کرناٹک میں مقابلہ سے زیادہ نتیجہ پر نظر

بی جے پی اور کانگریس کی جنگ میں اگر جنتا دل ایس نے فائدہ اٹھایا تو وہ ایک غیر مستحکم حکومت ہوگی، جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اس لئے عوام کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

چین سے دورے کی واپسی کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے کرناٹک اسمبلی الیکشن کی مہم کا آغاز کر دیا ہے. انہوں نے پہلے ہی دن تین انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا لیکن اس سے بھی اہم بات ان کا سابق وزیر اعظم اور جنتا دل ایس کے لیڈر دیوے گوڑا سے ملاقات کرنا ہے جس سے کرناٹک کی انتخابی سیاسی ہوا کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

دیوے گوڑا سے ملاقات کے بعد نریندرا مودی نے نہ صرف ان کی تعریفوں کے پل باندھے بلکہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی پر انکی توہین کرنے کا الزام بھی لگا دیا۔ حالانکہ راقم کو ایسے کسی واقعہ کی یاد نہیں جب راہل گاندھی نے ایک بزرگ لیڈر کی کسی طرح توہین کی ہو۔ قاریئن کو اگر کوئی واقعہ یاد ہو تو میری معلومات میں ضرور اضافہ کریں۔ انتخابی ریلیوں سے خطاب کے دوران بھی مودی جی اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے وہ تمام الفاظ استعمال کر رہے ہیں جن کی امید اتنے اعلی جمہوری عہدیدار سے نہیں کی جا سکتی۔ مثلاً انہوں نے راہل گاندھی کو چیلنج کیا کہ وہ بغیرتحریر دیکھے کسی بھی زبان یہاں تک کہ اپنی ماں کی مادری زبان میں بول کر کے دکھائیں۔ ان کا صاف اشارہ مسز سونیا گاندھی کی اٹلی کی پیدائش اور ان کی مادری زبان اطالوی کی طرف تھا۔ مودی جی کی یہ صفت ہے کہ وہ اشارے کنایہ میں بہت گہرے زخم لگا دیتے ہیں، چاہے وہ اتر پردیش کی انتخابی مہم کے دوران شمشان قبرستان والی بات ہو یا گجرات میں سابق وزیر اعظم اورفوج کے سابق سربراہ پر ملک کے خلاف سازش کا الزام اپنے کور ووٹروں تک، وہ اپنی بات اشاروں اشاروں میں کامیابی سے پہنچا دیتے ہیں۔

کرناٹک کے سیاسی ماحول کا جایزہ لینے گئے زیادہ تر صحافیوں کا خیال ہے کہ وہاں مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے اور جنتا دل ایس کا اثر کچھ حلقوں تک ہی محدود ہے ان لوگوں کا خیال ہے کہ ریاست معلق اسمبلی کی جانب بڑھ رہی ہے جس میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے اسی کا اندازہ شاید مودی جی کو بھی ہوا ہے تبھی انہون نے دیو گودا سے ملاقات کر کے اپنی انتخابی مہم شروع کی بی جے پی کی پہلی کوشش اپنی سرکار بنانے کی ہوگی لیکن بحالت مجبوری کانگریس کو سرکار بنانے سے روکنے کے لئے وہ دیو گودا کے بیٹے کمار سوامی کو وزیر اعلی کے عہدہ کی پیشکش کر سکتی ہے دوگوودہ پر مودی جی کے ڈورے ڈالنے کی دوسری وجہ انکا ووکا لگا ووٹروں پر اثر بھی ہے کیونکہ کانگریس نے لنگآیت برادری کی دیرینہ مانگ کہ انھیں ہندوؤں سے الگ مذہبی گروپ سمجھا جاے تسلیم کرتے ہوئے اس کی سفارش مرکزی حکومت کو بھیج دی ہے جسکا سیاسی فایدہ کانگریس کو مل رہا ہے اس کی کاٹ کے لئے مودی جی ووکا لگا ووٹروں پر نظر لگا رھے ہیں –حالانکہ دیو گوڈا کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پور بی جے پی سے مل کر حکومت نہیں بناینگے لیکن عوام جانتے ہیں کہ وہ اس سے پہلے بھی یہ کہہ چکے تھے لیکن ان کے بیٹے نے بی جے کی حمایت سے سرکار بنایی تھی شروع میں گوڈا جی بہت چین بجبیں ہوئے تھے اور اپنے بیٹے سے علاحدگی تک کا اعلان کر دیا تھا لیکن دنیا نے دیکھا تھا کہ وہ محض ڈرامہ تھا معلق اسمبلی کی صورت میں یہی صورت حال پھر پیدا ہو سکتی ہے اور ریاست پر دوبارہ انتخابی بوجھ نہ پڑنے دینے کے نام پر کمار سوامی بی جے پی کی مدد سے حکومت بنا سکتے ہیں دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کانگریس بھی بی جے پی کو روکنےاور سیکولرزم کے نام پر کمار سوامی کے سر پر تاج سجانے کی پیش کش کر دے ایسے میں ریاستی گورنر کا رول بہت اہم ہو جاےگا اور ظاہر ہے کہ گورنر وہی کرینگے جو مرکزی حکومت چاہیگی –

ویسے تو پارٹی کے صدر کی حیثیت سے راہل گاندھی زبردست انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور انھیں اچھی پذیرائی بھی مل رہی ہے دہلی کی حالیہ جن آکروش ریلی میں امڈے عوامی سیلاب سے کانگریس اور راہل گاندھی کی ملک گیر مقبولیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے لیکن کرناٹک میں اصل انتخابی لڑائی سدا رمیا اور نریندر مودی کے درمیان ہے پنجاب میں کپٹن امرندر سنگھ کے بعد کرناٹک میں مودی جی کو دوسری بار کسی ریاستی لیڈر سے اصل چیلنج مل رہا ہے سدارمیا مودی امت شاہ جوڑی کی ہر سیاسی چال کی کاٹ جانتے ہیں اور انھیں منہ توڑ ترکی بہ ترکی جواب بھی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے ان پر پورا اعتمادکیا اور انھیں امیدواروں کے انتخاب سمیت ہر معاملہ میں مکمل آزادی دے دی جس کی وجہ سے پارٹی کے دوسرے قد اور لیڈروں میں بدمزگی بھی پیدا ہوئی لیکن اعلیٰ کمان نے پارٹی کے عظیم تر مفاد کے نام پر ان لیڈروں کو مطمئن کر کے آیندہ انکے مفاد کا دھیان رکھنے کا وعدہ کیا ہے اس لئے کانگرس میں سدا رمیا کو لے کر ویسی چپقلش نہیں ہے جیسی یدو رپا کو لے کر بی جے پی میں ہے پارٹی کے سینئر اور سنجیدہ لیڈروں کا کہنا ہے کی یدو رپا کے داغدار ماضی کی وجہ سے ہم کس منہ سے کانگریس پر کرپشن کا الزام لگا سکتے ہیں دوسرے انکا تعلق لنگایت برادری سے ہے جسکا رجحان اس وقت کانگریس کی جانب ہے اس سے بھی یدورپا کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے ریڈی برادران کو ٹکٹ دینے سے یدورپا بھی بی جے پی ا علی کمان سے بدگمان ہو گئے ہیں۔

بی جے پی اپنے جارحانہ ہندتو کی بنیاد پر ہی الیکشن لڑیگی اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن شری رام سینے کے نیتا اور کرناٹک میں ہندوتو کے پوسٹر بواے متلک کے بی جے پی سے ناراض ہونے کی وجہ سے اسے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ کی درجنوں میٹنگیں لگانی پڑی ہیں حالانکہ گورکھپور اور پھولپور کی ہار کا دھبہ بھی انکا پیچھا کر رہا ہے -

بی جے پی کے لئے دوسرا سب سے بڑا سر درد کانگریس کی حمایت میں اداکار پرکاش راج اور گجرات کے نوجوان دلت لیڈر جگنیش میوانی کی زبردست اور جارحانہ انتخابی مہم ہے ان دونو کی انتخابی مہم ان کی بڑھتی مقبولیت اور جارحانہ رویہ سے خوف زدہ ہو کر بی جے پی نے الیکشن کمیشن میں ان کی شکایت درج کرواتے ہوئے انھیں انتخابی مہم سے دور رکھنے کی درخواست کی ہے۔ ویسے تو قانونی اوراینی طور سے کمیشن ایسا کوئی حکم نہیں جاری کر سکتا لیکن بدلے سیاسی اور سماجی ماحول میں اگر ایسا حکم جاری ہو جائے تو کسی کو حیرت بھی نہیں ہوگی-

کرناٹک اسمبلی کے الیکشن کے نتایج ملکی سیاست کا رخ طے کریں گے اس لئے دونوں قومی پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی یہاں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں لیکن بعید نہیں کہ اس کا فایدہ جنتا دل ایس اٹھا لے جاۓ حالانکہ یہ ایک کمزور اور غیر مستحکم حکومت ہوگی جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اس لئے عوام کو ایک مضبوط مستحکم حکومت کے لئے ہی اپنے حق راۓدہی کا استعمال کرنا چاہئے-

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔