’جَن وشواس ریلی‘ سے انڈیا اتحاد کو ملی مضبوطی، کمزور طبقوں میں پہنچا خوشنما پیغام

’جَن وشواس ریلی‘ کے دوران راہل گاندھی، تیجسوی یادو اور اکھلیش یادو کی نوجوان قیادت پر بہار کے نوجوانوں نے زبردست اعتماد کا مظاہرہ کیا۔

<div class="paragraphs"><p>پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں ’جَن وشواس ریلی‘ کے دوران انڈیا اتحاد کے لیڈران</p></div>

پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں ’جَن وشواس ریلی‘ کے دوران انڈیا اتحاد کے لیڈران

user

عتیق الرحمٰن

پٹنہ کا تاریخی گاندھی میدان 3 مارچ (اتوار) کو پھر ایک بڑی ریلی کا گواہ بن گیا جہاں آر جے ڈی، کانگریس اور بایاں محاذ نے مشترکہ طور پر ’جَن وشواس مہاریلی‘ کا کامیاب انعقاد کیا۔ اس ریلی میں بہار کے سبھی 38 اضلاع سے کثیر تعداد میں پارٹی لیڈران و کارکنان کے علاوہ عام لوگ بھی جوق در جوق شریک ہوئے اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر ملک میں تبدیلیٔ اقتدار سے متعلق اپنے بلند عزائم کا پُرجوش اظہار بھی کیا۔ ریلی میں گاندھی میدان کا بیشتر حصہ بھر گیا اور ہزاروں لوگ میدان کے باہر بھی کھڑے یا بیٹھے اپنے محبوب رہنماؤں کی تقریریں سنتے نظر آئے۔ ریلی میں شریک لوگوں میں اکثریت دیہی علاقے کے نوجوانوں، غریبوں، مزدوروں اور کسانوں و خواتین کی نظر آئی جو اپنے ساتھ تھیلے میں ستّو، روٹی، اچار وغیرہ لے کر آئے تھے۔ یہ سبھی زمین پر ہی کاغذ، چادر، گمچھے بچھا کر صبح سے شام تک بیٹھے رہے اور اپنے اتحاد کا پُرجوش مظاہرہ کرتے رہے۔

نوجوانوں کی بڑی تعداد اسٹیج کے سامنے صبح سے شام تک کھڑی رہی اور تھکے بغیر پُرجوش انداز میں جہاں ایک طرف آر جے ڈی، کانگریس اور بایاں محاذ پارٹیوں کی حمایت میں نعرے بازی کرتے رہے، وہیں دوسری جانب ان پارٹیوں کے نوجوان رہنماؤں راہل گاندھی، تیجسوی یادو اور اکھلیش یادو کی قیادت پر اپنے زبردست اعتماد کا اظہار کبھی ہاتھ ہلاکر تو کبھی زندہ باد کے نعرے لگا کر کرتے رہے۔ ان نوجوان رہنماؤں کی ایک جھلک پانے کے لیے ریلی میں شریک لاکھوں نوجوان بے تاب اور بے قرار نظر آئے۔ حتیٰ کہ کم و بیش 100 درختوں پر سینکڑوں نوجوان بیٹھے دکھائی دیے جو گھنٹوں تک اُسی حالت میں رہ کر ریلی میں رہنماؤں کی تقریریں سنتے رہے۔ نوجوانوں کے درمیان راہل گاندھی، تیجسوی یادو، اکھیلش یادو اور تیج پرتاپ یادو بے حد مقبول اور محبوبِ نظر بنے رہے۔ ان کی تقریروں کے درمیان نوجوان پُرجوش انداز میں اپنی محبتوں کا اظہار کرتے رہے۔


کانگریس رہنما راہل گاندھی نے بہار کو ہندوستان کی سیاست کا اہم مرکز قرار دے کر ’نفرت کے بازار میں محبت کی دُکان‘ قائم کرنے کا پیغام دیا اور وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکز کی بی جے پی حکومت کو ہر محاذ پر ناکام قرار دیتے ہوئے اس پر ملک کے غریبوں، پسماندوں، کسانوں، نوجوانوں اور سبھی کمزور طبقوں کے ساتھ حق تلفی و ناانصافی کے سنگین الزامات بھی عائد کئے۔ ان کی تقریر کو نوجوانوں نے بے حد پسند کیا۔ اگنی ویر منصوبہ کی جب راہل نے مخالفت کی تو نوجوانوں کا جوش اُمنڈ پڑا۔ راہل نے اپنے منفرد انداز میں کہہ ڈالا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے وہ نہیں ڈرتے ہیں بلکہ مقابلہ کرتے ہیں اور آئندہ بھی مقابلہ کر کے اُسے مرکز کے اقتدار سے ہٹائیں گے اور انڈیا اتحاد کے حکومت کے قیام کو یقینی بنائیں گے۔

کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے اعداد و شمار اور حقائق پر مبنی تقریر کے ذریعہ ریلی میں شریک انڈیا اتحاد کے کارکنوں اور عام لوگوں کے درمیان گہرے اثرات قائم کیے اور ان کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی۔ آر جے ڈی رہنما اور سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی پرساد یادو نے اپنی تقریر میں مرکز کی مودی حکومت اور آر ایس ایس و بی جے پی کے خلاف حملہ کرنے کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور بار بار ان کے پلٹنے پر تبصرہ کرتے ہوئے فلم اسٹار رتک روشن کی فلم ’کوئی مل گیا‘ کا یہ گانا منفرد انداز میں گایا- ’اِدھر چلا، میں اُدھر چلا، جانے کہاں کب کدھر چلا... ارے پھسل گیا...۔‘ گانے کے اس بول کو تیجسوی کی زبان سے سنتے ہی نوجوانوں کے جوش و اُمنگ میں اضافہ ہو گیا۔ تیجسوی نے 17 سال بنام 17 مہینے کا تفصیلی تذکرہ کر کے جب یہ دعویٰ کیا کہ گاندھی میدان کو سیاسی ریلیوں کے بعد انہوں نے نوکری ریلی کا بھی مرکز بنا دیا تو اتنا کہتے ہی نوجوانوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی اور سب نے ’تیجسوی یادو زندہ باد‘ کے نعرے بلند کر دیے۔ انہوں نے آر جے ڈی کو ایم وائی کے بجائے ’مائی-باپ‘ کی پارٹی اور ’اے ٹو زیڈ کی پارٹی‘ قرار دیا۔ یہ بھی کہا کہ آپ عوام ہی ان کی طاقت ہیں اور آپ ہی ان کے لیے قابل ترغیب بھی ہیں، تو یہ بات بھی ریلی میں شریک لوگوں نے بخوشی قبول کرتے ہوئے تیجسوی کے حق میں نعرے بازی کی۔ تیجسوی نے اپنی پارٹی ’آر جے ڈی‘ کا ایک نیا مطلب ’آر-رائٹس (حق)، جے-جاب (ملازمت) اور ڈی-ڈیولپمنٹ (ترقی)‘ بھی لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ تیجسوی کی تقریر کو نوجوانوں نے سنجیدگی سے بھی سنا اور انہیں نوکری دینے والا رہنما قرار دیا۔


آر جے ڈی صدر لالو پرساد نے اپنی تقریر میں کہہ ڈالا کہ نریندر مودی ہندو نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد بال-داڑھی نہیں منڈوایا تھا، جبکہ ہر ہندو اپنے والدین یا قریبی لوگوں کے انتقال پر بال داڑھی منڈواتے ہیں۔ ایسا کہہ کر لالو پرساد نے کمزور طبقوں کے ہندوؤں کے درمیان ایک نئی بحث شروع کر دی ہے اور مودی کے ہندوتوا اور مذہبی ایجنڈے پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔ اس بیان سے ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کو مودی کے خلاف ورغلانے میں آر جے ڈی اور انڈیا اتحاد کی دیگر پارٹیوں کو کامیابی مل سکتی ہے۔

ریلی ختم ہونے کے بعد بھی پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں عوام کا جوش دیکھنے لائق تھا۔ اس ریلی کے گواہ بنے غریب، مزدور اور کسان طبقہ کے لوگوں نے بات چیت کے دوران برجستہ انداز میں کہا کہ 2024 میں ملک کے اقتدار کا نقشہ بدل دیں گے، کیونکہ اگر بی جے پی والے اقتدار میں رہ گئے تو وہ ملک اور سماج کا ہی نقشہ بدل ڈالیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ اب آپس میں متحد و منظم ہو گئے ہیں۔


قابل ذکر ہے کہ لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے امروز فردا میں الیکشن کمیشن کے ذریعہ انتخابی تاریخوں کا اعلان کیا جانا ہے۔ ایسی صورت میں گاندھی میدان (پٹنہ) میں منعقدہ ’جَن وشواس ریلی‘ سے جہاں ایک طرف انڈیا اتحاد کو بڑی تقویت ملی ہے اور پارٹی رہنماؤں و کارکنوں میں جوش و جذبہ بیدار ہوا ہے، وہیں دوسری طرف بہار کی 40 لوک سبھا سیٹوں میں سے تقریباً 25 سیٹوں پر گہرے اثرات بھی مرتب ہونے کا امکان ہے۔ ان سیٹوں پر پسماندہ، انتہائی پسماندہ، دلت اور اقلیت طبقہ کے لوگ فیصلہ کُن پوزیشن میں ہیں اور ان سب کا ووٹ اگر منتشر نہیں ہوا تو یقینی طور پر کم از کم یہ 25 سیٹیں انڈیا اتحاد کے قبضے میں ضرور آئیں گی۔ بقیہ 15 سیٹوں پر انڈیا اتحاد کو کچھ زیادہ ہی محنت کی ضرورت پڑے گی۔ غور طلب ہے کہ مذکورہ کمزور طبقات کے لوگ ہی ریلی میں بڑی تعداد میں شریک ہوئے اور وہ فیصلہ کن ووٹر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ریلی میں مسلمانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد نظر آئی جس سے بہار میں آر جے ڈی کا ’ایم وائی‘ سمیکرن بہت حد تک برقرار نظر آیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔