مودی حکومت کی کشمیر پالیسی بری طرح فیل

مسئلہ کشمیر کی پیچیدگیوں سے واقفیت رکھنے والوں کا اصرار ہے کہ یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک کہ کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی بات نہ کی جائے۔

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس
user

سہیل انجم

جس طرح بہت سے معاملات میں مودی حکومت قول و فعل کے تضادات کی شکار ہے اسی طرح کشمیر کے بارے میں بھی اس کی کوئی مثبت، قابل فہم، قابل قبول، یکسو، نتیجہ خیز اور امن حامی پالیسی نہیں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان سے بھی جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا کشمیر پر گفتگو کرتے وقت پاکستان کے بارے میں حکومت کی پالیسی پر بھی نظر ڈالنی ہوگی۔ جب جموں و کشمیر میں 2015 میں پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی تو اس وقت کہا گیا تھا کہ دونوں پارٹیاں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ اور داخلی اسٹیک ہولڈرس یعنی کشمیری فریقوں کے ساتھ مذاکرات پر راضی ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ کبھی بھی بیانات سے آگے نہیں بڑھا۔ حالانکہ حکومت نے کشمیریوں سے مذاکرات کے لیے آئی بی کے سابق ڈائرکٹر دنیشور شرما کو اپنا نمائندہ یا مذاکرات کار مقرر کیا تھا۔ ابتدا میں یہ لگا تھا کہ وہ کچھ لوگوں سے بات کر رہے ہیں اور انھوں نے کہا بھی تھا کہ وہ سب سے بات کریں گے خواہ وہ کوئی رکشہ والا اور ریڑھی والا ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن کئی ماہ بیت جانے کے باوجود اس کا کوئی نتیجہ ابھی تک نہیں نکلا ہے اور اب یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ وہ کسی سے بات چیت کر رہے ہیں یا نہیں۔

مسئلہ کشمیر کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والوں اور اس کی پیچیدگیوں سے واقفیت رکھنے والوں کا اصرار ہے کہ یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک کہ کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی بات نہ کی جائے۔ سابقہ این ڈی اے حکومت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اس وقت کے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ کسی نتیجے پر پہنچ بھی گئے تھے۔ لیکن حکومت ہی میں شامل بعض عناصر نے ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ پرویز مشرف ناراض ہو کر آگرہ سے واپس چلے گئے اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔ موجودہ حکومت وقتاً فوقتاً واجپئی فارمولے کی بات تو کرتی ہے اور جمہوریت، کشمیریت اور انسانیت کا حوالہ تو دیتی ہے لیکن ان الفاظ میں جو جذبہ اور اسپرٹ پوشیدہ ہے اس کو نہ تو سمجھتی ہے، نہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی قدم اٹھاتی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ حکومت مذاکرات کی مدد سے پر امن انداز میں اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے بزور طاقت اسے حل کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر کوئی مسئلہ کبھی حل نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ بات بظاہر بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ لیکن کیا حکومت ایک بار یہ تجربہ کرکے نہیں دیکھ سکتی کہ دہشت گردی کے رقص بے ہنگام کے درمیان بات چیت کی میز بھی سجائی جائے۔ (درپردہ بات چیت تو چلتی ہی رہتی ہے)۔ پاکستان پر یہ الزام ہے کہ وہ دہشت گردوں کو ہندوستان بھیجتا ہے اور اس کے اشارے پر یہاں وارداتیں ہوتی ہیں۔ تو کیا یہ ضروری نہیں کہ اس کو مذاکرات میں مصروف کیا جائے اور اسے اس پر آمادہ کیا جائے کہ وہ دراندازوں اور دہشت گردوں کو بھیجنا بند کرے۔ اگر ایسا کیا جائے تو یقیناً حالات میں بہتری آئے گی۔ جب سے کشمیر میں مخلوط حکومت قائم ہوئی ہے وارداتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور ہندوستان کی جانب سے طاقت کا بے محابہ استعمال بھی ہو رہا ہے۔ اس دوران دو سو سے زائد دہشت گرد ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ اس کے باوجود امسال زیادہ کشمیری نوجوان دہشت گرد گروپوں میں شامل ہوئے ہیں۔

اس وقت تین محاذوں پر صورت حال انتہائی ابتر ہوچکی ہے۔ پہلا یہ کہ کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ دونوں جانب انسانی جانوں کا زبردست زیاں ہو رہا ہے۔ فوجی بھی مارے جا رہے ہیں اور سویلین بھی۔ دوسرا یہ کہ دراندازی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور تیسرا یہ کہ جموں و کشمیر میں دہشت گردوں کے حملوں میں شدید اضافہ ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ پہلے جموں ان حملوں سے محفوظ تھا مگر اب وہاں بھی ایسے حملے ہونے لگے ہیں۔ وہاں بھی فرقہ واریت بڑھ گئی ہے۔ وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ صرف یہی ایک صورت ہے کہ مسئلے کو حل کرنے کی۔ لیکن حکومت میں کشمیر امور کے انچارج رام مادھو نے فوراً اس تجویز کو مسترد کر دیا۔

یہ عجیب تماشہ ہے کہ ایک طرف تو حکومت کہتی ہے کہ تمام آپسی تنازعات کو دوطرفہ مذاکرات کی مدد سے حل کیا جائے گا اور دوسری طرف بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ شاید اس نے یہ خطرناک پالیسی اس لیے اختیار کر رکھی ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے کہیں اس کو سیاسی نقصان نہ پہنچ جائے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے کشمیر میں فوجیوں اور سویلین کی جانوں کے اتلاف کی کوئی فکر نہیں ہے۔ فکر ہے تو صرف سیاسی اغراض و مقاصد کی۔

جب وزیر اعظم مودی نے نوٹ بندی جیسا احمقانہ فیصلہ کیا تھا تو اعلان کیا تھا کہ اس سے دہشت گردی کی کمر ٹوٹ جائے گی اور سرحد پار سے دراندازوں کی آمد کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ لیکن آج دہشت گردی بھی جاری ہے اور دراندازی بھی۔ بلکہ انسانی جانوں کا زیاں پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود حکومت مذاکرات کی مدد سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔جس طرح وہ ہر ملکی مسئلے کو سیاسی و انتخابی عینک سے دیکھتی ہے اسی طرح اس سنگین مسئلے کو بھی اسی عینک سے دیکھنے کی غلطی کر رہی ہے اور اس کی اس غلطی کی سزا پورا ملک بھگت رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Feb 2018, 3:35 PM