’بس مجھے ایک عدد انسان کی زندگی جینے دو‘

حکومتوں کے وعدوں پر تکیہ کرنے سے خواتین کی حفاظت نہیں ہوگی، اس کے لیے معاشرے کو اپنی ذہنیت بدلنا ہوگی بصورت دیگر انسانوں کا یہ سماج حیوانوں کا جنگل بن جائے گا۔

علامتی تصویر آئی اے این ایس
علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

نواب علی اختر

ملک کے وزیراعظم نریندرمودی کو یہ خوش فہمی ہے کہ انہوں نے مسلم خواتین کی مظلومیت کے خاتمہ کی خاطر جو تین طلاق کا قانون بنایا ہے اس سے 50 فیصد مسلمان عورتیں بی جے پی کی حامی بن گئی ہیں، حالانکہ تین طلاق کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد اعشاریہ 5 فیصد بھی نہیں ہے۔ یہ دعویٰ اگر درست ہو تو انہیں مظلوم ہندو خواتین کے تحفظ کی خاطر بھی کوئی قانون بنانا چاہیے تاکہ وہ حقیقت میں محفوظ نہ ہوں تب بھی ان کا ووٹ بنک تو محفوظ ہو جائے، کیونکہ مودی جی صرف بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے نہیں پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔

گزشتہ 6 ماہ میں ملک کے مختلف حصوں میں جس طرح سے بیٹیوں کے ساتھ انسان نما حیوانوں نے دردنگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ عالمی سطح پر 8 مارچ کو یومِ خواتین کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس دن بہت ساری نمائشی سرگرمیوں ہوتی ہیں جن کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن کیا اس سالانہ رسم کی ادائیگی کافی ہے؟ کیا اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ یوم خواتین کے موقع پر سماج کے اندر عورتوں کی حالت کا جائزہ اور احتساب لیا جائے؟ لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے اعصاب پر الیکشن اور پارٹی کا بھوت سوار رہتا ہے۔


میرٹھ کی بدنصیب طالبہ تو اپنی عزت لٹا کر زندہ اپنے خاندان میں لوٹ آئی تھی مگر بہار کے گوپال گنج کی کرن کو ایک ایسے سفر پر روانہ کر دیا گیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ اس سانحہ کی خبر بھی اسی دن آئی جب یوم خواتین کی تیاری زوروشور سے چل رہی تھیں اور اب رشی کیش کے ایک ریزارٹ سے دل دہلا دینے والی واردات سامنے آئی ہے جس میں ریزارٹ کی ریسپشنسٹ انکیتا بھنڈاری (19 سال) کو گدھوں نے نوچ کھایا۔ پیسے کے لیے جانور بن چکے لوگ اس سے جسم فروشی کرانا چاہتے تھے، انکیتا نے جب ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

بیٹیوں کی حفاظت کے نام پر وزیر اعظم مودی تقریباً ہر پروگرام میں ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں مگر مذکورہ واقعات تو انہیں کی پارٹی (بی جے پی) کی حکومت والی ریاستوں میں ہوئے ہیں، یہاں بیٹیوں کو انصاف دلانے میں انھیں کون سی چیز روک رہی ہے۔ دراصل یہ حکومت کا محض نعرہ ہے جو انتخابات کا سہارا ہے کیونکہ اگر یہ نعرہ عملی ہوتا تو 2018 میں نیتی آیوگ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں مودی جی کی حکومت میں جنسی شرح تناسب بلند ہوتا اور لڑکیوں کی شرح پیدائش میں گراوٹ نہیں آتی۔


ہم لاکھ دعویٰ کریں لیکن 21 ویں صدی میں بھی ہمارا معاشرہ بڑی حد تک جنگلی ہی رہ گیا ہے۔ جنگل کا انصاف یہی ہے کہ جو طاقتور ہے وہ کمزوروں کا استحصال کرے گا۔ اس پر مظالم کے پہاڑ توڑے گا، یہاں تک کہ اپنی سہولت کے لیے جان بھی لے لے گا۔ طاقت جنگلی زندگی کی پہلی شرط ہے۔ آج کا معاشرہ بھی طاقت کی پوجا کرتا ہے۔ خواہ اس طاقت کا استعمال غیر اخلاقی، غیر انسانی، غیر مہذب ہی کیوں نہ ہو۔ حکمران اور انتظامیہ بھی طاقتور کے سامنے مفلوج، عدالتیں بھی خاموش تماشائی۔ آخر حیوانیت سے لبالب لوگ طاقتور ہوں گے تو ننگا ناچ کریں گے ہی، جیسا آج ہو رہا ہے۔

فرسودہ نظام بس عام لوگوں میں انصاف پانے کی امید زندہ رکھنے تک ہی اقدامات کرے گا اور پھر درندے موج کریں گے لیکن اس سے بڑا دکھ تویہ ہے کہ معاشرے کی نفسیات بھی مردہ ہو چکی ہے۔ ہمیں اب بیٹیوں کی حالت زار جھنجھوڑتی نہیں ہے۔ ہم تو6 ماہ کی دودھ پیتی بچی کے ساتھ بداعمالیوں کو بھی معمول ہی مان چکے ہیں۔ ان حالات میں’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ نعرہ لگانے والوں کو کیا کہا جائے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے عوامی جذبات کے ساتھ ساتھ ان کی امیدوں کے ساتھ بھی کھلواڑ کرنے کی عادت پڑگئی ہے۔


ہمارا خون نہیں کھولتا، بس ندامت کا اظہار کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داری ختم۔ اس سے زیادہ کچھ ہوتا ہے تو بس یہ کہ کبھی کبھار سڑکوں پر اتر آتے ہیں، کینڈل مارچ کرلیتے ہیں، نعرے لگا لیتے ہیں اور پھر گہری نیند سوجاتے ہیں لیکن اب اس کے لیے بھی بہت کچھ دیکھا جا رہا ہے۔ کس کی موت پر ہنگامہ کرنا ہے، کب کینڈل مارچ کرنا ہے اور کب خاموشی اختیار کر لینا ہے۔ یہ سب جن پیمانوں پر طے کیا جا رہا ہے وہ کسی مہذب معاشرے کی علامت تو بلکل نہیں ہو سکتے۔ منہ کھولنے سے پہلے معلوم کیا جاتا ہے کہ حیوانیت کی شکار بیٹی کس ذات کی ہے، کس مذہب کی ہے، کس طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور حیوان کی پہچان کیا ہے۔

سچ کہوں تو اس بدبودار سوچ کی بو اتنی تیز ہے کہ اس بارے میں سوچ کر بھی گھن آجاتی ہے۔ ہم کیسا معاشرہ بن گئے ہیں! بغیر ذات، پات، مذہب، طبقاتی چشمے کے انسانوں کو انسان کے طور پر نہیں دیکھ سکتے؟ ایک سماج کے طور پر ہم مردوں میں ان اقدار کی جڑ بھی نہیں جما سکے، جن کا بات بات پر ہم ذکر کرتے ہیں کہ عورتیں دیوی ہیں، بیٹیاں گھر کی لکشمی ہیں، ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ انہیں معاشرے کا سچ بننا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ سب افسانے بن کر رہ گئی ہیں۔ اب بیٹیاں بھی کھل کر کہنے لگی ہیں کہ مجھے دیوی مت بناؤ، بس مجھے ایک عدد انسان کی زندگی جینے دو۔


نفرت سے قطع نظر یہ دل دہلانے والے واقعات خواتین کے حوالے سے ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہاں نہ تو تین طلاق کا معاملہ ہے اور نہ حجاب کا مسئلہ ہے۔ انتخابی نعروں اور الزام تراشی سے الگ اس تلخ حقیقت پر توجہ دینا لازمی ہے۔ خواتین اگر اس طرح کے مظالم کا شکار ہوتی رہیں تو اقتدار کی تبدیلی ایک ڈھکوسلہ بلکہ افیون سے کم نہیں جس کے نشے میں انسان خود اپنے سے غافل ہوکر درندہ بن جاتا ہے۔ حکومتوں کے وعدوں پر تکیہ کرنے سے خواتین کی حفاظت نہیں ہوگی، اس کے لیے معاشرے کو اپنی ذہنیت بدلنا ہوگی بصورت دیگر انسانوں کا یہ سماج حیوانوں کا جنگل بن جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔