یہ وہ کوششیں اور حصولیابیاں ہیں جن کے بارے میں کچھ لوگ یہ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی کے پہلے 70 سالوں میں کچھ بھی نہیں ہوا!


ابھی جب ہم اپنے 75 سالوں کے سفر کا جشن منا رہے ہیں، تو یہ دیکھ کر افسوس اور تکلیف کے ساتھ فکر بھی ہوتی ہے کہ ملک کو جن جذبات اور سمت کی طرف جبراً دھکیلا جا رہا ہے اسے کسی بھی قسم کے بڑے انعقاد یا ’امرت مہوتسو‘ چھپا نہیں سکتے۔ آئینی اقدار، اصولوں اور دفعات پر منظم طریقے سے حملے کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے سماج کے بڑے طبقے میں اس وقت خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے۔ ہمارے سیاسی اور انتظامی اصول کے ستون رہے اداروں کی آزادی کو واضح طور سے ختم کر، اداروں کو گھٹنے ٹیکنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ ملک کی سماجی خیر سگالی کے رشتوں کو انتخابی فائدہ کے لیے پولرائزیشن کے ذریعہ قصداً توڑا جا رہا ہے۔ سیاسی مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال ذاتی بدلے کے ذرائع کی شکل میں کیا جا رہا ہے۔ نفرت اور شدت پسندی کو فروغ دینے کے لیے تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کر اسے پھر سے لکھا جا رہا ہے۔ 2014 سے پہلے کی دہائیوں میں کروڑوں ہندوستانیوں کی محنت سے ملی حصولیابیوں کو ایک شخص اور ایک انتہائی اقتدار پسند حکومت کی تعریف و توصیف کرنے کے لیے کمتر ثابت کیا جا رہا ہے۔

جو سب سے زیادہ سنگین اور فکر انگیز ہے، وہ ہے عام لوگوں کے ذہن میں نجی حقوق اور آزادی چھینے جانے کا احساس، جس نے ہم سبھی کو، ہمارے سماج، ہمارے طبقات، ہمارے تنوع کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ صرف حکم پر تعمیل کی امید کی جا رہی ہے۔ عدم اتفاق بالکل ناقابل برداشت ہے۔ نااتفاقی کو ملک کی مخالفت کا نام دے دیا گیا ہے۔ لوگوں سے سب کچھ سر جھکا کر ماننے کی امید کی جا رہی ہے۔ سب کے لیے، اور خصوصاً اقلیتوں، کمزور طبقات، شہری سماج اور دانشوروں کے لیے طرز عمل اور سلوک کے پیمانے طے کر دیے گئے ہیں۔ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان نجی حقوق اور آزادی کے لیے جگہ سکڑتی جا رہی ہے جنھیں 75 سالوں میں سخت جدوجہد سے حاصل کیا گیا ہے۔

ہمارا آئین ہمیں اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے، پھر بھی زبیر کا کیس اور اس جیسے لاتعداد معاملوں میں واضح ہو گیا ہے کہ اگر ہم اظہارِ رائے کی آزدای کے حقوق کا استعمال کرتے ہیں تو ہمیں ظلم کا شکار بنایا جاتا ہے اور پریشان کیا جاتا ہے۔


ہمارا یقین ہے کہ ہم ایک آزاد پریس ہیں، پھر بھی قائم بین الاقوامی پیمانوں میں ہماری حالت سال در سال پھسلتی جا رہی ہے اور گزشتہ 8 سالوں میں تو اس میں زبردست گراوٹ درج ہوئی ہے۔

ہم نے ایسے ادارے بنائے یا ہمیں وراثت میں وہ ادارے ملے جو سرکاری کنٹرول سے آزاد ہو کر آزادانہ طور پر لوگوں کی آزادی اور حقوق کو یقینی کریں۔ لیکن حقیقت بالکل الٹ گئی ہے، کیونکہ ان اداروں کو کمزور کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، کچھ کو تو اقتدار کا ہی ہاتھ بنا دیا گیا ہے جو جانبدارانہ اور تکبرانہ طریقوں سے کام کر رہے ہیں۔

ہمیں اپنی خواہش کے مذہب کو چننے اور اس پر عمل کرنے کی آئینی گارنٹی حاصل ہے۔ پھر بھی ایسے قانون اور سماجی دباؤ بنا دیے گئے جنھوں نے ’سَرو دھرم سمبھاؤ‘ (سبھی مذاہب کا احترام) کو محدود کر دیا ہے۔

ہم سبھی جمہوری ہندوستان کے شہری ہیں، سبھی کو یکساں حقوق حاصل ہیں، پھر بھی ذات اور طبقہ کا استعمال کر لگاتار ہمیں تقسیم کیا جا رہا ہے اور ہماری آزادی پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔

ہمیں اپنا شریک حیات چننے کی آزادی دی گئی ہے، پھر بھی ذات، مذہب، اور اب تو غیر تحریری سرکاری پابندیاں لگا کر ہمیں روایتی دباؤ کے ذریعہ اس حق کا استعمال کرنے سے روکا جا رہا ہے۔

ہمیں اپنی پسند کی حکومتیں چننے کا حق ہے، لیکن وقت وقت پر سیاسی سازشیں تیار کر اس حق کو چھینا جا رہا ہے۔ کیا اس بات پر کوئی حیرانی ہے کہ گزشتہ 8 سالوں میں کئی اسمبلی انتخابات سے ابھرے مقبول مینڈیٹ کو الٹ دیا گیا ہے اور نئی منتخب ہوئی حکومتوں کو ان کی جگہ بزور طاقت قائم کیا گیا ہے؟


ہندوستان کی آزادی کا 75واں سال ایک موقع ہونا چاہیے کہ ہم اپنے لوگوں کو متحد کرنے کا عزم دہرائیں۔ لیکن، اس کی جگہ صدیوں سے ہمیں متعارف کرتے رہے تنوع کو ہی ہمیں تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حقیقی حکومت کی جگہ نعروں اور جملوں نے لے لی ہے۔ تشہیر کو مظاہرہ کا متبادل بنا دیا گیا ہے۔ تبادلہ خیال کی جگہ غلط فہمی پیدا کرنے کا رواج شروع ہو چکا ہے۔ وقار بڑھانے کی جگہ تعصب پھیلانے کے لیے نیشنلزم کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ معنی خیز بحث و مباحثہ کی گنجائش بہت کم ہوتی جا رہی ہے، اور نااتفاقی کے لیے جگہ تو جیسے ختم ہی ہو گئی ہے۔ قانون بنانے اور ان کی جانچ میں پارلیمنٹ کے کردار کو لگاتار درکنار کیا جا رہا ہے۔ ان سب کے مرکز میں ایک عام ہندوستانی شہری بڑھتے عدم برداشت، بڑھتی کٹر پسندی و نفرت اور ختم ہوتی آزادی کی قیمت ادا کر رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */