پارلیمانی الیکشن کی سمت طے کریگا کرناٹک اسمبلی کا الیکشن

بی جے پی نے اپنے ان تین ممبران اسمبلی کو بھی ٹکٹ سے نوازہ ہے جن پر اسمبلی اجلاس کے دوران ایوان میں فحش فلم دیکھنے کا الزام لگا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

پارلیمانی الیکشن سے محض ایک سال قبل ہو رہے کرناٹک اسمبلی کے الیکشن ملک کی سیاسی ہوا کا رخ ظاہر کرینگے اس لئے یہ الیکشن دونوں قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی دونوں کے لئے بہت اہم ہے اور دونوں پارٹیاں کرناٹک میں کامیابی کے پرچم گاڑنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں ۔ بی جے پی کی انتخابی مہم کی کمان پارٹی کے صدر امت شاہ سنبھالے ہوئے ہیں تو کانگریس کی کمان اس کے صدر راہل گاندھی کے ہاتھوں میں ہے ، اس کے علاوہ دو تین بنیادی فرق بھی دکھائی دے رہے ہیں ، کانگریس کی انتخابی مہم کے قاید بھلے ہی راہل گاندھی ہوں لیکن پارٹی کا مکمل انحصار وزیر اعلی سدا رمیا اور ان کی سیاسی مہارت پر ہے، اسی لئے ٹکٹوں کی تقسیم میں وہی حرف آخر رہے جس کی وجہ سے پارٹی کے کافی لیڈران اور کارکنان ناراض بھی ہوئے ، لیکن کانگریس ہائی کمان نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی صرف یہ یقین دھانی کرائی کہ الیکشن بعد ایسے سبھی کارکنوں کے مفاد کا دھیان رکھا جائےگا ۔

اس کے برخلاف بی جے پی نے یدی یورپا کو اپنا وزیرا علی تو ڈکلیرکر دیا ہے لیکن ٹکٹوں کی تقسیم میں انھیں پوری آزادی نہیں دی ، جس کا ثبوت ما ئننگ مافیہ کے طور پر مشہورریڈی برادران کو ملنے والے ٹکٹ ہیں ، جن پر سشما سوراج جیسی سینئر لیڈر کا دست شفقت ہونا دنیا جانتی ہے، بی جے پی نے اپنے ان تین ممبران اسمبلی کو بھی ٹکٹ سے نوازہ ہے جن پر اسمبلی اجلاس کے دوران ایوان میں فحش فلم دیکھنے کا الزام لگا تھا اور جو کہ بقیہ سیشن کے لئے سسپنڈ بھی کیے گئے تھے۔

بی جے پی کے خیمہ میں ایک اہم بات یہ دیکھنے کو آئی ہے کہ دیگر ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن کی طرح کرناٹک اسمبلی کے الیکشن میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ابھی تک وہ جارحانہ مہم نہیں شروع کی ہے جو ان کی شناخت بن گئی ہے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ کرناٹک کے رائے دہندگان کو خطاب کیا ، لیکن ابھی تک انتخابی مہم کا سارا بوجھ پارٹی کے صدر امت شاہ اٹھائے ہوئے ہیں ، اتر پردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی ایک درجن سے زیادہ میٹنگوں کا اعلان کیا جا چکا ہے ، مگر وزیر اعظم کتنی میٹنگوں سے خطاب کریں گے ابھی یہ بات واضح نہیں ہے، صرف یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ چین کے دورہ سے واپسی کے بعد وہ کرناٹک کی انتخابی مہم میں لگ جائیں گے۔

انتخابات در اصل پر سپشن کی جنگ ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گجرات اسمبلی الیکشن سے قبل ہی بی جے پی کے نا قبل تسخیر ہونے کا بھرم ٹوٹنے لگا تھا ۔ وزیر اعظم کی جارحانہ انتخابی مہم کی وجہ سے بی جے پی کسی نہ کسی طرح گجرات میں تو اپنی نیّا پار نکال لے گئی لیکن اس کا بھرم ہر حال میں ٹوٹ چکا تھا ، اس کے بعد مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ہوئے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں کانگریس کی فتح سے وہ پر سپشن کی جنگ ہارتی دکھائی دے رہی ہے یہی صورت حال کرناٹک میں بھی ہے۔

ابتدائی انتخابی جائزوں میں بھی وہاں کانگریس کی بالا دستی دکھائی گئی ہے ، وزیراعلی سدا رمیا نے لنگایت کمیونٹی کو لے کر جو داؤں چلا وہ بی جے پی کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے انہوں نے اس کمیونٹی کو ہندوؤں سے الگ کرنے کی سفارش کر کے بی جے پی کو پس و پیش میں ڈال دیا ہے ۔گیند اب مرکزی حکومت کے پالے میں ہے اگر وہ اس کی منظوری دیتی ہے تو سنگھ کا نظریہ ناکام سمجھا جائےگا ، نہیں دیتی ہے تو کرناٹک کی لنگایت برادری کی ناراضگی جھیلنی پڑےگی ، حالانکہ وزیراعلی کے لئے نامزد رہنما یدی یورپا خود اسی برادری سے آتے ہیں۔

بی جے پی نے اپنے ڈھرے کے مطابق کرناٹک الیکشن کو فرقہ وارانہ بنیاد پر لڑنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے اور اس کے لئے نشانہ بنایا ہے عظیم مجاہد آزادی اور شیر میسور کے نام سے مشہور ٹیپو سلطان کو ، جن کو وہ ہندوؤں کا دشمن بنا کے پیش کر رہی ہے ، اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بہت پہلے اس الیکشن کو ٹیپو سلطان بنام ہنومان کی لڑائی کہہ چکے ہیں ، جیسے جیسے پولنگ کی تاریخیں نزدیک آتی جائیں گی لازمی طور سے بی جے پی اسے مزید تلخ اور فرقہ وارانہ بنائے گی، کیونکہ بی جے پی اسے الیکشن جیتنے کا تیر بہ ہدف نسخہ سمجھ چکی ہے ، اس کے امید وار اور کارکن اسی بنیاد پر ووٹ مانگ رہے ہیں ۔جس پر ممتاز فلمی اداکار پرکاش راج نے سخت رد عمل بھی ظاہرکیا ہے ۔

کرناٹک کی سیاست میں ایک تیسری طاقت سابق وزیر اعظم دیو گوڑا کی جنتا دل سیکولر بھی ہے، اس کا مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی سے انتخابی سمجھوتہ بھی ہو چکا ہے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بھی مسلم اکثریتی علاقوں میں امیدوار کھڑے کر رہی ہے اس صورت حال کا براہ راست فائدہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کی شکل میں بی جے پی کو مل سکتا ہے ، کانگریس کو بھی اس کا جواب دینا ہوگا کہ اس نے وہاں ایک سیکولر مورچہ بنانے کی کوشش کیوں نہیں کی ، جنتا دل سیکولر کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ پہلے بی جے پی سے مل کر کرناٹک میں سرکار بنا چکی ہے ، اس مسئلہ پر باپ دیو گوڑا اور بیٹے راما سوامی میں دکھانے کے لئے تکرار بھی ہوئی تھی ، سیاسی مبصّرین کا خیال ہے کہ معلق اسمبلی تشکیل ہونے کی صورت میں بی جے پی محض کانگریس کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے پھر یہی کھیل کھیل سکتی ہے ، گوا اور شمال مشرق میں وہ یہ کر بھی چکی ہے اس لئے کانگرس کواس صورت حال سے نپٹنے کے لئے کوئی پیش بندی ابھی سے کرلینی ہوگی ۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ الیکشن پرسپشن کی جنگ ہے کرناٹک کا الیکشن گجرات کے بعد دوسرا ایسا الیکشن ہے جو کانگریس قاتلانہ جبلت سے لڑ رہی ہے اس کا نتیجہ آئندہ ہونے والے سبھی انتخابات کو متاثر کرےگا ، جن میں مدھیہ پردیش چھتیس گڑھ اور راجستھان اسمبلی کے انتخابات کے بعد ہی پارلیمانی الیکشن شامل ہیں ۔ اگر کانگریس کرناٹک انتخابات جیت لیتی ہے تو آئندہ کے سبھی الیکشن اس کے لئے آسان ہوں گے ، یہی بی جے پی کے ساتھ بھی ہے گجرات الیکشن کے بعد سے اس کا جو پرسپشن بگڑا ہے وہ کرناٹک میں سدھر بھی سکتا ہے اور مزید بگڑ بھی سکتا ہے اسی لئے دونو ں قومی پارٹیاں یہاں کامیابی کے لئے اپنے ترکش کے سبھی تیر چلا رہی ہیں ۔

ان حالات میں الیکشن کمیشن کو اس بات پر خاص نظر رکھنی ہوگی کہ کھیل اصول و ضوابط کے تحت ہی کھیلا جائے اور اس کی خلاف ورزی ، اشاروں کنایوں میں بھی کرنے کی قطعی اجازت نہ دی جائے۔ الیکشن کمیشن نے ابھی تک تو عام ہندستا نیوں کو نا امید ہی کیا ہے ، دیکھنا ہوگا کہ کرناٹک میں اس کا رول کیسا رہتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔