ایک تھے ایل کے اڈوانی!

تاریخ میں بابر کے بہانے مسلم طبقے کو نشانہ بنایا گیا اور سیکولرزم کوختم کرنے کے لئےبڑے پیمانے پرکھیل کھیلا گیا-

لال کرشن اڈوانی
لال کرشن اڈوانی
user

نواب علی اختر

نریندر مودی کی’بی جے پی‘ کواب لال کرشن اڈوانی جیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ پارٹی نے جمعرات کو اپنے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کر کے صاف کردیا کہ مودی اور امت شاہ کی مخالفت کرنے والوں یا ان کی حکمرانی کو ’ایمرجنسی‘ سے تعبیر کرنے والوں کا یہی حشر ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی اور سنگھ پریوار میں اڈوانی دور کا رسمی طور پر اختتام ہوگیا۔ وہ اب عمر کے اس پڑاؤ پر ہیں، جہاں پارٹی انہیں اپنا مستقبل نہیں دیکھ سکتی، شاید اسی لئے انہیں ’ایک تھے لالل کرشن اڈوانی‘ کردیا گیا ہے۔ گجرات کے گاندھی نگر سیٹ سے اڈوانی کی جگہ امت شاہ کو امیدوار بنایا گیا ہے۔ اڈوانی اس سیٹ سے 1998 سے مسلسل جیتتے رہے تھے لیکن پارٹی نے اس بار انہیں موقع نہیں دیا ہے۔ ہندوستان کی سیاست میں لال کرشن اڈوانی کے کئی چہرے ہو سکتے ہیں لیکن ان کو ہمیشہ متنازعہ شخص کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اڈوانی زندگی بھر تضادات میں جیتے رہے۔ وہ مذہبی نہ ہوتے ہوئے بھی سیاست میں مذہب کا استعمال کرتے گئے،اصول پسند چہرہ رکھنے کے بعد بھی وہ پارلیمنٹ کی رکنیت برقرار رکھنے کے لئےمودی کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہے۔ ایسے میں اگر گاندھی نگر سے ان کا ٹکٹ کٹ گیا تو حیرت کی بات نہیں۔انہیں 2014 کے بعد ہی اعلان کردینا چاہیے تھا کہ وہ انتخابی سیاست کا حصہ نہیں رہیں گے۔ جب ’مردآہن‘ حقیقت میں مرد آہن نہیں ہوتے تو وہ اس طرح بے عزت ہونے کے لئے لعنت ہوتے ہیں۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ اڈوانی کواب کیسے یاد رکھا جائے گا۔ تاریخ انہیں کس نظریئے سے دیکھے گی؟ کیا اڈوانی کو ایسے شخص کے طور پر یاد کیا جائے گا جوعمر بھر اٹل بہاری واجپئی کے نمبر دو رہے؟ ایسے لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جنہوں نے نریندر مودی کے سیاسی کیریئر کی بے وقت موت کو ٹال دیا تھا؟ اڈوانی کیا نائب وزیر اعظم کے طور پر یاد کیے جائیں گے یا پھر ایک ایسے شخص کے طور پر یاد کئے جائیں گے جو بعد کے دنوں میں ایک وقت کے اپنے شاگرد نریندرمودی کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے تھے اور مودی ان کو نظر انداز کر آگے بڑھ جاتے تھے؟۔ یا پھر اڈوانی اس شخص کے طور پر یاد کئے جائیں گے جنہوں نے ہندوتوا کو ایک سیاسی نظریئے کے طور پرقائم کیا، یا اڈوانی اس رتھ یاتری کے طور پر یاد کیے جائیں گے جس کا رتھ جہاں جہاں گیا، وہاں وہاں فسادات ہوئے اور سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ کیا اڈوانی اس شخص کے طور پر بھی یاد کیے جائیں گے جس کی آنکھوں کے سامنے بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا اور وہ اس کی مذمت بھی نہیں کرسکے، یا پھر اڈوانی کا ذکر اس شخص کے طور پر ہو گا، جس کے اوپر جین حوالہ ڈائری گھپلے میں پیسے لینے کا الزام لگا اور لوک سبھا کی رکنیت سے استعفیٰ دینا پڑا؟۔

اڈوانی کے پہلے بی جے پی اور جن سنگھ اس مشکوک میں الجھے رہتے تھے کہ ہندوتوا کا راستہ اپنائے یا نہ اپنائے۔ اسی مخمصے کی وجہ سے1977 میں جن سنگھ نے جنتا پارٹی میں اپنا انضمام کرکے پارٹی کے طور پر اپنا وجود ختم کردیا تھا۔ جنتا پارٹی کے ٹوٹنے کے بعد واجپئی کی قیادت میں بی جے پی کاعروج ہوا لیکن اس کا نظریہ بدلا ہوا تھا۔ اب پارٹی ہندوتوا کی جگہ ’گاندھی وادی سوشلزم‘ کی وکالت کررہی تھی۔ اس’گاندھی وادی سوشلزم‘ کا کیا مطلب تھا، یہ بی جے پی کبھی ملک کو سمجھا نہیں پائی۔ شاید پارٹی بھی نہیں سمجھ پائی تھی۔ اس کا نتیجہ سامنے تھا جب 1984 میں پارٹی سمٹ کردوسیٹوں پرآ گئی۔ اڈوانی کو پارٹی کا صدر بنایا گیا اور یہ طے ہوا کہ پارٹی ہندوتوا کی راہ پر ہی چلے گی۔ رام جنم بھومی کے مسئلے کو زوردار طریقے سے اٹھایا گیا۔ تاریخ میں بابر کے بہانے اقلیتی مسلم طبقے کو نشانہ بنایا گیا اور سیکولرزم کو ’ختم‘ کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر کھیل کھیلا گیا۔ جس میں ایک طرف ہندو طبقے کی بنیاد پر لوگوں کے جذبات کو بھڑکانا تھا تو دوسری طرف مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو نشانہ بنانا تھا۔ اڈوانی کی اس مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ سومناتھ سے ایودھیا تک رتھ یاترا پرنکلے، حالانکہ وہ ایودھیا نہیں پہنچ پائے۔ بہار کے سمستی پور میں ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا لیکن اس وقت تک ملک کی سیاست میں بڑی تبدیلی آچکی تھی۔

اڈوانی کی رتھ یاترا کا نتیجہ یہ نکلا کہ 6 دسمبر1992 کو بابری مسجد شہید کر دی گئی۔ ایک طرف اڈوانی 2002 کے گجرات فسادات کے بعد مودی کو وزیراعلیٰ کےعہدے سے ہٹائے جانے سے بچاتے ہیں تو دوسری طرف پاکستان جا کر ہندوستان کی تقسیم کے لئے ذمہ دارمحمد علی جناح کو سیکولر بتانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اڈوانی جناح پر اپنے بیان کی وجہ سے پارٹی کے صدر کےعہدے سے ہٹا بھی دیئے جاتے ہیں۔ بعد میں جن نریندر مودی کا سیاسی کیریئر انہوں نے بچایا تھا، انہیں مودی کی وہ اس وقت مخالفت کرتے ہیں،جب انہیں وزیراعظم کےعہدہ کا امیدوار اعلان کیا جاتا ہے۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اڈوانی کا کون سا قدم صحیح تھا۔ مودی کو وزیراعلیٰ کےعہدے سے ہٹنے سے بچانا یا وزیراعظم کے طور پران کے امیدوار بننے کی مخالفت کرنا کیونکہ یہ وہی مودی تھے جن کے اوپر گجرات فسادات کے انتہائی سنگین الزام لگے اور جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی تصویر کو بڑا دھچکا لگا۔ کیا انہیں اپنی غلطی کا احساس 10 سال بعد ہوا کہ انہوں نے مودی کو بچا کرغلطی کی تھی؟ اڈوانی نے مودی کو وزیراعظم کا امیدوار اعلان کرنے کے وقت باقاعدہ خط لکھ کرکہا تھا کہ پارٹی کچھ لوگوں کے ذاتی مفاد کی تکمیل کے لئے واجپئی، شیاما پرساد مکھرجی اور دین دیال اپادھیائے کے اصولوں سے بھٹک گئی ہے۔ آخر کے کچھ سالوں میں یہ دیکھنا انتہائی تکلیف دہ تھا کہ کس طرح وہ مودی کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے تھے اورمودی انہیں نظرانداز کر آگے نکل جاتے تھے۔ اڈوانی کی یہ تصویر ان کی اس تصویر سے میل نہیں کھاتی، جس میں انہیں ’مردآہن‘ کہا گیا تھا۔ یہ ایک ایسے کمزور شخص کی تصویر تھی جو سیاست میں رہنے کے لئے تاریخ میں اپنا کردار بھول گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Mar 2019, 1:09 PM