بیچارے اڈوانی! اب آنسو پونچھنے والا بھی کوئی نہیں...ظفر آغا

خبر یہاں تک ہیں کہ اڈوانی نے بہت کوشش کی کہ گاندھی نگر سیٹ ان کی بیٹی پرتبھا اڈوانی کو دے دی جائے، لیکن سیاست میں ڈوبتے ستارے کی کون سنتا ہے، وہ سیٹ بی جے پی کے تازہ چڑھتے سورج امت شاہ کے حصے میں آئی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

آخر لال کرشن اڈوانی کی ہندوستانی سیاست سے چھٹی ہو ہی گئی۔ جی ہاں، ہولی کی شام جب سنہ 2019 لوک سبھا انتخاب کی بی جے پی کی جانب سے پہلی پارٹی امیدواروں کی لسٹ منظر عام پر آئی تو اس میں گاندھی نگر، گجرات سیٹ پر اڈوانی کی جگہ امت شاہ کا نام تھا۔ یعنی پارٹی نے اڈوانی کو ٹاٹا کر دیا۔ اور ستم ظریفی یہ کہ اڈوانی کا سیاسی کیریر ختم کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ وہ فرد ہے جس کا سیاسی کیریر خود اڈوانی نے بنایا تھا۔ نریندر مودی دراصل ہندوستان کو اڈوانی کا تحفہ ہیں۔ سنہ 1990 کی دہائی میں جب لال کرشن اڈوانی نے اپنی پہلی رتھ یاترا پر سوم ناتھ سے ایودھیا کی جانب کوچ کیا تھا تو اس رتھ کی لگام پکڑ کر چلانے والا شخص نریندر مودی ہی تھا۔ اس وقت تک دہلی کیا خود احمد آباد بی جے پی تک مودی کی کوئی خاص پہچان نہ تھی۔

بہر کیف، اقتدار اور اس کی سیاست کے اتار چڑھاو، اللہ کی پناہ۔ وہی اڈوانی جنھوں نے مودی کو سنہ 2001 میں گجرات کا وزیر اعلیٰ بنایا، انہی اڈوانی کا یہ حال تھا کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہاتھ وہ جوڑے کھڑے رہتے تھے اور مودی مڑ کر ان کی جانب رخ بھی نہ کرتے تھے۔ اب یہ نوبت آئی کہ اڈوانی سے کہہ دیا گیا کہ بس بہت ہوا، اب گھر بیٹھیے۔ خبریں یہاں تک ہیں کہ اڈوانی نے اس بات کی بہت کوشش کی کہ گاندھی نگر سیٹ ان کی بیٹی پرتبھا اڈوانی کو دے دی جائے، لیکن سیاست میں ڈوبتے ستارے کی کون سنتا ہے۔ ان کے بجائے وہ سیٹ بی جے پی کے تازہ چڑھتے سورج امت شاہ کے حصے میں آئی۔

لیکن اڈوانی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر سیاسی مبصرین کو کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ ایک عرصے سے یہ واضح تھا کہ بس اب اڈوانی کا چل چلاو ہے۔ دراصل اڈوانی کا زوال اس وقت سے شروع ہو گیا جب اپنے پاکستان دورے کے دوران انھوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو 'سیکولر' کہہ دیا۔ بڑے بڑے ہندوستانی سیکولر کو'سیوڑو سیکولر' بتانے والے اڈوانی کے منھ سے جناح کی تعریف بحیثیت سیکولر سن کر سنگھ پریوار سکتے میں آ گئی اور یہ طے ہو گیا کہ جلد ہی اڈوانی کی چھٹی ہو سکتی ہے۔ اور ہوا بھی کچھ یوں ہی۔ اس بیان کے کچھ عرصے بعد ہی اڈوانی پارٹی صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیکن اڈوانی نے بی جے پی کو ایک بیج سے برگد بنایا تھا۔ بی جے پی کی تنظیم پر ان کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ سنگھ کے چاہتے ہوئے بھی بی جے پی کو پس پردہ اڈوانی ہی کنٹرول کرتے رہے۔ آخر سنہ 2009 میں ان کو پارٹی کی جانب سے بی جے پی کا وزارت عظمیٰ کے لیے امیدوار بنایا گیا۔ اڈوانی انتخاب نہ جتا سکے۔ اور اب آر ایس ایس چیف نے سوچا کہ چلو ان کی چھٹی ہوئی۔ سنگھ نے ناگپور سے خاص طور سے نتن گڈکری کو بی جے پی کا صدر بنا کر بھیجا۔ مگر اڈوانی ٹھہرے اڈوانی، انھوں نے گڈکری کی ایک نہ چلنے دی۔ آخر جب سنگھ نے گڈکری کو بی جے پی صدارت کے لیے دوبارہ منتخب کیا تو یکایک 'پورتی اسکینڈل' اچھل پڑا۔ اس اسکینڈل میں گڈکری کا نام نمایاں تھا۔ بیچارے گڈکری کیچڑ اچھلنے کے بعد سنگھ کی حمایت کے باوجود پیچھے ہٹ گئے۔ گڈکری کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ پورتی اسکینڈل کو ہوا دینے والی شخصیت کا نام لال کرشن اڈوانی ہی تھا۔

الغرض سیاست کی بساط پر اڈوانی ایک بار پھر کامیاب ہوئے۔ ظاہر ہے موہن بھاگوت خون کا گھونٹ پی کر اس وقت تو چپ ہو گئے، لیکن شاید انھوں نے ٹھان لیا کہ اس کا کوئی علاج کرنا ہی ہوگا۔ سنگھ اقتدار کی سیاست میں سیدھی دخل اندازی نہیں کرتی ہے اس سلسلے میں اس کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ جس کو نشانہ بناتی ہے اس کے خلاف ایک مہرا کھڑا کرتی ہے۔ آخر موہن بھاگوت کو سنہ 2014 میں وہ مہرا مل ہی گیا۔ اور اس مہرے کا نام تھا نریندر مودی۔ جناب مودی کو سیاسی بساط کی چالوں کا سبق خود اڈوانی نے سکھایا تھا۔ لیکن اڈوانی کو اندازہ نہیں تھا کہ چیلا شکر ہو چکا ہے۔ سب سے پہلے تو مودی نے اڈوانی کو سنہ 2014 کی انتخابی ریس میں وزیر اعظم کی دعویداری سے باہر کیا۔ پھر جب انتخاب جیت کر خود وزیر اعظم بن گئے تو مودی نے اڈوانی کو مارگ درشک بنا کر گھر بٹھا دیا۔ دوسری طرف پارٹی پر قبضہ کرنے کے لیے امت شاہ کو احمد آباد سے بلا کر دہلی بٹھا دیا۔

اب اڈوانی کے پر پوری طرح کتر چکے تھے۔ پانچ سال پوری طرح پارٹی اور ملک کے اقتدار پر قابض رہنے کے بعد مودی یہ جانتے تھے کہ وہ اب اڈوانی کو دودھ کی مکھی کی طرح پارلیمانی انتخاب سے باہر پھینک دیں تو بھی کوئی چوں کرنے والا نہیں ہے۔ اور ہوا بھی وہی۔ اڈوانی کو ٹکٹ نہ ملے ہوئے تقریباً چوبیس گھنٹے بیت چکے ہیں لیکن اڈوانی کے آنسو پونچھنے کے لیے ان کے دروازے پر ایک فرد بھی موجود نہیں ہے۔

کہتے ہیں اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ ہندوستان میں بابری مسجد-رام مندر تنازعہ کی آڑ میں نفرت کی سیاست کا چلن شروع کرنے والے اڈوانی مسلم منافرت کے سیلاب میں بی جے پی کے عروج تک تو پہنچے، لیکن پہلے اٹل بہاری واجپئی نے ان کو وزیر اعظم نہیں بننے دیا، پھر اسی نفرت کی سیاست میں ماہر خود ان کے چیلے نریندر مودی نے آخر اڈوانی کے سیاسی کیریر کا گلا ہی گھونٹ دیا۔ گو 91 برس کے اڈوانی نے ابھی ریٹائرمنٹ کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن مودی نے اڈوانی کی گت 'ریٹائرڈ' سے بدتر کر دی ہے۔ 91 برس کے سابق نائب وزیر اعظم رہے اڈوانی کی آنکھوں میں اب تارے تو ناچ ہی رہے ہوں گے۔ آخر یہ وہی بی جے پی ہے جس کو اڈوانی نے اپنے خون سے سینچا تھا اور یہ وہی مودی ہے جس کو نفرت کی سیاست کے بازار میں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا۔

اڈوانی سے غلطی محض اتنی ہوئی کہ وہ بی جے پی کے خمیر کو بھول گئے۔ ہندوتوا کے نظریہ میں پلی بڑھی بی جے پی سازشوں، ریشہ دوانیوں اور پیٹھ میں چھرا گھونپ کر آگے بڑھ جانے والی تنظیم ہے۔ اس تنظیم میں جب تک کوئی عروج پر ہے، سب اس کے مداح، جب اقتدار سے باہر تو بس پھر وہ اڈوانی۔ کل امت شاہ خود نریندر مودی کے ساتھ وہی سلوک کریں جو مودی نے اڈوانی کے ساتھ کیا تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

بیچارے اڈوانی اس وقت بے یار و مددگار ہاتھ مل رہے ہیں۔ لیکن اس غم میں ان کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں۔

(ظفر آغا)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔