2019 میں مودی کی شکست یقینی: سدھیندر کلکرنی

سال 2019 کا لوک سبھا چناؤ اب محض ایک سال دور ہے۔ بدلاؤ کی ہوا کو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان اب ایک غیر بی جے پی حکومت چننے اور نریندر مودی کو ایک مدت تک ہی روک دینے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔

تصویر سوشل میدیا
تصویر سوشل میدیا
user

سدھیندر کلکرنی

یہ صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اب 16 ویں لوک سبھا کے انتخاب سے قبل پہلے والا ماحول نہیں رہا۔ ہندوستان کے 2013 میں داخل ہونے کے ساتھ ہی تبدیلی کی خواہش جاگ گئی تھی۔ وہ یو پی اے -2 کو اقتدار سے بے دخل کر دینا چاہتے تھے۔ جوں جوں انتخاب قریب آتے گئے اگلے وزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی کے حق میں ایسی مضبوط اور وسیع پیمانے پر ہوا چلی جسے سیاسی طور پر کم سمجھ رکھنے والا شخص بھی یہ انداز لگا سکتا تھا کہ نتیجہ کیا آنے والا ہے۔ مودی لہر ایسا طوفان بن گئی جس نے طاقتور کانگریس کو ایک علاقائی پارٹی کی حیثیت تک پہنچا دیا۔

لیکن وہ سب اب گزرے وقت کی باتیں ہیں اور آج کا ماحول دوسرا ہے۔ پچھلے تقریباً 4 سال کی مدت میں بی جے پی کی کارکردگی کے حوالے سے لوگوں میں مایوسی کا عالم ہے۔ سنگھ کے افراد لوگوں کو گمراہ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں ، ان کا تصور ہے کہ ملک میں نظر آ رہی تبدیلی کو ملک نکار دے گا اور مودی کا جادو برقرار رہے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی حامی اب پریشان ہونے شروع ہوگئے ہیں ۔ مودی حامی ایک تجزیہ کار نے انگریزی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا ‘ میں ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ’’اگر مودی ہار گئے تو ہندوستان کی سیاست اپنے پرانے اور غیر مستحکم طرز عمل پر واپس لوٹ جائے گی۔‘‘

’’اگر مودی ہار گئے تو…‘‘ کیا ہم نے پچھلے 4 برسوں کے دوران کبھی ان لوگوں کے منہ سے ایک بھی ایسا لفظ سنا تھا؟ ان کا تو تصور ہی یہی تھا کہ مودی ایک ناقابل تسخیر رہنما ہیں۔ ان میں سے کچھ نے تو 2014 کی بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد یہ پیشن گوئی کر دی تھی کہ لوگوں کا اعتماد مودی پر اتنا مضبوط بنا رہے گا کہ وہ پھر 2024 میں تیسری مدت کے لئے منتخب ہو کر اقتدار پر قابض رہیں گے۔ ایسا دعویٰ اب کوئی نہیں کر رہا۔ اس کے برعکس مودی کے نقادوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ ان کے پرستاروں کی طرف سے بھی ان کے ہارنے کے امکانات ظاہر کئے جانے لگے ہیں۔

کوئی بھی تبدیلی با لخصوص بڑی تبدیلی ہمیشہ معیاری عمل کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس تبدیلی کا پہلا عمل یہ ہے کہ ان لوگوں کے ذہنوں میں خود کو لے کر ایک شبیہ بنتی ہے جو اس بات کے خواہاں ہیں کہ موجودہ صورت حال برقرار رہے۔ یہ خود اعتمادی ایک دراڑ پیدا کر دیتا ہے۔ تبدیلی کا دوسرا عمل یہ ہے کہ موجودہ حالات برقرار رکھنے کے لئے حامیوں کے اندربے انتہا اعتماد بھر دیتا ہے۔ یہ اعتماد ہی ایک دراڑ پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن تبدیلی کا اہم ترین میعاری عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب لوگ ایک نئے نظام کی ضرورت محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ موجودہ دور میں یہ تینوں معیاری عمل فعال ہو چکے ہیں۔

حالانکہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ 2019 میں تبدیلی ہو ہی جائے گی۔ جمہوریت میں عوام تبدیلی کرنے کا اہم جز تو ہوتے ہیں لیکن تبدیلی کے ہر وعدے میں بہہ جانے والے بیوقوف بھی نہیں ہوتے۔ موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کا فیصلہ عوام تبھی کرتی ہے جب نئی ساخت پر ان کا یقین ایک ضرورت میں تبدیل ہو جائے۔ اس کے لئے وہ یہ بھی دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ نئی حکومت کیسی دکھے گی اور کیا وہ حکومت موجودہ حکومت سے بہتر ہوگی جس سے وہ پریشان ہیں!

اب وہی صورت حال ہے، مودی حکومت کے تئیں لوگوں میں عدم اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ، بیروزگاری کی مار، کسانوں کی بدحالی، اقتصادی مندی، کشمیر، سرحد پر فوجیوں کی مسلسل ہلاکتیں، فرقہ وارانہ بنیاد پر سماج کی تقسیم، اداروں کا غلط استعمال اور غبن ، وزیر اعظم کی تیکھی تقاریر میں لوگوں کی کم ہوتی دلچسپی اور دیگر متعدد مدوں پر حکومت کے بڑے وعدوں اور ان کی حقیقی کارکردگی کے بیچ فاصلہ بڑھ رہا ہے ۔ نتیجتاً عوام کا ارادہ موجودہ حکومت کو 2019 کے آگے جاری رکھنے کا قطعی نہیں ہے۔

حالانکہ اگر آپ باہر نکلیں اور عام لوگوں کو سنیں تو آپ کو سنائی دےگا ’’ہم مودی حکومت سے خوش نہیں ہیں ، لیکن دوسرا متبادل کیا ہے؟‘‘ دوسرے الفاظ میں کہیں تو 2019 کی اکثریت ٹینا فیکٹر (کوئی متبادل موجود نہیں ) سے طے ہونے کا امکان ہے۔

پھر بھی کانگریس کے پاس ٹینا فیکٹر کو ٹیبا فیکٹر(بہتر متبادل موجود ہے) میں تبدیل کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ سیاست میں ایک سال کا وقت طویل ہوتا ہے ، جو کانگریس کے لئے عوام کو یہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ ان کے پاس ایک بہتر نظریہ موجود ہے، لوگوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ایک بہتر منصوبہ موجود ہے اور 2019 میں فیصلہ کن حمایت حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس ایک قابل اعتماد قیادت موجود ہے۔

کچھ چیزیں پہلے سےہی کانگریس کے حق میں اچھا کام کر رہی ہیں۔ راہل گاندھی کے طور پر اب اس کے پاس ایک بہتر رہنما ہے جو تیزی سے لوگوں کی توجہ مرکوز کر رہا ہے اور رفتہ رفتہ ان کی تعریفیں بھی ہو رہی ہیں۔ سخت گیر بی جے پی حامیوں کو چھوڑ کر دوسرے تمام لوگ انہیں نرم دل، ایماندار، دیانتدار اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ جاننے اور سیکھنے کے خواہاں شخص کے طور پر دیکھنا شروع کر رہے ہیں۔ اگر یہ تمام خوبیاں مودی اور ان کے درمیان اختلافات یا فرق کو سمجھنے کے لئے لوگوں کو راغب کر رہی ہیں تو ہندوستان کے نوجوان بھی انہیں اپنے بیچ ایک رہنما کے طور پر دیکھنا شروع کر چکے ہیں۔ تاریخ کے ساتھ مودی کی تقسیم کاری کے جنون کے مقابلے ہندوستان کے مستقبل کو لے کر ان کا شفاف نظریہ لوگوں کی توجہ کومرکوز کرے گا۔ علاوہ ازیں گجرات انتخابات میں اپنی بہترین کارکردگی کے سبب انہوں نے بزرگ ہوں یا جوان ، تمام کانگریسی کارکنان کو جوش اور توانائی سے بھر دیا ہے۔ کرناٹک ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں ہونے جا رہے انتخابات میں پارٹی کی ممکنہ جیت 2019 سے قبل ملک کے سیاسی پس منظر کو تبدیل کر سکتی ہے۔

ہندوستان کو جن تبدیلیوں کی درکار ہے انہیں پورا کرنے کے لئے یہ سب کافی نہیں ہوگا۔ کانگریس نے ابھی تک اپنی کئی روایتی خامیوں کو دور نہیں کیا ہے جس کے سبب ہندوستان کی سیاست میں ایک طویل مدت سے برقرار صورت حال میں زبردست گراوٹ کا سامنا پارٹی کو کرنا پڑا ۔ علاوہ ازیں یہ یقینی ہے کہ 2019 کا انتخاب ہندوستان کو اتحاد کے دور میں واپس لےجائے گا اس لئے قبل از انتخاب کانگریس کو ریاستی اور قومی دونوں سطحوں پر ایک مضبوط اور قابل اعتماد اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سب باتوں سے اہم بات یہ ہے کہ کانگریس کو مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کا ہر حربہ استعمال کر کے کسی بھی صورت اقتدار پاس رکھنے کی بھوک کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔کانگریس کو اس حربے سے پار پانے کے لئے بڑے پیمانے پر تیاری کرنی چاہئے۔

(تجزیہ کار غیر جانب دار کارکن ہیں اور گاندھی نظریہ کے طالب علم رہے ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Feb 2018, 3:35 PM