انسانیت شرمسار، بے غیرتی کی انتہا 

آٹھ سالہ معصوم بچی کے ساتھ لرزہ خیز حیوانیت اور پھر اس کا قتل اور ایک 17 سالہ دوشیزہ کی عصمت دری اور پھر اس کے باپ کے قتل نے دنیائے انسانیت کو شرمسار کر دیا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

سہیل انجم

اس وقت پورا ملک ایک بار پھر ابل پڑا ہے۔ لوگوں میں شدید غم و غصہ ہے۔ ناراضگی ہے۔ برہمی ہے۔ ایک آٹھ سالہ معصوم بچی کے ساتھ لرزہ خیز حیوانیت اور پھر اس کا قتل اور ایک 17 سالہ دوشیزہ کی عصمت دری اور پھر اس کے باپ کے قتل نے دنیائے انسانیت کو شرمسار کر دیا ہے۔ ہر مہذب شخص کی گردن جھکی ہوئی ہے اور ہر سنجیدہ فرد حکومت سے انصاف کا مطالبہ کر رہا ہے۔ لیکن جموں و کشمیر کی حکومت ہو یا اتر پردیش کی یا پھر مرکز کی، کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان حکومتوں نے بے غیرتی و بے حیائی کی نادر مثال قائم کی ہے۔ اس کے لیے ان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

جموں کے کٹھوعہ کا واقعہ ہو یا یو پی کے اناؤ کا، دونوں ہمارے رہنماؤں کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہیں۔ لیکن ضمیر اسی وقت بیدار ہوتا ہے جب اس میں کچھ جان ہو۔ اگر ضمیر پوری طرح مردہ ہو چکا ہو تو پھر کوئی بھی کوشش اس کو زندہ نہیں کر سکتی۔ ہر سعی، سعیٔ لاحاصل ثابت ہوتی ہے۔ کٹھوعہ کے واقعہ کے سلسلے میں پولس نے جو فرد جرم داخل کی ہے اس کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔ کس طرح خانہ بدوش بکروال خاندان کو وہاں سے بے دخل کرنے کے لیے آٹھ سالہ آصفہ کو نہ صرف آلہ کار بنایا گیا بلکہ اس کے ساتھ ایسی درندگی کا مظاہرہ کیا گیا جو مہذب سماج کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اس واقعہ کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔

اس معاملے کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کو ہندو مسلم رنگ دے دیا گیا۔ ہندو ایکتا منچ نامی ایک تنظیم قائم کر لی گئی اور ملزموں کو بچانے کی مہم شروع کر دی گئی۔ حد تو اس وقت ہو گئی جب جموں کے وکلا نے ترنگا لہرا کر ملزموں کا ساتھ دیا اور ان کے حق میں مظاہرہ کیا۔ کیا وکلا کو اس کا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس طرح انصاف کا جنازہ نکالیں۔ یعنی اب مجرم کو بھی اس کے مذہب سے پہچانا جائے گا اور یہ طے کیا جائے گا کہ اسے اس کے جرم کی سزا دی جائے یا نہیں۔ اس سے پہلے ہندوستانی سماج ایسا تو نہیں تھا۔ کیا 2012 میں دہلی میں پیش آنے والا نربھیا واقعہ لوگوں نے فراموش کر دیا۔ اس وقت تو سب ایک تھے۔ سب انسان تھے۔ سب انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔ لیکن اب کیا ہو گیا کہ مجرموں کی شناخت ان کے مذہب سے کی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت کے ان چار برسوں میں ہندوستان کا روادار معاشرہ کتنا غیر روادار اور کتنا متعصب ہو گیا ہے، دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔

جموں و کشمیر میں اس قسم کے واقعات پہلے بھی ہوئے ہیں اور عموماً متاثرین انصاف سے محروم رہے ہیں۔ ریاست میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی حکومت ہے۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ حکومت کے دو وزرا بھی ملزموں کی حمایت کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت وزارت سے استعفیٰ دیتے ہیں جب اس کے لیے ان پر زبردست دباؤ پڑتا ہے۔ ایک مرکزی وزیر جنرل وی کے سنگھ نے ذرا سی جرأت دکھائی۔ اس کے بعد بعض دوسرے مرکزی وزرا کی زبانیں کھلیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جموں و کشمیر کی مخلوط حکومت بری طرح ناکام ہے۔ وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو اب کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت چلاتی رہیں۔ اگر وہ کشمیری عوام کی ہمدرد ہیں اور انصاف کی بالا دستی قائم کرنا چاہتی ہیں تو انھیں فوراً استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ سچ بات یہ ہے کہ جب سے ریاست میں مخلوط حکومت قائم ہوئی ہے فرقہ واریت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

ادھر اترپردیش کی یوگی حکومت بھی ہر محاذ پر بری طرح فیل ہے۔ یوگی نے اقتدار میں آتے ہی بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ اب ریاست کو جرائم سے پاک کر دیا جائے گا۔ لیکن کیا ہوا۔ جرائم کا گراف چڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایک سال کے اندر خواتین اور دلتوں کے خلاف جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ جرائم میں زیادہ وہی لوگ ملوث پائے جا رہے ہیں جن کو حکومت کی شہ یا سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔ اناؤ میں بی جے پی رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر اور ان کے بھائی اور ان کے غنڈوں نے ایک غریب خاندان کی لڑکی او را س کے والد پر جو قیامت توڑی ہے اور جس طرح مجرموں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے یوگی حکومت بے نقاب ہو گئی ہے۔ قانون کہتا ہے کہ اگر کسی کے خلاف ایف آئی آر درج ہو تو اسے فوراً گرفتار کیا جائے۔ لیکن سینگر کو پہلے تو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ پھر انھیں حراست میں لیا گیا اور جب الہ آباد ہائی کورٹ نے لتاڑ لگائی تب کہیں جا کر گرفتار کیا گیا۔

پولس کی یکطرفہ کارروائی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ متاثرہ لڑکی کے والد کو بلا وجہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پولس کے سامنے ہی اس کو اس قدر زد و کوب کیا گیا کہ اس کی موت ہو گئی۔ اس نے مرنے سے قبل اپنے بیان میں قصورواروں کے نام لیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لڑکی کے باپ کا کیا قصور تھا۔ غنڈوں نے اسے کیوں مار مار کر ہلاک کر دیا اور وہ بھی پولس افسران کے سامنے۔ یوگی نے بار بار دعویٰ کیا ہے کہ اترپردیش میں رام راجیہ آگیا ہے۔ کیا یہی رام راجیہ ہے؟

ملک میں حالیہ دنوں میں کیا کیا نہیں ہو گیا۔ عوام کن کن مصائب میں گرفتار نہیں ہوئے۔ ان چار برسوں میں انھیں کن کن عنوانات سے ستایا نہیں گیا۔ لیکن حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو مون موہن سنگھ کہنے والے نریندر مودی کی زبان کو جیسے لقوہ مار گیا ہو۔ جب سپریم کورٹ اور الہ آباد ہائی کورٹ نے سختی دکھائی تب کہیں جا کر انھوں نے ایک ہلکا پھلکا بیان دے دیا کہ بیٹیوں کو انصاف ملے گا۔ سپریم کورٹ نے کٹھوعہ کے معاملے میں وکلا کے رویے پر سخت برہمی دکھائی اور بار کونسلوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔ شکر ہے کہ ہمارے ملک کی عدالتیں ابھی سیاست کے زیر اثر نہیں آئی ہیں۔ وہ اب بھی سرکاری دباؤ سے آزاد ہیں۔ ورنہ کسی بھی کمزور کو انصاف نہیں ملتا۔

حقیقت یہ ہے کہ مرکزی حکومت کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ وزیر اعظم ہوں یا دوسرے وزرا سب صرف زبانی جمع خرچ میں ماہر ہیں۔ جملے بازی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ یا پھر اپنے لوگوں کے جرائم اور بد عنوانیوں کا دفاع کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی جب بھی زبان کھولیں گے تو ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ ارے بھائی چار سال سے تو آپ ہی حکومت میں ہیں پھر بھی ہر غلط کام کی ذمہ دار کانگریس ہو جاتی ہے۔ بی جے پی، اس کے لیڈران اور اس کی حکومت دودھ کی دھلی ہے۔ سب پاک اور صاف شفاف ہیں۔ کسی کے دامن پر ذرا بھی داغ نہیں ہے۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کلیم عاجز نے کہا تھا:


دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج پورا ملک غم زدہ ہے۔ اور شرمندہ بھی ہے کہ نہ تو کٹھوعہ کی آصفہ کے مجرموں کو ابھی تک سزا ملی ہے اور نہ ہی اناؤ کی دوشیزہ کے مجرموں کو۔ پورا ملک شرمسار ہے اور حکومت بے غیرتی و بے حیائی کی چادر اوڑھے سو رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔