فلسطین و اسرائیل جنگ: غلیل سے ٹینک کی تباہی... اعظم شہاب
فلسطین نے اسرائیل پر حملہ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جب کوئی قوم مرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے تو پھر زندگی اس کے قدموں سے لپٹ جاتی ہے اور موت کوسوں دور بھاگنے لگتی ہے۔

تصویر آئی اے این ایس
فلسطین و اسرائیل کی جنگ کو دو ملکوں کی جنگ سمجھنے والے اگر صرف ان کے داخلی طاقت کا ہی موازنہ کر لیں تو انہیں یہ فلسطینیوں کی خودکشی معلوم ہوگی۔ لیکن اسی کے ساتھ اگر وہ اس جنگ میں اسرائیل کی ہزیمت پر بھی ایک نظر ڈال لیں تو یہ کہے بغیر نہیں رہیں گے کہ ان نہتے لوگوں نے اپنے خودکشی کے اقدام میں ہی زندگی کے راز کو پا لیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ان کی زمینوں پر قبضے، بیت المقدس میں نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ، اپنے بچوں کی قربانی، بغیر کسی وجہ کے گرفتاری یہ سب آخر کہاں تک برداشت ہو سکتا تھا۔ جس طرح دنیا کے دیگر ممالک کے لوگوں کو اپنی سرزمین میں سکون سے جینے کا حق ہے اسی طرح فلسطینیوں کو بھی ہونا چاہئے، لیکن اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں نے غزہ کو ایک محاصرتی علاقے میں تبدیل کر دیا۔ بے روزگاری، بھکمری، ضروریات زندگی کے فقدان اور سب سے بڑھ کر ہر جانب سے کی گئی ناکہ بندی نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ اب اٹھ کھڑے ہوں۔
گزشتہ پچاس برسوں سے محاصرتی زندگی جیتے ہوئے فلسطینی اس حقیقت سے واقف ہو گئے کہ جب کوئی قوم مرنے کا فیصلہ کر لے تو پھر زندگی اس کے قدموں سے لپٹ جاتی ہے اور موت اس سے کوسوں دور بھاگنے لگتی ہے۔ ورنہ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ غزہ کے وہ نہتے لوگ جن کے پاس مناسب اسلحہ جات تو دور فوجی وردی تک نہیں، جدید ترین اسلحہ کے نام پر جن کے پاس ایکسپائری کے زمرے میں داخل بندوقوں اور میزائیل کے نام پر ہوم میڈ راکٹس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے وہ دنیا کی طاقتور ترین فوج کی حامل ایک ایسے ملک جس کی اپنی فضائیہ ہے، مسلح ڈرون ہیں، راکٹس و میزائیل کو فضا میں ہی تباہ کرنے والا آئرن ڈوم سسٹم ہے اور سب سے بڑھ کر یہ خارجی و داخلی طور پر وہ دنیا کا مضبوط ترین جاسوسی نظام رکھتا ہے، اس کے 22 سے زائد مقامات پر قبضہ کر لیں؟ ظاہر ہے کہ یہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے پہلے خود کو مٹانے کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے۔ ان نہتوں نے پہلے خود کو مٹا ڈالنے کا عزم کیا جس کے نتیجے میں آج کامیابی ان کے قدم چوم رہی ہے۔
فلسطینیوں کی اس حملے کا اگر مادی نقطہ نظر سے تجزیہ کیا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان جیالوں نے اپنے اندر سے موت کا ڈر نکال دیا۔ انہوں نے یہ طئے کر لیا کہ گھٹ گھٹ کر جینے سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ ایک ہی بار میں قصہ تمام ہو جائے۔ حملے سے قبل یہی بات حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہی کہ اب بہت ہو گیا، اب فیصلہ ہو ہی جانا چاہئے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنے کے لیے برسوں کی تیاری درکار ہوتی ہے اور فلسطینی عسکریت پسندوں کا حملہ اور پیش قدمی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ انہوں نے برسوں کی تیاری کی۔ اگر ایسا ہے تو ایسی صورت میں یہ تیاری ہی ان کی بڑی کامیابی بن جاتی ہے جب اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے مخبر اور ایجنٹ غزہ میں کثرت سے پھیلے ہوئے ہوں اور القسام بریگیڈ تک میں بھی موجود ہوں، اس کے باوجود اس تیاری کی اسرائیل کو کانوں کان خبر نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ مشیت بھی چاہتی تھی کہ غاصب و ظالم اسرائیل کو اس کے کرتوتوں کی سزا ملے۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کے اس حملے کو کچھ لوگ دہشت گردانہ کارروائی قرار دے رہے ہیں۔ انہیں میں ہمارے پردھان سیوک صاحب اور ان کے حواری بھی ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ پردھان سیوک کے اس اعلان کو سن کر بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے کی کہاوت یاد آ جاتی ہے۔ 6 اکتوبر کو جیسے ہی خبر آئی کہ فلسطین و اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہو گئی ہے، پردھان سیوک صاحب نے چھوٹتے ہی اسرائیل کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ گویا وہ اس بات کے منتظر تھے کہ کیسے نیتن یاہو سے اپنی قربت کا اظہار کر سکیں اور کس طرح مسلمانوں کے دشمن کی حمایت کے ذریعے ملک میں ووٹوں کے پولرائزیشن کی سیاست کر سکیں۔ پردھان سیوک کی اسرائیل کی حمایت کے بعد ایک ویڈیو بنا کر فلسطینیوں کی کارروائی کو دہشت گردی قرار دے دیا اور اس کے ذریعے ملک میں 2004 سے 2014 کے درمیان ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے لیے یو پی اے کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ گویا جنگ اسرائیل و فلسطین میں ہو رہی ہے، اور فائدہ اپنے وطن میں اٹھایا جا رہا ہے۔
لیکن اسرائیل کی حمایت کے ذریعے پردھان سیوک صاحب نے اپنے پیروں پر ہی کلہاڑی مار لی۔ اسرائیل کی جو حالت ہے وہی حالت چین کی ہے۔ اسرائیل فلسطین کی سرزمین پر مسلسل قبضہ کرتا جا رہا ہے اور چین ہماری زمینوں پر قبضہ کیے جاتا ہے۔ ایسے میں اگر وزیر اعظم اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ وہ چین کے اقدام کی بھی حمایت کر رہے ہیں۔ اس صورت میں تو وہ چین کو غاصب تک قرار نہیں دے سکیں گے۔ لیکن ہمارے پردھان سیوک صاحب کو غالباً اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کے نزدیک اسرائیل کی حمایت سے اگر مسلمانوں کی مخالفت کا پیغام بھکتوں میں جاتا ہے تویہ ان کے سیاسی ایجنڈے کے لیے کافی ہے۔ اس کے ذریعے اگر 2024 میں انہیں کامیابی مل جائے تو یہی بہت ہے، بعد کی بعد میں دیکھا جائے گا۔ وگرنہ ملک کی خارجہ پالیسی ہی نہیں خود بی جے پی کا بھی موقف ہمیشہ فلسطین کی حمایت کا رہا ہے۔ لیکن اب جبکہ ملک بدل چکا ہے اور بی جے پی بھی تبدیل ہو چکی ہے اور پردھان سیوک صاحب کا نعرہ بھی ’آپدا میں اوسر‘ کا ہے تو پھر اسرائیل و فلسطین کی جنگ کا سیاسی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پردھان سیوک کے ذریعہ اسرائیل کی حمایت کے اعلان کے بعد ایکس پر ’آئی اسٹینڈ وِد اسرائیل‘ کا ہیش ٹیگ چلنے لگا۔ اس میں تو کچھ ایسے بھکت بھی نظر آئے جن کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل جا کر فلسطینیوں سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ کمال کے ہیں یہ اندھ بھکت لوگ بھی، ان عقل کے اندھوں سے اگر یہ پوچھ لیا جائے کہ بھائی صاحب آپ تو اسرائیل جا کر لڑنے کے لیے تیار ہیں، بھلا یہ تو بتائیے کہ اسرائیل ہے کہاں اور یہ جو جنگ ہو رہی ہے وہ کیوں ہو رہی ہے تو یہ بیچارے بغلیں جھانکنے لگیں گے۔ ایسے لوگوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ اصل معاملہ کیا ہے، یہ کیوں ہو رہا ہے، حماس کون ہیں، اسرائیل کی فوجی طاقت کیا ہے۔ یہ لوگ ایکس پر ٹرینڈ چلا رہے ہیں کہ آئی اسٹینڈ ود اسرائیل، لیکن اگر ان سے اس جملے کا کیا مطلب ہے ہی پوچھ لیا جائے تو کچھ کی تو سیٹی ضرور بج جائے گی۔ ان بیچاروں کے لیے بس اتناہی کافی ہے کہ ان کے صاحب نے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا تو وہ بھی وہی کر رہے ہیں۔
ان لوگوں کو اس کا بھی اندازہ نہیں ہے کہ منی پور میں 4 مہینے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی کسی جنگ سے کم نہیں ہے۔ روایتی جنگیں دو ملکوں کے درمیان ہوتی ہیں لیکن یہاں تو ایک ہی ملک، ایک ہی ریاست میں رہنے والے لوگ آپس میں لڑ مر رہے ہیں۔ سینکڑوں لوگوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑی ہیں جبکہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان اندھ بھکتوں اور ان کے ’پتاشری‘ کو تھوڑا سا وقت نکال کر آگ میں جل رہی اس ریاست کے ساتھ بھی کھڑے ہو جانا چاہئے۔ کبھی آئی اسٹینڈ وِد منی پور کا بھی ہیش ٹیگ چلا دینا چاہئے۔ یہاں تو بڑے صاحب کو بس ایک بار منی پور جا کر لوگوں کو سمجھانا ہے، لیکن ان سے یہ بھی نہیں ہو پا رہا اور ہونا تو دور منی پور کا نام تک زبان پر لاتے ہوئے انہیں کھانسی آ جاری ہے۔ ایک بار مجبوراً منی پور کا نام زبان پر لانا پڑا تو پتہ چلا اس کے لیے راجستھان اور چھتیس گڑھ کے سہارے کی ضرورت پڑ گئی۔ اسرائیل تو اپنے ملک سے بہت دور ہے، وہاں جانے کے لیے ہزار روپئے خرچ کرنے پڑیں گے، لیکن منی پور تو اپنے ہی ملک کی ایک ریاست ہے، وہاں تو بہ آسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں سے لڑنے کے خواہشمند یہ ’بہادر لوگ‘ ہزاروں کلومیٹر دور اسرائیل کے ساتھ تو کھڑے ہو سکتے ہیں مگر اپنے ہی ملک کی جلتی ہوئی ایک ریاست کے لوگوں کے ساتھ نہیں کھڑے ہو سکتے۔ یہ ہے ان کی مردانگی اور یہ ہے ان کا سنسکار۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں سے لڑنے کے لیے امریکہ نے اپنے فوجی بیڑے بھیج دیے ہیں جو ظاہر ہے کہ خطے میں مزید خونریزی کا باعث ہوگا۔ لیکن ایسا کر کے امریکہ نے اپنی ان تمام کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے جس کے نتیجے میں عرب اسرائیل سے دوستی پر آمادہ ہو رہے تھے۔ سعودی عرب جس نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی آمادگی بھی ظاہر کر دی تھی، وہ بھی اب اپنا قدم پیچھے کھینچ لے گا، کیونکہ کوئی بھی ملک ہو اپنی عوام کی مرضی کے خلاف نہیں جائے گا۔ بھلے ہی سعودی کے حکمراں طبقے کا رجحان اسرائیل کی جانب ہو لیکن عوام کی اکثریت آج بھی فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ ایسی صورت میں جب نہتے فلسطینیوں نے اسرائیل کے چھکے چھڑا دیے ہیں، اسرائیل کی طاقت اور گھمنڈ پوری دنیا کے سامنے اجاگر ہو گئی ہے۔ اب اسلاموفوبیا کا شکار ہو کر بھلے ہی کوئی اسرائیل کی حمایت کرے، اس کی طاقت سے کوئی مرعوب نہیں ہوگا۔ اس جنگ نے یہ بتا دیا ہے کہ اسرائیل صرف اسی وقت شیر بنتا ہے جب اس کے سامنے کوئی کمزور ہو، لیکن جیسے ہی اسے اندازہ ہوتا ہے کہ سامنے والا موت سے نہیں ڈرتا ہے تو پھر وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ جنگ فلسطینی مسلمان اپنے حوصلے اور جنون سے لڑ رہے ہیں جو یہ ثابت کر رہا ہے کہ فلسطینی غلیل اسرائیلی ٹینک اور آئرن ڈوم پر بھاری پڑ رہے ہیں۔
(نوٹ: یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے، اس سے ’قومی آواز‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔