روہنگیا معاملہ: مسلمان حکومت کے کھیل کا حصہ تو نہیں بن رہے ہیں؟

Getty Images
Getty Images
user

م. افضل

آج کی تاریخ میں اگر دیکھاجائے تو روہنگیا مسلمان دنیا کی مظلوم ترین قوم ہیں۔ اس لئے نہیں کہ انہیں اپنے ملک سے ’دربدر‘ ہونے پر مجبور ہونا پڑا ہے اور اب وہ ہندوستان وبنگلہ دیش سمیت دوسرے کئی ملکوں میں ایک ’’پناہ گزین‘‘ کی حیثیت سے جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بلکہ وہ دہائیوں سے جس ملک میں رہ رہے تھے اب قانونی طور پر وہاں کے شہری بھی نہیں رہے کیونکہ 1962 میں جب برما اور آج کے میانمار کے اقتدار پر فوج نے قبضہ کیا اور جنرل نے ون وہاں کا مطلق العنان حکمراں بنا تو چند برس بعد ہی اس نے ’رخائن‘ میں آباد لاکھوں مسلمانوں کی شہریت ختم کردی تھی۔

اس کے بعد یہ ہواکہ ان کے تمام حقوق چھین لئے گئے، سرکاری نوکریوں میں ان کی بھرتی پر پابندی عائد کردی گئی، یہاں تک کہ سرکاری اسکولوں میں ان کے بچے تعلیم بھی نہیں حاصل کرسکتے تھے۔ اس ظالمانہ رویہ کے خلاف مسلمانوں نے جب جمہوری طریقہ سے آواز اٹھانی شروع کی تو ان پر فوجی مظالم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 1987 میں پہلی بار برمی فوج کے ہاتھوں مسلمانوں کا بڑے پیمانہ پر قتل ہوا، تب سے لے کر اب تک وہ کسی نہ کسی صورت فوج کے عتاب کا شکار ہیں اور اب تو وہاں کی 90فیصد بودھ آبادی بھی ان کی دشمن بن چکی ہے۔ فوج کے مظالم سے تنگ آکر وہاں ایک مسلح مزاحمتی تحریک بھی شروع ہوئی۔ جس کا نام ’’حرکت الیقین‘‘ ہے۔ یہ ’’تنظیم‘‘ فوج کو ہی اپنا نشانہ بناتی ہے۔ عام شہریوں کو کبھی اس نے اپنا نشانہ نہیں بنایا اس مسلح مزاحمتی تحریک کو وہاں کی حکومت نے دہشت گردی سے جوڑ دیا چنانچہ اب اسے ایک دہشت گرد تنظیم کے نام سے ہی جانا جاتا ہے اور اس کے رشتے القاعدہ اور اس جیسی دوسری دہشت گرد تنظیموں سے بھی جوڑ دیئے گئے ہیں۔



روہنگیا معاملہ: مسلمان حکومت کے کھیل کا حصہ تو نہیں بن رہے ہیں؟

روہنگیائی مسلمانوں پر فوج کا تازہ عتاب گزشتہ 25اگست کو فوج پر ہوئے ایک بڑے حملہ کے بعد شروع ہوا، جس میں برمی فوج کے 90 جوان مارے گئے تھے۔ اس میں کس حد تک صداقت ہے کہا نہیں جاسکتا کیونکہ میڈیا میں یہ خبر فوجی ذرائع کے حوالہ سے ہی مشتہر ہوئی تھی۔ کسی بین الاقوامی ادارے نے اس کی تصدیق نہیں کی۔

بہرحال اس واقعہ کے بعد سے فوج کی جوابی کارروائی بدستور جاری ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے جن میں خواتین، بزرگ اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کی تصدیق کرچکی ہیں۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں وہاں سے جان بچا کر دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 4لاکھ سے زائد لوگوں نے تو بنگلہ دیش میں ہی پناہ لے رکھی ہے، ان میں ’ہندو‘ پناہ گزین بھی ہیں۔ ہندوستان میں جو روہنگیائی پناہ گزین ہیں ان کی تعداد 40 ہزار کے قریب ہے اور وہ یہاں تین چار سالوں سے مقیم ہیں مگر اب انہیں ’ملک بدر‘ کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ سرکار کی نظر میں روہنگیائی شہری ’پناہ گزین‘ نہیں بلکہ غیر قانونی طورپر یہاں رہ رہے ہیں۔ انہیں پناہ گزین کی حیثیت دینے کے تعلق سے ایک عرضی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ عدالت کے استفسار پر سرکار کی طرف سے جو حلف نامہ داخل کیاگیا ہے اس میں روہنگیائی شہریوں کو ملک کی سیکورٹی کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دیاگیا ہے۔

عدالت کا فیصلہ ابھی نہیں آیا ہے لیکن ان روہنگیائی شہریوں کی حمایت میں مسلمان اور مسلم تنظیمیں نہ صرف دہلی بلکہ ملک کے تمام شہروں اور قصبات میں بھی احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں، ملک کا انصاف پسند طبقہ بھی، ان کی حمایت کررہا ہے اور اس بات کی بھی کہ انسانی بنیاد پر روہنگیائی مسلمانوں کو سرکار ’’پناہ‘‘ دے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں یہ مسئلہ چھایا ہوا ہے، ٹی وی چینلوں پر اشتعال انگیز بحثیں بھی ہورہی ہیں۔ سرکار کی طرف سے مسلسل بیانات دیے جارہے ہیں، اس طرح اس مسئلہ کو ایک ’قومی مسئلہ‘ بنادیا گیا ہے۔ ہمارا ذاتی طور پر ماننا ہے (ہوسکتا ہے کچھ لوگ اتفاق نہ کریں) کہ مسلمانوں کا یہ سرکار کے خلاف غصہ ہے جو روہنگیائی مسلمانوں کو لے کر سامنے آیا ہے اور وہ سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے غور کیاکہ اس طرح کا احتجاج کرکے ہم نادانستہ طورپر انسانی مسئلہ کو ایک ’’فرقہ وارانہ‘‘ شکل بھی دیتے جارہے ہیں اور ایسا کرکے سرکار کے اس ’کھیل‘ کا حصہ بھی بنتے جارہے ہیں کہ جس کے لئے اس نے اس ’اشو‘ کو ہوادی۔ اگر حالات اور واقعات کا باریک بینی سے تجزیہ کریں تو یہ سچائی بہرحال اجاگر ہوجاتی ہے کہ سرکار اس انسانی مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتی تھی اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہے، اب جہاں روہنگیائی شہریوں کی حمایت میں احتجاج ہورہے ہیں وہیں ان کی مخالفت میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔مظلوموں اور بے سہاروں کو پناہ دینا تو ہندوستان کی قدیم روایت رہی ہے۔ ہمارے یہاں سری لنکائی، تبتی بودھ اور چکما شہریوں کی شکل میں دہائیوں سے لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزین موجود ہیں اور سرکار ان کی مالی مدد بھی کررہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 107 فوجی کیمپوں میں موجود ایک لاکھ سے زائد سری لنکائی پناہ گزینوں کو موجودہ سرکار 2014 سے اب تک 150کروڑ روپے اور 45 کیمپوں میں مقیم 11لاکھ تبتی پناہ گزینوں کو 18کروڑ روپے کی مدد فراہم کرچکی ہے۔ تبتی شہریوں کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اپنا کاروبار کرسکتے ہیں اور غیرسرکاری کمپنیوں میں ملازمت بھی۔ ملک میں ’چکما‘ پناہ گزیں بھی ہیں جنہیں عدالت نے شہریت تک دینے کا حکم دے چکی ہے اس کے برعکس روہنگیائی پناہ گزینوں کو کسی طرح کی کوئی سرکاری مراعت حاصل نہیں ہے۔ وہ انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزاررہے ہیں۔ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں اور ملی اداروں سے وقت وقت پر انہیں جو مدد فراہم کی جاتی ہے اس پر ہی وہ گزارہ کررہے ہیں۔

چنانچہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سرکار پر بوجھ نہیں ہیں۔اب ایسی حالت میں کہ جب میانمار میں ان کا قتل عام ہورہاہے اور فوج کے ساتھ ساتھ وہاں کی غالب بودھ آبادی، ان کی جان کی دشمن بن چکی ہے، انہیں ملک سے باہر نکالنے کی منصوبہ بندی اس بات کا اشارہ ہے کہ سرکار اس انسانی مسئلہ کو فرقہ وارانہ نظر سے دیکھتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان نے عالمی انسانی حقوق کے معاہدہ پر دستخط نہیں کئے ہیں۔ لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ انسانی حقوق کے معاملے میں وہ آزاد ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں ایک شق یہ بھی شامل ہے کہ کوئی بھی شہری اس حالت میں ہوکہ جب اسے اپنے ملک میں جان کا خطرہ لاحق ہو،تو ان پناہ گزینوں کو اپنے ملک سے نکال نہیں سکتا۔ ایسے میں اگر کوئی ملک اس ہدایت کو نظرانداز کرکے اس کے برعکس کوئی قدم اٹھاتا ہے تو بین الاقوامی سطح پر نہ صرف اسے مذمت اور مزاحمت کا سامنا ہوسکتا ہے بلکہ اس کی امیج پر بھی منفی اثر پڑسکتا ہے۔ اسی دوران سوامی اگنی ویش جی کا ایک اہم بیان سامنے آیاہے جس میں انہوں نے کہاہے کہ اگر روہنگیائی مسلمانوں کو جبراً بھیجا جاتاہے اور وہاں کسی ایک شہری کا بھی قتل ہوتاہے تودنیا میں ہندوستان کی ناک کٹ جائے گی۔

اب اگر اس کے بعد بھی ایک زبان میں سرکار کی طرف سے انہیں ملک بدر کرنے کی بات کہی جارہی ہے تو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ایسا کرنے کے پیچھے ان کا اصل مقصد کیا ہے؟ میانمار کی فوج نے وہاں ایک اجتماعی قبر دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ یہ ان میں 92ہندوؤں کی لاشیں ہیں جنہیں مسلم شدت پسندوں نے قتل کیا ہے۔ ہوسکتا ہے فوج کا یہ دعویٰ غلط ہو اور اس نے عالمی برادری کو دھوکہ دینے کے لئے یہ دعویٰ کیا ہو، لیکن یہ خبر بھی مشتہر ہوچکی ہے۔ چند روز قبل ’انڈین میل‘ نامی ایک انگریزی اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی کہ بنگلہ دیش میں پناہ گزین ایک ہندو خاتون کا جبراً مذہب تبدیل کرانے کی کوشش ہورہی ہے۔ حالانکہ اس رپورٹ کی بھی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ لیکن اس سے بہرحال یہ سمجھاجاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ کس قدر حساس ہے اور اسے سرکار اور میڈیا دونوں مل کر کس طرح فرقہ وارانہ بنانے کی سازش کررہے ہیں۔

حال ہی میں بی جے پی کے ایک ممبرپارلیمنٹ ورون گاندھی کا ایک مضمون کچھ اخباروں میں شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے صرف یہ لکھا ہے کہ روہنگیائی شہریوں کو پناہ نہ دینا ہندوستان کی قدیم روایت کے خلاف ہے، اس پر پوری بی جے پی قیادت نہ صرف چراغ پا ہو اٹھی ہے بلکہ ان کی حب الوطنی پر بھی سوال کھڑا کیا جارہا ہے۔ ایسے میں جگہ جگہ مسلمان، جس طرح کا احتجاج کررہے ہیں حکومت اس کو کس نظر سے دیکھتی ہوگی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ روہنگیائی شہریوں کو پناہ دینا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ باعزت طریقہ سے ان کی ’وطن واپسی‘ ہو اور وہاں ان کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے۔ اس لئے احتجاج کی جگہ حکومت سے ہمارا مطالبہ یہ ہونا چاہئے کہ سرکاراپنے اثرورسوخ کا استعمال کرکے خطہ میں پائیدار امن کی خاطر میانمار سرکار سے نہ صرف بات کرے بلکہ اس پر دباؤ بھی ڈالے کہ وہ نہ صرف اپنے شہریوں کو واپس لے بلکہ انہیں ’شہریت‘ بھی دے۔ ہندوستان ایسا کرسکتا ہے کیونکہ وہ مشرقی ایشیا کا ایک طاقتور ملک ہے۔ لیکن اس کی جگہ مودی سرکار اس انسانی مسئلہ کو ہندو مسلم مسئلہ بنانے پر تلی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایساکرکے وہ فرقہ وارانہ صف بندی قائم کرنے کی کوشش بھی کررہی ہے تاکہ قوم پرستی کے شور میں اپنی تمام ناکامیوں پر پردہ ڈالے رکھے اور اس صف بندی کا بھرپور سیاسی فائدہ بھی حاصل کرسکے اور ہم دانستہ ونادانستہ طورپر سڑکوں پر احتجاج اور اپنے غم وغصے کا اظہار کرکے اس کے اس کھیل کو آسان بنانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔