کشمیری عوام اس لاحاصل جنگ کے انجام کا احساس کریں

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ مودی نے ابتدائی دنوں میں اپنی جو امن پسند امیج بنانی چاہی تھی وہ آر ایس ایس کی سیاسی ضرورت کو پورا نہیں کر رہی تھی اور نہ ہی خود ان کی سابقہ امیج کے مطابق تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

پلوامہ میں مرکزی ریزرو پولس فورس (سی آر پی ایف) کے قافلہ پر دہشت گردانہ حملہ اور قریب 49 جوانوں کی شہادت سے پورا ملک غم اور غصّہ میں فطری طور سے جل رہا ہے، اس بزدلانہ اور بہیمانہ حملہ پر پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی حق بجانب ہے۔ پاکستان کے ارباب اقتدار سے یہ سوال بھی پوچھا جانا لازمی ہے کہ وہ اس طرح کی بہیمانہ کارروائیوں سے کیا حاصل کر لینے کی امید کر رہے ہیں، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کشمیر کو ہندوستان سے الگ کر لیں گے تو صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ بیوقوفوں کی جنت میں رہ رہے ہیں، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان حرکتوں سے ہندوستان میں شورش پیدا ہوگی، فرقہ وارانہ ماحول بگڑے گا اور ملک کمزور ہوگا، تو انھیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہنددستان کی مٹی میں ایسے جھٹکوں کو جھیل جانے کی لا محدود صلاحیت ہے، اس لئے وہ ان بزدلانہ حرکتوں سے ہندوستان کو تو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکتے، لیکن کشمیر کو جنت نظیر سے جہنم ضرور بنا دیا ہے۔

کشمیر کے کھیتوں میں اب زعفران اگنے کے بجائے بارود پھیل رہا ہے، پاکستان کی سازش اور بزدلی کی قیمت سب سے زیادہ کشمیری عوام ادا کر رہے ہیں- کشمیری عوام کو بھی اس تلخ حقیقت کا ادراک کر لینا چاہئے کہ پاکستان ہی نہیں خود ان کے علیحدگی پسند لیڈران بھی ان کے بہی خواہ نہیں ہیں، وہ موت، تباہی، بربادی، آگ اور خون کا مقابلہ کرنے کے لئے کشمیری نوجوانوں کو آ گے کر کے اپنے جگر گوشوں کو بیرون ملک محفوظ کمین گاہوں میں بھیج دیتے ہیں اور خود پاکستان سے ملنے والے خفیہ ٹکڑوں اور حکومت ہند سے براہ راست مالی امداد اور سیکورٹی پر عیش کرتے ہیں۔

جبکہ کشمیر کے ہزاروں نوجوان موت کے منہ میں جا چکے ہیں ان میں کسی رہنما کا لڑکا کیوں نہیں ہے کیا کشمیری عوام کو اس پر غور نہیں کرنا چاہیے، کیا ان میں اتنی فہم و فراست یا دور اندیشی نہیں ہے کہ وہ سمجھ سکیں کہ نام نہاد آزادی کے نام پر انھیں جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے، وہ ایک ایسی جنگ کا نہ چاہتے ہوئے بھی حصہ بن چکے ہیں جس میں شکست لازمی ہے، ایک بے مقصد جنگ ان پر تھوپ دی گئی ہے کیونکہ پاکستان جانتا ہے کہ براہ راست مقابلہ میں نہ صرف ہمیشہ کی طرح اس کی شکست یقینی ہے بلکہ بنگلہ دیش کی طرح کہیں اس کا کوئی بازو اس سے الگ نہ ہو جائے اس کا بھی قوی امکان ہے، اس لئے وہ اپنی نفرت اور بدلے کی بھٹی میں معصوم کشمیری عوام کو ایندھن کی طرح استعمال کر رہا ہے۔

کشمیری عوام کو حکومت ہند سے شکایتیں ہو سکتی ہیں ماضی میں یا حال میں بھی کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی مگر جمہوری نظام میں افہام و تفہیم سے ان شکایتوں کو دور کیا جا سکتا ہے، ملک کے دیگر عوام کی طرح ان کے پاس بھی ووٹ کی طاقت ہے جس کو وہ اپنی شکایات کے ازالہ کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور کیا بھی ہے، پنچایت کی سطح سے لے کر پارلیمنٹ تک وہ اپنی اس طاقت کا استعمال کرتے بھی ہیں۔

کشمیری عوام کو کیا شکایتیں ہیں اس پر توجہ دینا حکومت ہند کا اولین فریضہ ہے، مودی حکومت کو سوچنا ہوگا کہ کشمیر انھیں وراثت میں کس طرح ملا تھا اور آج وہ کس وراثت کو چھوڑ کر جا رہے ہیں، اس کے لئے کہیں اور نہیں صرف وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے ریکارڈ ہی حکومت کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہیں، کیا اس حقیقت سے انکار کر سکیں گے کہ کشمیر میں دہشت گردی کافی حد تک کم ہو کے محض چند علاقوں تک محدود ہوکر رہ گئی تھی، سیاحوں کی بھرپور آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، فلم انڈسٹری اپنی پسندیدہ لوکیشن کی جانب راغب ہونے لگی تھی، یہ سب اس لئے ہو سکا تھا کیونکہ اٹل جی نے اپنے دور میں کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی پالیسی اختیار کی تھی، انہوں نے انسانیت اور کشمیریت کے دائرہ میں کشمیری عوام کی شکایتوں کے ازالہ کا نہ صرف وعدہ کیا تھا بلکہ اس پر عمل بھی کیا تھا۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت نے بھی اس پالیسی کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے اور تیز بھی کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف وادی میں کافی حد تک امن بحال ہو گیا تھا بلکہ سرحد پار سے بھی ٹھنڈی ہوائیں آنے لگی تھیں، لیکن 2013 آتے آتےمتعدد وجوہ کی بنا پر منموہن حکومت سیاسی طور سے کمزور ہو نے لگی تھی، جس کا اثراس کی پاکستان اور کشمیر پالیسی پر بھی پڑا، اسی درمیان پاکستان میں بیٹھے دہشت گرد جو کسی بھی قیمت پر ہندوستان-پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات اور کشمیر میں امن و چین نہیں چاہتے تھے، انہوں نے نہ دو ہندوستانی فوجیوں کو قتل کر دیا بلکہ ان کا سر بھی تن سے جدا کر کے لاش ہندوستانی سرحد پر پھینک دی، اس بزدلانہ اور بہیمانہ حرکت کا ہندوستان میں شدید رد عمل ہونا لازمی تھا، پھر بھی ہندوستان نے دہشت گردوں کی سازش کو سمجھتے ہوے اس وقت صبر و تحمل، دور اندیشی اور تدبر سے کام لیا تھا، لیکن ہندوستانی میڈیا خاص کر ٹی وی چینلوں نے اور بی جے پی لیڈروں نے ایک طوفان کھڑا کر دیا، جس کے شور میں تدبر اور ڈپلومیسی کا قتل ہو گیا۔

منموہن حکومت کو بھی پاکستان کے حوالے سے اپنے بڑھتے قدم روکنے پڑے، اس وقت توایسا لگ رہا تھا کہ ہندوستانی خارجہ پالیسی وزارت خارجہ کے دفتر میں نہیں بلکہ ٹی وی اسٹوڈیوز میں طے کی جا رہی ہو، یہاں تک کہ خواجہ اجمیری کی درگاہ میں حاضری دینے آئے پاکستانی وزیر اعظم کو دیا جانے والا معمولی پروٹوکول اور انھیں کھانا کھلانا کو بھی نریندر مودی نے سیاسی ایشو بنا دیا تھا عوام کی بات چیت میں بھی چکن بریانی کا استعمال بھی طنزیہ طور پر ہونے لگا تھا۔

منموہن سنگھ کے دور حکومت میں تمام تر طوفان بدتمیزیوں کے باوجود نریندر مودی نے بطور وزیر اعظم ایک اچّھا آغاز کیا تھا، انہوں نے اپنی حلف برداری میں سبھی پڑوسی ملکوں کے سربراہاں حکومت کو مدعو کیا جن میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف بھی شامل تھے، اس کے بعد وزیر اعظم خود بھی ایک بار بنا پروگرام کے اچانک پاکستان پہنچ گئے، دونوں وزراۓ اعظم نے ذاتی دوست ہونے کا بھی احساس کرانے کی کوشش کی، لیکن پھر حالات بگڑنے لگے اور یہاں تک بگڑے کہ ہر طرح کی گفتگو کا سلسلہ ہی منقطع ہو گیا، ایمانداری کی بات ہے کہ نریندر مودی اس معاملہ میں بے سمتی کا شکار ہو گئے، پاکستان کو لے کر کبھی نرم گرم پالیسی نے حالات بد سے بدتر کر دیئے-

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ مودی نے ابتدائی دنوں میں اپنی جو امن پسند مدبر کی امیج بنانی چاہی تھی وہ آر ایس ایس کی سیاسی ضرورت کو پورا نہیں کر رہی تھی اور نہ ہی خود ان کی سابقہ امیج کے مطابق تھی جس کا فائدہ اٹھا کر وہ اتنی بڑی اکثریت سے بر سر اقتدار آئے تھے، ہندو ہردے سمراٹ بنے رہنے اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے انھیں امن پسند مدبر والی امیج ترک کرنی پڑی، لیکن اس کی بہت بڑی قیمت ملک، خاص کر کشمیر میں ادا کرنی پڑی۔

انگریزی کے ایک موقر اخبار نے ایک گرافک کے ذریعہ دکھایا ہے کہ کس طرح گزشتہ چار برسوں میں کشمیر میں دہشت گردانہ واقعات میں اضافہ ہوا ہے، یہ سہی ہے کہ اس دوران بہت سے دھشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، سرجیکل اسٹرائیک بھی کی گئی، لیکن یہ بھی سہی ہے کہ ہمارے فوجیوں اور نیم فوجی دستوں کے جوانوں کی شہادتوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے، اڑی، پٹھان کوٹ اور اب پلوامہ میں فوجی اڈوں اور فوجیوں کو بھی نشانہ بنانے کے واقعات بیحد تشویشناک ہیں اور اس سے بھی زیادہ خود وزارت داخلہ کی یہ رپورٹ ہے کہ مقامی نوجوانوں کی دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، کہا جاتا ہے کہ 90 کی دھائی میں جہاں 80 فیصد دہشت گرد پاکستانی ہوا کرتے تھے اور صرف 20 فیصد مقامی کشمیری نوجوان، وہیں اب گنتی بالکل الٹی ہو چکی ہے جوکہ بیحد خطرناک صورت حال ہے، اس کا علاج بندوق کی گولی نہیں صرف اور صرف افہام و تفہیم ہے۔ کشمیریوں کی جائز شکایتوں کا ازالہ اور جائز تمناؤں کی تکمیل سے ہی حالات بہتر ہو سکتے ہیں اور کوئی راستہ نہیں ہے مگر اس کے لئے سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر سوچنے والا دل و دماغ اور ذہن چاہیے-

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔