کمنڈل کو پسینہ آ رہا منڈل سے... انورادھا رمن

2019 میں مرکزی حکومت کے 82 سکریٹریز میں سے صرف 4 ہی ایس سی اور ایس ٹی سے تھے، 457 کام کر رہے سکریٹریز، جوائنٹ سکریٹریز اور ایڈیشنل سکریٹریز میں صرف 12 فیصد ہی ایس سی اور او بی سی سے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے شور کو نیا سہارا ملا ہے جب کانگریس نے پہلی دفعہ اس مطالبہ کو انتہائی واضح طریقے سے حمایت دی ہے۔ راہل گاندھی نے کرناٹک کے کولار میں منعقد جلسہ میں دعویٰ کیا کہ مرکزی حکومت کے صرف 7 فیصد سکریٹری درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات سے ہیں۔ اس کے اگلے ہی دن کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر 2011 مردم شماری میں جمع کیے گئے ذاتوں کے اعداد و شمار جاری کرنے، ریزرویشن پر 50 فیصد کی حد ہٹانے اور ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا مطالبہ کیا۔

’اعلیٰ ذات کے اشرافیہ‘، آر ایس ایس اور بی جے پی یہ کہتے ہوئے ریزرویشن اور ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت میں ہیں کہ ’ذات نہیں، ترقی کا مطلب ہے‘، حالانکہ اعداد و شمار کچھ دوسری ہی داستان بیان کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے لیے ریزرویشن کے باوجود اعلیٰ ذاتوں کے لوگوں کی نامناسب نمائندگی معلوم پڑتی ہے جبکہ دوسرے طبقات کے لیے کوٹے نہیں بھرے جا پاتے۔ 2019 میں ’دی ہندو‘ نے رپورٹ دی کہ مرکزی حکومت کے 82 سکریٹریز میں سے صرف 4 ہی ایس سی اور ایس ٹی سے تھے۔ کام کر رہے 457 سکریٹریز، جوائنٹ سکریٹریز اور ایڈیشنل سکریٹریز میں صرف 12 فیصد ہی ایس سی اور او بی سی سے تھے۔


ویسے مرکزی حکومت اور بی جے پی دونوں نے اس مطالبہ پر اب تک سرد رخ ہی اختیار کر رکھا ہے۔ 2021 میں جب بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ریاست کی 10 پارٹیوں کے نمائندہ وفد کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی تو وزیر اعظم نے اپنی رائے نہیں بتائی تھی۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو دیے حلف نامہ میں ’ذات پر مبنی مردم شماری‘ کو ’غیر عملی‘ بتایا تھا اور ایڈمنسٹریٹو مشکلات بتائی تھیں۔ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے کہا کہ یہ ’ریزرویشن‘ کے تجزیہ کا وقت ہے۔ انھوں نے ساتھ ہی کہا کہ ذات کوئی معنی نہیں کیونکہ ہر شخص ہندو ہے۔ 2011 مردم شماری سے پہلے اعلیٰ ذات کے کچھ طبقات نے لوگوں کو اپنی ذات ’ہندوستانی‘ بتانے کے لیے راغب کرنے کی آدھی ادھوری کوشش کی تھی۔ لیکن بی جے پی سوشل انجینئرنگ کو لے کر شیخی بگھارتی ہے اور ہر انتخاب سے پہلے پارٹی اپنے امیدواروں کا ذات پر مبنی تفصیل مستقل طور پر جاری کرتی ہے۔

راہل گاندھی نے ’جتنی آبادی، اتنا حق‘ کا جو نعرہ دیا ہے، وہ 1960 کی دہائی میں ’سنیوکت سوشلسٹ پارٹی‘ (سنسوپا) کے نعرہ ’سنسوپا نے باندھی گانٹھ/ پچھڑے پاوے سو میں ساٹھ‘ اور 1970 کی دہائی میں کانشی رام کے نعرہ ’جس کی جتنی سنکھیا بھاری، اس کی اتنی حصہ داری‘ کی یاد دلاتا ہے۔ کانگریس لیڈر کنہیا کمار کہتے بھی ہیں کہ راہل گاندھی نے جو کہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اور کسی نہ کسی وقت برہمنوں، جاٹوں اور مراٹھوں سمیت سبھی طبقات نے ریزرویشن کا مطالبہ کیا ہے۔ اور تب بھی نوکرشاہی میں نامناسب تعداد تک ملازمتیں اعلیٰ ذاتوں کے پاس ہیں۔ یہی نہیں، معاشی طور پر کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس) کے لیے ریزرویشن کے بعد مناسب نمائندگی یقینی کرنے کے لیے حالات واضح کرنا اور ذات پر مبنی مردم شماری کرانا اہم ہے۔


وزیر اعظم کو لکھے خط میں کانگریس صدر نے نشان زد کیا کہ ’پہلی بار یو پی اے نے 25 کروڑ سے زیادہ کنبوں کو شامل کرتے ہوئے 12-2011 کے دوران معاشی اور ذات پر مبنی مردم شماری کروائی... کئی اسباب سے یہ شائع نہیں ہو سکی... سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کے پروگراموں کے لیے قابل اعتماد بنیادی اعداد و شمار انتہائی ضروری ہیں... یہ مردم شماری مرکزی حکومت کی جوابدہی ہے۔‘ اس سے ایک ہی دن پہلے راہل گاندھی نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ’’وزیر اعظم جی، سہولت سے محروم لوگوں کو معاشی اور سیاسی قوت کی ضرورت ہے۔ محض خالی الفاظ نہیں۔‘‘ وبا کے بہانے 2021 میں نہیں ہوئی 10 سالہ مردم شماری کو اب یقینی بنانے کی وزیر اعظم سے گزارش کرتے ہوئے کھڑگے کے خط میں کہا گیا کہ ’’جدید ذات پر مبنی مردم شماری کی غیر موجودگی میں، میں فکر مند ہوں کہ، معنی خیز سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کے پروگراموں کے لیے قابل اعتماد بنیادی اعداد و شمار نامکمل ہیں۔‘‘

12-2011 کے این ایس ایس اعداد و شمار میں آبادی میں دلتوں کا فیصد تقریباً 19، قبائلیوں کا تقریباً 9 اور او بی سی کا تقریباً 44 دکھایا گیا ہے (یعنی یہ سیمپل کا مجموعی طور پر 72 فیصد ہے۔ اشوکا یونیورسٹی کے ترویدی سنٹر کی اسٹڈی میں گزشتہ تین پارلیمانی انتخابات میں ذاتوں کے درمیان طاقت کی غیر مساوی تقسیم ہی سامنے آئی ہے)۔ اعلیٰ ذاتوں کی کی تعداد 29 فیصد ہے، او بی سی اور درمیانی ذاتوں کے اراکین پارلیمنٹ 37 فیصد ہیں۔


سابق لوک سبھا جنرل سکریٹری پی ڈی ٹی آچاریہ کہتے ہیں کہ آئین میں ذات کو ختم نہیں کیا گیا ہے اور اس لیے یہ اس طرح جاری ہے کہ طاقت کی ساخت سے کوئی بھی ذاتوں کو الگ نہیں کر سکتا۔ وہ اس بات پر حیرانی ظاہر کرتے ہیں کہ ’ایسا کیوں ہے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے لیے ریزرویشن ہے لیکن مقامی بلدیات میں او بی سی کے لیے اس طرح کی کوئی سہولت نہیں ہے۔‘

آخری بار ذات پر مبنی مردم شماری انگریزوں نے 1931 میں کروائی تھی اور انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کے بعد منتخب حکومتوں نے ذات کے بندھن سے ہندوستانی سماج کو آزاد کرنے کے اپنے ہدف کے تحت اس طرح کی مردم شماری نہیں کرائی۔ لیکن ذات کے افسانے کا دوسرا رخ بھی ہے۔ منڈل کے بعد او بی سی صاف طور پر پہچانے جانے والے گروپ ہیں جو سب دن سیاسی طور پر طاقتور رہتے آئے ہیں۔ جیسا کہ آچاریہ کہتے ہیں، طاقت اعلیٰ ذات کی طرف سے دور ہوتی لگ رہی ہے۔ وہ اس بات پر حیرانی ظاہر کرتے ہیں کہ آخر ریاستی اسمبلیوں نے او بی سی کے لیے کوٹہ کا انتظام کرنے والے قانون کیوں نہیں بنائے ہیں۔


2011 کی سماجی اقتصادی ذات پر مبنی مردم شماری (ایس ای سی سی) سے ملک میں ذاتوں پر وسیع ڈاٹا دستیاب کرانے کی امید تھی۔ لیکن جب 2015 میں اس سروے کو عوام کے سامنے لانے کا وقت آیا تو نریندر مودی نے شفافیت پر حق کو چنا۔ 2015 میں ایس ای سی سی کے غریبی اور فقدان کے ڈاٹا میں پایا گیا کہ گوتر کے نام، کنیت اور صوتی تنوع سمیت تقریباً 40.6 لاکھ خصوصی ذات کے نام واپس ہو گئے ہیں جس سے نتائج کا تجزیہ ناممکن ہے۔ تب سے ایس ای سی سی ذات اعداد و شمار کے بارے میں کچھ بھی نہیں سنا گیا ہے۔ نیتی آیوگ کے اُس وقت کے نائب سربراہ اروند پنگڑھیا کو اسی سال ایس ای سی سی ڈاٹا کا استعمال کرتے ہوئے ذات کی درجہ بندی کو واضح کرنے کے لیے کمیٹی کی صدارت کرنے کو کہا گیا۔

اس کی جگہ یہ ہے کہ ریاستوں نے سپریم کورٹ کے ذریعہ 50 فیصد کی حد کی خلاف ورزی کی کوشش پر زور دیا۔ مثال کے لیے تمل ناڈو ایک مثال ہے جس کی دیگر ریاستوں نے تقلید کرنے کی کوشش کی ہے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی میں پالیٹیکل سائنس کے استاذ ریہیمول رویندرن نے انڈین ایکسپریس میں نشان زد کیا کہ او بی سی ریزرویشن کو تب زور ملا جب 2018 میں بی جے پی کی قیادت والی مہاراشٹر حکومت نے او بی سی درجہ کے تحت مراٹھا طبقہ کو ریزرویشن کی توسیع کی۔ ایسا تب بھی کیا گیا جبکہ ریاست کو او بی سی ریزرویشن کو بڑھانے کے اختیار نہیں ہیں۔ صرف مرکز ہی اس طرح کا کام کر سکتا ہے۔


پھر پارلیمنٹ نے ریاستوں کو اپنی او بی سی فہرست بنانے کی اجازت دینے والی 105ویں آئینی ترمیم کی۔ سپریم کورٹ نے 50 فیصد کی حد تحلیل کرنے کے لیے اور اس لیے بھی کی کہ تہرا جانچ پیمانہ پورا نہ کرنے کے لیے اسے رد کر دیا جس میں او بی سی کے لیے تجرباتی ڈاٹا کا مطالبہ کیا گیا تھا جسے دینے میں ریاستی حکومت ناکام رہی۔ بعد میں مدھیہ پردیش میونسپل اور پنچایت انتخابات میں سیٹوں کے ریزرویشن کے لیے سروے ڈاٹا دینے میں کامیاب رہا۔

ریزرویشن کے لیے مراٹھوں کا مطالبہ گجرات میں پاٹیدار اور ہریانہ میں جاٹوں کے ذریعہ کیے گئے مطالبہ کی طرح تھا۔ پیچھے چھوڑ دیے جانے کی فکر اور آگے بڑھنے میں ناکامی نے ریزرویشن کے لیے ان کے مطالبات کو تیز کیا اور اس کے ساتھ ہی یہ مثبت کارروائی کے جذبہ کے برعکس تھا۔


رویندرن کہتے ہیں کہ اگر سیاسی نمائندگی ریزرویشن کا ہدف ہے تو او بی سی نہ صرف سرکاری اداروں میں بلکہ سیاست میں بھی کم نمائندگی والے ہیں۔ یہی نہیں، اعلیٰ ذاتوں کے لیے ریزرویشن نے ذات پر مبنی مردم شماری اور ریزرویشن کے لیے مطالبہ کو نئے سرے سے قوت دی ہے۔ یوپی پلاننگ کمیشن کے سابق رکن اور استاذ سدھیر پنوار کہتے ہیں کہ کسی بھی دیگر پارٹی سے زیادہ بی جے پی نے اپنے ہندوتوا ہدف کی کوشش کے لیے مذہب کے ساتھ ریزرویشن کی بات کی برابر مخالفت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دیکھیں کہ بی جے پی نے کس طرح ایودھیا کے ذریعہ منڈل کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔‘ وہ ساتھ ہی کہتے ہیں کہ او بی سی کی گنتی سے ہندوتوا منصوبہ کا نقصان ہوگا۔

(انورادھا رمن کا یہ مضمون ہندی ہفتہ وار ’سنڈے نوجیون‘ سے لیا گیا ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔