مرکزی حکومت عدالتوں کو اپنے لوگوں سے بھرنے کے لیے پرعزم

معروف وکیل اور ممبر پارلیمنٹ کپل سبل نے مودی حکومت پر منظم طریقے سے عدلیہ اور جانچ ایجنسیوں کی آزادی کو ختم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کئی سوالات کھڑے کیے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

کپل سبل

مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہو رہی ہے کہ کچھ مشہور و معروف وکیل مواخذہ کے نوٹس کی تنقید کر رہے ہیں۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے چار ججوں نے سپریم کورٹ کے طریقہ کار پر اپنی مایوسی ظاہر کی تھی اور میں ایسی حالت میں نہیں سمجھتا کہ کسی وکیل کی رائے کی اہمیت بچ جاتی ہے۔

اگر نظام کا حصہ رہنے والے جج یہ کہہ سکتے ہیں کہ باہر سے آ رہے دباؤ کے ذریعہ نظام کو متاثر کیا جا رہا ہے اور حساس معاملوں کو خاص ججوں کو سونپا جا رہا ہے تو اس سے زیادہ اچھی طرح قانونی دنیا کا کوئی شخص اس چیز کو کیسے جان سکتا ہے؟ قانونی دنیا کا کوئی شخص کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس میں کچھ خاص نہیں ہے، جب تک کہ وہ ان چار ججوں کی ایمانداری پر سوال کھڑا نہیں کرے؟

میں اس طرح کے اشاروں کو بہت معصومیت سے بھرا مانتا ہوں کہ کانگریس اس ایشو پر منقسم ہے۔ آئین کے مطابق راجیہ سبھا کے 50 اراکین کو تجویز پر دستخط کرنا ہوتا ہے، کانگریس پارٹی یا کسی دیگر پارٹی کے 50 اراکین کو نہیں۔ ہم نے پارٹی کے ہر رکن کے ساتھ اسے شیئر نہیں کیا تھا۔ ہم نے ان کے ساتھ اس عرضی پر یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان کا اس سلسلے میں کیا نظریہ ہے۔ اس تجویز پر انفرادی اراکین کے ذریعہ دستخط کیا گیا ہے۔

گزشتہ چار سالوں میں اس حکومت نے عدالتی نظام کو برباد کرنے میں کافی تعاون کیا ہے۔ یہی ہمارا الزام ہے۔ اس کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ سابق چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے برسرعام اس کا تذکرہ کیا اور رو پڑے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک طرح کی تالابندی ہے کیونکہ حکومت کالجیم کی کسی تجویز کو منظور نہیں کر رہی ہے اور انھوں نے پوچھا کہ وہ اس طرح سے کیسے عدالتی نظام کو چلا سکتے ہیں؟

یہ حکومت عوام مخالف ہے۔ یہ حکومت عدلیہ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اور عدالتوں کو اپنے لوگوں سے بھر دینا چاہتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا وجہ تھی کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ایم جوسف کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر جانے والے پروموشن کی تجویز کی حکومت نے مخالفت کی۔ جسٹس جوسف ملک کے سینئر چیف جسٹس ہیں۔ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ اتراکھنڈ معاملے میں انھوں نے ایک فیصلہ دیا تھا اور حکومت انھیں سپریم کورٹ میں نہیں دیکھنا چاہتی ہے۔

اپوزیشن نہیں، یہ حکومت عدلیہ کے ساتھ سیاست کر رہی ہے۔ اپوزیشن صرف اتنا کہہ رہی ہے کہ اگر کچھ سنگین الزامات ہیں تو ان کی جانچ کی جانی چاہیے۔ حکومت کیوں اس کی مخالفت کر رہی ہے؟ کیوں وہ اس عمل سے بچنا چاہ رہی ہے؟ کیا انھیں خوف ہے کہ کچھ نئی باتیں سامنے آ جائیں گی۔ وہ منظم طریقے سے عدلیہ کی آزادی کو ختم کر رہے ہیں اور ہمیں اس کے نتائج نظر آ رہے ہیں۔

تحریک مواخذہ کی فی الحال مخالفت کر رہے فلی نریمن جیسے سینئر وکیل بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ حکومت عدلیہ میں مداخلت کر رہی ہے اور سزا دینے والے اداروں کے ذریعہ وہ اپنے لوگوں کو آزاد کرا لے رہے ہیں۔ جس طرح سے سہراب الدین معاملے میں گواہ اپنی بات سے پلٹ گئے، جس طرح سے مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164 کے تحت اقبالیہ بیان دینے کے بعد اسیمانند کو چھوڑ دیا گیا، ان نکات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔

مکہ مسجد معاملے میں کوئی قاتل نہیں ہے۔ اب حالات کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ لوگ مرے تھے لیکن کسی نے مارا نہیں تھا۔ مایا کوڈنانی چھوٹ گئیں۔ اس حکومت نے پوری جانچ نظام کو ہی پراگندہ کر دیا ہے۔ وہ انصاف کی بنیاد کو ہی برباد کر رہے ہیں۔

ایسا تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ اس طرح کے الزامات کے بعد بھی پریزائڈنگ افسر نے کہا کہ کوئی جانچ نہیں ہوگی۔

سبھی دیگر معاملوں میں بھی جانچ ہوئی تھی۔ حالانکہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے پھر بھی انھوں نے جانچ کے مطالبے کو خارج کر دیا۔ راجیہ سبھا کے چیئرمین کے پاس کوئی نیم عدالتی اختیار نہیں ہے، وہ الزامات کی اہلیت کا فیصلہ نہیں سنا سکتے، پھر بھی انھوں نے یہ فیصلہ لیا ہے۔

جسٹس راماسوامی کے مواخذہ میں پوری جانچ ہوئی تھی جب میں نے ان کی نمائندگی کی تھی۔ اس بار بھی ہم یہ چاہتے تھے کہ جانچ ہو۔ اس میں کیا غلط ہے؟ جسٹس راماسوامی کے معاملے میں پوری جانچ ہوئی تھی، سارے معاملوں میں پوری جانچ ہوئی۔ اس بار کیوں نہیں؟

(بھاشا سنگھ سے بات چیت پر مبنی)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Apr 2018, 9:00 PM