’جب نگیچے چناؤ آوت ہے- بھات مانگو پلاؤ آوت ہے‘… نواب علی اختر

ماہرین کی مانیں تو یوپی میں حالات بی جے پی حکومت کے خلاف دکھائی دے رہے ہیں اسی لیے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹا کر ایک بار پھر پولرائزیشن کی مہم تیز ہوگئی ہے۔

ووٹ، علامتی تصویر یو این آئی
ووٹ، علامتی تصویر یو این آئی
user

نواب علی اختر

اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں اگلے سال کی شروعات میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر سیاسی پارٹیاں دلفریب وعدے اور دعوے کرکے ایک دوسرے سے بازی مارنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ وہی پارٹیاں ہیں جو کسی بھی ریاست یا مرکزی اقتدار میں ساڑھے چار سال خواب خرگوش میں ہوتی ہیں اور اپنے کانوں میں اس طرح انگلیاں ٹھونس لیتی ہیں کہ ان لوگوں کے آنسو اور درد کو بھی نہیں سنتیں، جنہوں نے ووٹ دے کر انہیں اقتدار تک پہنچایا ہے۔ مگر جب انتخابات کی گھنٹی بجتی ہے تو جو کام ساڑھے چار سال میں نہیں کیا، وہ 4-5 ماہ میں کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ آئندہ 5 سالوں کا منصوبہ بھی ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہو کہ چھو منتر کہا اور ہوگیا۔

ہندوستان میں یہ ایک روایت سی ہوگئی ہے کہ پانچ سال کی میعاد کے ساڑھے چار سال ’صرف اپنے لیے کام‘ کر کے گزار دینے والی حکومتیں انتخابی سال آتے ہی اچانک خواب خرگوش سے اٹھتی ہیں اور وہ تمام وعدے اور دعوے کرتی ہیں جن کی بدولت عوام کو ایک بار پھر بے وقوف بنا کر ان کے ووٹ حاصل کر کے مسند اقتدار پر قابض ہوا جاسکے۔ اس کے لیے تمام اعلان اور وعدے کئے جاتے ہیں تاکہ ووٹروں کو لبھایا جاسکے۔ حالیہ دنوں اسمبلی میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ کئے گئے دلفریب وعدے اس کی تازہ مثال ہیں۔ اودھ کے مشہور شاعر رفیق شادانی مرحوم نے کبھی اسی طرح کی سیاست پر طنز کستے ہوئے کہا تھا ’جب نگیچے چناؤ آوت ہے- بھات مانگو پلاؤ آوت ہے‘۔


اس لیے ان کے اس بیان کو معنی خیز بناتے ہوئے یوگی کے ذریعے گریجویشن، ماسٹرز اور ڈپلومہ میں داخلہ لینے والے ایک کروڑ طلبہ کو ڈیجیٹل طور پر قابل بنانے کے لیے ٹیبلیٹ یا اسمارٹ فون اور مسابقتی طلبہ کو بھتہ اور اسکالرشپ وغیرہ دینے، مافیا سے ضبط زمین پر دلتوں اور غریبوں کے گھر بنوانے اور ساتھ ہی 28 لاکھ سرکاری ملازمین اور پینشنرز، دس سال فیلڈ ملازمین، نوجوانوں، وکلاء اور کورونا جنگجوؤں کے بھتوں، اعزازیہ اور فنڈز وغیرہ میں اضافے کے اعلانات کی تنقید میں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ 2017 میں پورا سیاسی کلچر ہی بدل ڈالنے کے وعدے پر منتخب ہوکر آئی بی جے پی حکومت کے سربراہ کے طور پر انتخابی سال میں اچانک پچھلی حکومتوں کی لکیر کی فقیری اور کارکردگی سے زیادہ بے بسی کا ہی مظاہرہ کر رہی ہے۔

یہ سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کی سیاست میں عوام کو بے وقوف بنانے کا رواج کیوں مضبوط ہوتا گیا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر دیکھا جائے تو ان سب کے لیے وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو ذاتی فائدے کے لیے عام لوگوں کے جذبات اور خواہشات کو پیروں تلے روند کر ہر وہ کام کرتے رہے جس سے آئین ہند میں حاصل حقوق مستحقین کو نہ پہنچ سکیں۔ ان سب کے لیے عوام بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں کیونکہ صرف وعدے اور دعوے کرنے والے لیڈران قوم کو بار بار محض اس امید میں اقتدار سونپتے رہے کہ اس بار نہیں تو اگلی بار ہمارے نیتا جی ضرور ہمارا کام کریں گے اور یہ سوچتے سوچتے پانچ سال کی ایک اور میعاد نکل جاتی ہے اور وہی نیتا جی جو سونے کے نوالے کھلانے کے وعدے کرکے گئے تھے، اس بار وہ سونے کا گھر بنا دینے کی بات کر رہے ہیں۔


پورے ہندوستان بالخصوص آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی سیاست کے سوانگ ہی نرالے ہیں اور اس میں حکمراں بی جے پی کا تو جواب نہیں ہے جو عوام کو تعلیم، ترقی، روزگار جیسے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی اور جب کوئی نیا وعدہ تلاش نہیں کرپائی تو ایک بار پھر ریاست کو 1991 کی سیاست میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہوئے پرانا مذہبی کارڈ کھیلا اور متھرا میں مندر بنانے کا وعدہ کر ڈالا۔ یہ وعدہ کسی چھُٹ بھئیا لیڈر نے نہیں بلکہ ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ ایودھیا، کاشی میں شاندار مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے اور اب متھرا کی تیاری ہے۔ یہ وہی موریہ ہیں جن کی ایک بار کرسی داؤ پر لگ گئی تھی اور وہ بڑی مشکل سے اپنی کرسی کو بچا پاۓ تھے، انہیں موریہ جی کو اب مشن پر لگا دیا گیا ہے۔

اکثر و بیشتر یہی ہوتا آیا ہے کہ بی جے پی جہاں کہیں انتخابات لڑنا چاہتی ہے وہاں ماحول کو جم کر پراگندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل پر کوئی مباحثہ نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی ترقیاتی منصوبے یا پروگرام پیش کئے جاتے ہیں۔ صرف عوام کو اشتعال دلا کر اور ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا کرکے ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی ہی کوششیں اترپردیش میں بھی شدت اختیار کر رہی ہیں اور خود وزیراعلیٰ، نائب وزیراعلیٰ ایسا کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ماہرین کی مانیں تو یوپی میں حالات بی جے پی حکومت کے خلاف دکھائی دیتے ہیں اسی لئے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹا کر ایک بار پھر پولرائزیشن کی مہم تیز ہوگئی ہے۔


اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حالانکہ عوام کے مسائل کو پیش کرتے ہوئے انتخابات کا ایجنڈہ طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسانوں کے قرض معاف کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ بیروزگار نوجوانوں کو لاکھوں سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کے اعلان ہو رہے ہیں۔ خواتین کو نمائندگی دینے کی بات ہو رہی ہے۔ معیشت کو مستحکم کرنے کا تیقن دیا جا رہا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بی جے پی اس طرح کے ایجنڈے کو ختم کرنے کی کوششیں تیز کرچکی ہے۔ پوری بھگوا بریگیڈ میدان میں اتر آئی ہے اور کسی بھی طرح اقتدار میں واپسی کے لیے ریاستی انتخابات میں پاکستان اور چین تک کی باتیں کر رہے۔ ہندو۔ مسلم، قبرستان اور مندروں کا تذکرہ تو بے جے پی کے لیے عام بات ہوگئی ہے۔

خوش کن وعدوں کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے کے منصوبوں پر عمل ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ عوام کو بیوقوف بناتے ہوئے ایک بار پھر ان کے ووٹ بٹورنے اور اقتدار پر قابض رہنے کے مقصد سے کیا جا رہا ہے جس میں جمہوریت کے بنیادی مقاصد کو فراموش کر دیا جا رہا ہے۔ انتخابات لڑنے کے لیے مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنانے کا اختیار اور حق سبھی جماعتوں کو حاصل ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے خود جمہوری عمل کو کھوکھلا کرنے کی کوششیں نہیں ہونی چاہئیں۔ اپوزیشن کے دعوؤں اور الزامات کا جواب دیا جانا چاہئے۔ عوام کے لیے کئے جانے والے کاموں کی تفصیل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ کے منصوبوں سے عوام کو واقف کروایا جانا چاہئے۔ ان کے مسائل کے تئیں حکومت کی سنجیدگی کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے لیکن اترپردیش میں مسائل کو دفن کرتے ہوئے صرف گمراہ کن پروپگنڈہ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔