جموں و کشمیر: 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 ہٹنے کے بعد سے کتنے بدلے زمینی حالات؟... اتم سین گپتا

5 سال قبل جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ختم کر ریاستی درجہ چھینا گیا، ساتھ ہی کشمیر-لداخ الگ الگ مرکز کے زیر انتظام خطے بنا دیے، ان 5 سالوں میں وہاں کے حالات کتنے بدلے، آئیے اس پر ڈالتے ہیں ایک نظر۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر Getty Images</p></div>

تصویر Getty Images

user

اتم سین گپتا

جموں و کشمیر ایک تبناک مستقبل کی طرف دیکھ رہا ہے... سیاحت تیزی سے بڑھ رہی ہے، کشمیر میں سنیما گھر پھر سے کھل گئے ہیں، انفراسٹرکچر تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے اور تین دہائی بعد سری نگر میں محرم پر تازیے نکالے گئے۔ یہ دعویٰ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ سری نگر نے کامیابی کے ساتھ جی-20 میٹنگ کی میزبانی کی اور زمین پر موجود اس جنت میں امن پھر سے لوٹ آیا ہے۔

وزیر اعظم ہی نہیں، سری نگر کا دورہ کرنے والے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ’’جہاں علیحدگی پسند نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق اور پتھر تھما رہے تھے، اس کی جگہ اب موبائل فون اور لیپ ٹاپ نظر آ رہے ہیں، صنعتیں قائم ہو رہی ہیں اور روزگار مہیا کرایا جا رہا ہے۔‘‘ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے بھی دعویٰ کیا کہ دہشت گردانہ واقعات میں لوگوں کی اموات سے متعلق تعداد میں کمی آئی ہے، پریس آزاد ہوا ہے اور جلد ہی انتخاب بھی کرائے جائیں گے۔


ایک طرف مذکورہ بالا دعوے ہیں، اور دوسری طرف ’دی اکونومسٹ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں ان سبھی دعووں کو سچائی سے کوسوں دور بتایا ہے۔ حالانکہ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ ’’آرٹیکل 370 کو ختم کیے جانے کے بعد سے جموں و کشمیر میں غیر معمولی رفتار سے ترقی ہوئی ہے اور سیکورٹی و استحکام دیکھنے کو مل رہا ہے، ساتھ ہی دہائیوں کی اتھل پتھل کے بعد روز مرہ کی زندگی معمول پر آیا ہے۔‘‘ مرکزی حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ٹیرر نیٹورک یعنی دہشت گردوں کی مکڑ جال اب ماضی کی بات ہو چکی ہے۔

سابق رکن پارلیمنٹ حسنین مسعودی کا کہنا ہے کہ ’’5 اگست 2019 کو آرٹیکل .370 ختم کیے جانے کے بعد سے ریاست میں کچھ نہیں بدلا ہے، بلکہ جموں میں تو تشدد کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ دہشت گردوں نے اپنے نشانے پر گزشتہ دو سال سے جموں کو مرکز بنا رکھا ہے، لیکن وادی میں بھی دہشت گردی ختم نہیں ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2021 کے بعد سے وادی میں 263 دہشت گردانہ واقعات ہوئے ہیں جن میں 417 مبینہ دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ ان حادثات کے سبب سیکورٹی فورسز کو بھی نقصان ہوا ہے اور 68 جوانوں کے ساتھ 75 عام شہریوں کی جان بھی گئی ہے۔


تنہا اس سال جولائی میں ہی تشدد کے کافی واقعات ہوئے ہیں۔ ڈوڈا، پونچھ اور کٹھوا جیسے جموں کے علاقوں میں کم از کم 10 سیکورٹی جوانوں کی موت دہشت گردانہ واقعات میں ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ جون کے ماہ میں جس دن وزیر اعظم نریندر مودی تیسری مرتبہ عہدہ کا حلف لے رہے تھے، اسی دن جموں کے ریاسی میں ایک بس پر دہشت گردانہ حملے سے بس گہرے گڈھے میں جا گری جس میں 9 عقیدتمندوں کی موت ہوئی۔

سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹھیک ہی تبصرہ کیا ہے کہ ’’امن قائم ہونے کے تمام دعووں اور جی-20 کے تماشے کے باوجود حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، اور اسی لیے جموں و کشمیر اب بھی امریکی محکمہ خارجہ کے ٹریول ایڈوائزری کا حصہ بنا ہوا ہے۔‘‘


5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 ختم ہونے کے بعد سے ریاست کی معیشت پہلے سے خراب ہوئی ہے۔ فروری 2024 میں ریاست میں شرح بے روزگاری 17 فیصد پر تھی، جو کہ بہار کے 12.3 فیصد اور آندھرا پردیش کے 6.6 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ سیاحت میں اضافہ کے تمام دعووں کے باوجود اسٹارٹ اَپ اور صنعتوں نے جموں و کشمیر سے کنارہ کر رکھا ہے۔ ویسے تو بہار اور آندھرا پردیش کو اس سال کے بجٹ میں ہاتھ کھول کر پیسہ دیا گیا ہے، لیکن جموں و کشمیر کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ویسے بھی ریاست میں منتخب ہوئی حکومت نہ ہونے کے سبب لگاتار چھٹی مرتبہ ریاست کا بجٹ پارلیمنٹ میں ہی رکھا گیا۔

اسی تعلق سے اننت ناگ-راجوری سے نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ میاں الطاف نے لوک سبھا میں بڑھتی بے روزگاری اور مہنگائی کے ایشو کو زور و شور سے اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ حالات ایسے ہیں کہ ریاست پنشن نہیں دے پا رہی ہے۔ ٹھیکیداروں کے بل برسوں سے لٹکے پڑے ہیں۔ دہلی-سری نگر کا ہوائی کرایہ اتنا مہنگا ہے کہ لوگ کشمیر جانے سے بچ رہے ہیں، یہاں تک کہ ایمرجنسی حالات یعنی ضرورت میں بھی لوگ سفر نہیں کر پا رہے ہیں۔ میاں الطاف نے پارلیمنٹ کی جوائنٹ کمیٹی کو جموں و کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے سے متعلق مطالبہ سامنے رکھا تاکہ سچائی اور حقیقت سامنے آ سکے۔ انھوں نے کہا کہ ریاست کا بجٹ طے کرنے سے پہلے ریاست سے کسی بھی لیڈر، تاجر، کاروباری یا صنعت کار سے بات نہیں کی گئی۔


ریاست میں معاشی حالت پر ’کشمیر ٹائمز‘ سے بات چیت کے دوران شعبہ درس و تدریس سے منسلک ایک دانشور نے کہا کہ ’’جموں و کشمیر میں ذاتی سرمایہ کاری 2022 میں اس کا نصف بھی نہیں تھی جتنی کہ 2018 میں یعنی آرٹیکل 370 ہٹنے سے پہلے تھی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ کسی بھی جنگ والے علاقے کو سرمایہ کاری کے لیے کس طرح کوئی محفوظ تصور کرے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’حالانکہ سیاحت میں کچھ بہتری ہوئی تھی، لیکن 2022 میں بھی تقریباً اتنے ہی سیاح آئے جتنے کہ 2018 میں آئے تھے۔‘‘ ویسے تو ڈل جھیل کو بہت اچھی طرح سجا دیا گیا ہے اور رات کے وقت رنگ برنگی روشنیوں میں وہ نہا اٹھتی ہے، لیکن عام کشمیریوں کے گھروں میں بجلی موجود نہیں۔

گزشتہ 4 سال کے دوران کم از کم 64 سرکاری ملازمین کو بغیر جانچ کے ہی ملازمت سے نکال دیا گیا اور الزام طے کیا گیا کہ ان کی سرگرمیاں سیکورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کہتی ہیں کہ ریاست سے سب کچھ چھین لیا گیا، زمین، ملازمت، وسائل وغیرہ چھین کر کارپوریٹ اور امیر ’متروں‘ کو دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال اگست 2023 میں ہی حکومت نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ آرٹیکل 370 ہٹنے کے بعد سے ریاست کے باہر کے کم از کم 185 لوگوں نے جموں و کشمیر میں زمین خریدی ہے۔ اس کے علاوہ کئی لاکھ لوگوں کو وزیر اعظم رہائش منصوبہ کے تحت زمینیں الاٹ کی گئی ہیں۔ لیکن مقامی کشمیریوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبہ کے تحت باہر کے لوگوں کو بھی زمینیں دے دی گئی ہیں، جبکہ منصوبہ مقامی لوگوں کے لیے ہے۔


علاوہ ازیں قبل میں الاٹ زمینوں کی لیز کو رینیو (تجدید) بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ نئے سرے سے زمینیں الاٹ کیے جانے سے لوگوں میں خوف ہے کہ ان کی زمینیں چھین کر باہر سے آئے لوگوں کو دے دی جائیں گی۔ کشمیر میں تمام اسکول، ہوٹل اور دیگر ادارے لیز کی زمینوں پر ہی چل رہے ہیں۔ دہائیوں سے چلنے والے ان اداروں کی لیز رینیو نہ ہونے سے ایک خوف پیدا ہوا ہے۔ اس بارے میں نیا نوٹیفکیشن آیا ہے جس کا موازنہ محبوبہ مفتی نے اسرائیل کی اس پالیسی سے کیا ہے جو قبضے والی فلسطین کی زمینوں کو لے کر بنائی گئی ہے۔

ابھی رواں سال ہی جولائی میں مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے حقوق میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے تحت اب لیفٹیننٹ گورنر کو سبھی آل انڈیا سروسز، اینٹی کرپشن بیورو، پبلک پروزیکیوشن ڈائریکٹوریٹ، جیل، فورنسک لیب وغیرہ کا کنٹرول مل گیا ہے۔ اس کے بعد اب ریاست میں ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر قانونی افسروں کی تقرری لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری سے ہی ہوگی۔ اختیارات کے اس حد تک سنٹرلائزیشن سے منتخب اسمبلی یا مستقبل میں بننے والی حکومت کے لیے کام کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس طرح ریاست کو ایک طرح سے دہلی کے ذریعہ ہی کنٹرول کیا جائے گا۔


’کشمیر ٹائمز‘ کی مدیر انورادھا بھسین کا کہنا ہے کہ ’’میں لگاتار کہتی رہی ہوں کہ صرف انتخاب کرانے سے حالات نہیں بدلنے والے۔ اگر جموں و کشمیر کی سیاست کو دیکھیں تو ایک مرکز کے زیر انتظام خطہ میں منتخب کی گئی حکومت کو کشمیر حکومت سے کہیں زیادہ اختیارات ہوں گے۔‘‘

جموں و کشمیر کے بجٹ میں جو اعلانات کیے گئے ہیں، ان سے اشارے ملتے ہیں کہ مرکزی حکومت مرکز کے زیر انتظام خطوں کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔ کانگریس کمیونکیشن محکمہ کے چیف اور راجیہ سبھا رکن جئے رام رمیش نے ایک جملہ کی طرف اشارہ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’مرکزی حکومت اس بات پر متفق ہے کہ جموں و کشمیر پولیس کا پورا بجٹ بوجھ مرکزی حکومت اٹھائے گی اور اس پر 12 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔‘‘ رمیش کہتے ہیں کہ مرکزی حکومت تو 1990 کی دہائی سے ہی ریاست کی پولیس کا خرچ سیکورٹی اخراجات کے طور پر اٹھاتی رہی ہے، اور چونکہ کوئی نیا نظام نہیں ہے، ایسے میں کیا مرکزی حکومت کہنا چاہتی ہے کہ وہاں انتخاب ہو جانے کے بعد بھی وہاں کے محکمہ داخلہ و سیکورٹی پر مرکز کا ہی کنٹرول رہے گا۔


یاد رکھیے کہ 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی سے کوئی 8 ماہ قبل نومبر 2018 میں ہی ریاستی اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا تھا اور پھر اسے مرکز کے زیر انتظام خطہ بنا دیا گیا۔ ویسے تو سپریم کورٹ نے مرکز کو ہدایت دی تھی کہ ستمبر 2024 تک ریاست میں انتخاب کرا لیے جائیں، لیکن بیشتر کشمیریوں کو لگتا ہے کہ حکومت وہاں ریاست کا درجہ بحال نہیں کرنا چاہتی ہے۔

ویسے حال کے لوک سبھا انتخاب میں جموں و کشمیر میں 58.5 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی جو کہ گزشتہ 35 سالوں میں ہوئی سب سے کم ووٹنگ ہے۔ اس کے پیچھے کی وجہ حکومت نے ریاست میں عام حالات بحال ہونا بتائی ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سیکورٹی کا بہانہ بنا کر الیکشن کمیشن نے وہاں ایک مرحلہ میں صرف ایک ہی سیٹ پر انتخاب کرایا تھا۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے وادی کی کسی بھی سیٹ (سری نگر، بارہمولہ اور اننت ناگ) پر انتخاب نہیں لڑا تھا۔ لداخ میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ صرف جموں علاقے کی دو سیٹیں معمولی فرق سے بچا پائی، جبکہ اس نے وہاں ایک متنازعہ حد بندی بھی کرائی تھی۔

ستمبر قریب ہے، ایسے میں سپریم کورٹ کی ہدایات کے تحت کیا مرکزی حکومت جموں و کشمیر میں انتخاب کرا پائے گی؟ اس بارے میں فی الحال تصویر صاف نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔