کرناٹک اسمبلی انتخاب: برسرعام فروخت ہو رہا ووٹرس کا ڈاٹا، کیا الیکشن کمیشن کے سروَر سے جانکاریاں ہو رہیں لیک!

کرناٹک میں انتخابی تشہیر اب آخری مراحل میں پہنچ گیا ہے، اسی دوران ایک این جی او نے جس طرح ہر ووٹر کی پوری تفصیلات اکٹھا کر لی ہیں وہ نہ صرف خطرناک اشارے ہیں بلکہ کچھ سوالات بھی کھڑے کیے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>کرناٹک الیکشن آفس</p></div>

کرناٹک الیکشن آفس

user

ناہید عطا اللہ

بنگلورو میں پولیس نے 24 اپریل کو ایک انتہائی غیر فطری ایف آئی آر درج کی، لیکن لگتا نہیں کہ اس معاملے میں آگے کی کوئی کارروائی ہوئی۔ اس ایف آئی آر کی کچھ توجہ طلب باتیں یہ ہیں:

  1. ایف آئی آر میں کرناٹک میں ہو رہے انتخاب میں ووٹرس کا ڈاٹا فروخت کرنے والی ایک کمپنی کے بارے میں جانکاری ہے۔

  2. ڈاٹا نے اس فارمیٹ کو کاپی کیا ہے جس میں انتخابی کمیشن ڈاٹا کو جمع کرتا ہے۔ اس سے یہ اندیشہ بڑھتا ہے کہ یہ کام کسی اندر تک گھسے آدمی کا ہے اور کمیشن میں ہی کسی قسم کی خامی ہے۔

  3. ایف آئی آر میں ایک کمپنی اور اس کی ویب سائٹ کا تذکرہ ہے۔ اس کے ڈومین نام کو اپریل 2023 میں ہی رجسٹر کیا گیا۔

کرناٹک کے ایک آزاد امیدوار نے ہی اس بارے میں تب جانکاری دی جب اس کمپنی نے اس کے انتخابی حلقہ میں سبھی ووٹروں کی تفصیلات اسے دینے کی تجویز پیش کی۔ ویسے بھی امیدوار ووٹرس کی جانکاری حاصل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور ووٹر لسٹ آن لائن بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ لیکن کمپنی نے اس امیدوار کو ووٹرس کی عمر، ان کے پیشہ اور پتہ سمیت تمام مردم شماری والی جانکاریاں دینے اور ووٹرس کے موبائل نمبر کے ساتھ ساتھ واٹس ایپ نمبر بھی دینے کی بات کہی تھی۔

پولیس نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے، لیکن دلچسپی اس بات کو لے کر ہے کہ کہیں انتخابی کمیشن کے بے حد محفوظ کہے جانے والے سروَرس میں ہی کوئی بڑی خامی تو نہیں ہے۔ جس امیدوار نے سب سے پہلے اس بارے میں شور مچایا، کمپنی نے رقم ادائیگی کے بعد انھیں ویب سائٹ کا لاگ اِن کوڈ دستیاب کرایا تھا۔ اس امیدوار سے یہ حاصل کر نیوز پورٹل ’دی نیوز منٹ‘ نے ڈومین مالک کا نام اور مختلف یو پی آئی اکاؤنٹ اور پرائیویٹ کمرشیل بینکوں کے لنک حاصل کر لیے۔


ممکن ہے کہ کمپنی کا استعمال ووٹرس کو ادائیگی کرنے کے لیے ایک راستے کے طور پر کیا جا رہا ہو۔ توجہ رہے کہ یو پی آئی ادائیگی کے ذریعہ اب فون پر لوگوں کو کچھ ہزار روپے دینا آسان ہے۔ ووٹرس کو لبھانے کے خیال سے نقد رقم دینے کے لیے روپے ڈھونے کا جوکھم اٹھانا اب بہت کم ہو گیا ہے۔

انتخابات میں مفت کا مال یا نقد اور سونا چاندی دینا عام رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 12 اپریل تک ہی انتخابی کمیشن نے ریاست میں 140 کروڑ روپے قیمت کی بغیر حساب کتاب والی نقدی، شراب اور سونے و چاندی برآمد کی تھیں۔ 2018 میں گزشتہ انتخاب کے دوران مثالی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے بعد اتنی ہی مدت کے مقابلے میں یہ چار گنا زیادہ ہے۔

یو پی آئی کے ذریعہ ادائیگی کا طریقہ اختیار کرنے سے ضبطی کو ٹالنا تو ممکن ہے، لیکن مختلف ایجنسیوں کے لیے اس کے سرے تک پہنچنا آسان ہے۔ لیکن اب جبکہ 10 مئی کو ہونے والی ووٹنگ کے لیے انتخابی مہم بالکل آخری مرحلہ میں ہے، ایف آئی آر پر پولیس یا انتخابی کمیشن نے کوئی کارروائی کی ہو، ایسا نہیں لگتا۔

انتخابی کمیشن نے یہ گورکھ دھندا سامنے لانے والے آزاد امیدوار کی شناخت صرف ’راجو‘ بتائی ہے۔ ’راجو‘ نے یہ بات تب سامنے رکھی جب انھیں کمپنی کی طرف سے فون آیا۔ انھوں نے ریاست میں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ کرنے کے لیے ذمہ دار افسر سے رابطہ کیا اور تفصیلات دیں۔ انھیں ویب سائٹ تک پہنچ بنانے کے لیے بتائی گئی ابتدائی رقم 25 ہزار روپے کی ادائیگی کر دینے کو کہا گیا۔ جو لاگ اِن کمپنی نے دستیاب کرایا، اس کی جانکاری thenewsminute.com سے شیئر کی گئی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے ویب سائٹ تک رسائی حاصل کی۔ اس لاگ اِن نے تقریباً تین اسمبلی حلقوں کے 6.50 لاکھ ووٹرس سے متعلق ڈاٹا دستیاب کرایا۔ یہ ممکن ہے کہ زیادہ انتخابی حلقوں کے اعداد و شمار حاصل کرنے کے لیے مزید رقم ادا کرنا ضروری ہو۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ ویب سائٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ رقم واپس کی جانے والی (یعنی ریفنڈیبل) رقم ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جب انتخاب کے اصول نرم ہو جائیں گے تو انتخاب ہار جانے والے لوگ اپنی جمع رقم کی واپسی کے لیے دعویٰ کر سکتے ہیں۔ اس میں یہ تک دعویٰ کیا گیا ہے کہ کمپنی کی خدمات میں جیت کی گارنٹی بھی شامل ہے۔ ویب سائٹ کے پہلے صفحہ میں ممکنہ گاہکوں کے ’یہ انتخاب جیتنے‘ کی بات کہی گئی ہے۔ صرف پوری جانچ ہی اس قسم کے دعووں کے پیچھے کا سچ سامنے لا سکتی ہے۔

حیرت انگیز طریقے سے ویب سائٹ میں ’ووٹنگ ڈے‘ کے لیے الگ ڈیش بورڈ ہے۔ اس میں مذہب، ذات، عمر اور جنس کی بنیاد پر ووٹرس کی تعداد اور تفصیلات کے علاوہ پولنگ مراکز، ڈالے گئے ووٹ کی تعداد اور نہ ڈالے گئے ووٹوں کی تفصیل دینے کی تجویز ہے۔ آخر کمپنی ووٹ کے دن ہی ہر پولنگ مرکز کا ڈاٹا اس قسم سے دستیاب کرانے کو لے کر کس طرح پراعتماد ہے؟

پولیس کے پاس کمپنی کے مالکوں کے نام اور فون نمبر ہیں، پھر بھی پولیس اب تک ان کی تلاش نہیں کر پائی ہے۔ یہ بھی نہیں پتہ کہ اس قسم کی کتنی کمپنیاں اس طرح کا کام کر رہی ہیں یا انتخابی میدان مین کھڑے تقریباً 3000 امیدواروں میں سے کتنے اسے آزما رہے ہیں اور کتنی قیمت پر!

بنگلورو میں انتخابی کمیشن کے افسر کسی اندر کے آدمی کے ’ووٹرس ڈاٹا گھوٹالہ‘ میں ہاتھ ہونے کا امکان مانتے ہیں۔ ’دی نیوز منٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ امکان اس لیے بھی ہے کہ ’جس قسم کے اعداد و شمار فروخت کیے جا رہے ہیں، ان کا فارمیٹ انتخابی کمیشن کے سرکاری پورٹل-ایرونیٹ میں اسٹور کیے گئے ڈاٹا کی طرح ہے‘۔ ایرونیٹ ان درخواستوں کو جمع کرتا ہے جو ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے لوگ داخل کرتے ہیں۔ اس فارم میں پتہ وغیرہ کے علاوہ فون نمبر اور کنبہ کے دیگر اراکین کی تفصیل ہوتی ہے۔ ایرونیٹ کے اعداد و شمار 13 کالم میں ہوتے ہیں، جب کہ اعداد و شمار فروخت کرنے والی کمپنی نے ایرونیٹ سے پہلے 8 کالم کی صاف طور پر نقل کی ہے۔ کمیشن کے ایک افسر نے ’دی نیوز منٹ‘ سے کہا کہ ’’یہ اسی طرح ہے جیسے کسی نے ایکسیل شیٹ پر ہمارے اعداد و شمار کو کاپی پیسٹ کیا ہو۔‘‘


کمپنی کی ویب سائٹ میں اعداد و شمار 12 کالم میں ہیں اور ان میں الیکشن فوٹو شناختی کارڈ (ایپک) نمبر، اپنا نام اور پتہ میں تبدیلی کے لیے درج ووٹر پارٹ نمبر، سیریل نمبر، کنبہ میں دیگر ووٹرس کے نام، فون نمبر جس پر فون کیا جا سکتا ہے یا ایس ایم ایس یا واٹس ایپ کیا جا سکتا ہے- مطلب فون نمبر چھوڑ کر وہ سبھی اطلاعات ہیں جنھیں انتخابی کمیشن دستیاب کراتا ہے۔ اگر کمیشن کا نیٹورک اتنا کمزور ہے اور سروَر میں سیندھ لگائی جا سکتی ہے، یا اسے ہیک کیا جا سکتا ہے، تو کیا کمیشن کے دیگر ڈاٹا محفوظ ہیں؟

’دی نیوز منٹ‘ کے پرنسپل ایڈیٹر دھنیا راجندرن نے اس نامہ نگار سے بات چیت میں کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے آنے والے دنوں میں اسی طرح ڈاٹا اور ٹیکنالوجی (کی مدد) سے انتخابی عمل کا (تیزی سے) غلط استعمال کیا جائے گا۔ یہ نئے وقت کی ووٹر دھوکہ بازی ہے۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ دی نیوز منٹ میں وہ اور ان کی ٹیم ویب سائٹ سے جڑے کئی یو پی آئی آئی ڈی اور ایچ ڈی ایف سی، آئی سی آئی سی آئی اور ایکسس بینک کے کئی بینک اکاؤنٹ پا کر حیران رہ گئی۔ یہ سبھی ایک ہی آدمی کے نام پر تھے۔ انھوں نے بتایا کہ دی نیوز منٹ نے نام کا انکشاف نہیں کیا کیونکہ ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور اس کے مالک کی تلاش اب بھی کی جانی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں اسے چھپانا بہتر لگا کیونکہ پولیس اب بھی اس کی جانچ کر رہی ہے۔‘‘

دی نیوز منٹ نے گزشتہ سال نومبر میں بھی تحقیقات کی تھی کہ برہت بنگلورو مہانگر پالیکا (بی بی ایم پی) نے ایک این جی او کے ’کارکنان‘ کو بوتھ سطح کے افسر کی طرح پیش آنے کے لیے کس طرح جعلی شناختی کارڈ جاری کیے تھے۔ این جی او نے ووٹر بیداری اور تنظیمی ووٹر ایجوکیشن و انتخاب میں شراکت داری کے تحت ووٹر لسٹ ریویو میں مدد کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس سلسلے میں تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا جو ابھی ضمانت پر ہیں۔ نہ تو کسی نے پوچھا اور نہ کسی نے جواب دیا کہ این جی او کس سیاسی پارٹی سے ملحق ہے یا کیا بی بی ایم پی نے بی بی ایم پی اور انتخاب کمیشن دونوں کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے این جی او کو کہا تھا۔

این جی او- چلومے ایجوکیشنل کلچرل اینڈ رورل ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کو انتخابی کمیشن نے اس کام میں لگایا تھا، حالانکہ اس کے پروموٹر ڈی اے پی ہامبالے کمپنی کے بھی پروموٹر ہیں جس نے ’انتخابی اور سیاسی مینجمنٹ‘ میں شامل ہونے کی بات نہیں چھپائی ہے۔ جعلی ’بی ایل او‘ نے ووٹرس سے آدھار اور فون نمبر کے علاوہ ان کی ذات، جنس، ازدواجی حالت، پتہ، مادری زبان اور پیشہ کی تفصیلات حاصل کیں۔


دی نیوز منٹ کی تحقیقات میں سامنے آیا کہ اس تنظیم نے ’ڈیجیٹل تجزیہ‘ ووٹر سروے ایپ کا استعمال کیا۔ گروڑ اور ووٹر ہیلپ لائن- مثلاً انتخابی کمیشن کے ووٹر رجسٹریشن درخواستوں کو لے کر لوگوں کو تربیت یافتہ کرنے کی جگہ این جی او کے فیلڈ ورکرس نے ووٹرس کی پوری تفصیل ڈیجیٹل ریویو پر اَپلوڈ کر دیا۔ اس کا سروَر بیرون ملک میں ہے۔

بنگلورو ریجنل کمشنر املن آدتیہ بسواس نے 7 فروری 2023 کو داخل اپنی جانچ رپورٹ میں سفارش کی کہ ووٹرس سے متعلق اعداد و شمار کو اکٹھا کرنے کا کام صرف بااختیار بی ایل او کو دیا جانا چاہیے اور ڈاٹا کا اسٹوریج صرف ہندوستانی سروَرس پر ہونا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔