ترنگے کی توہین روکی جائے

خود ساختہ قوم پرستوں کے ہاتھوں ریپ اور قتل کے مجرموں کی حمایت میں قومی پرچم لے کر یاترا نکالنا اور قتل کے ملزم کی موت پر اس کے جسد خاکی پر ترنگا ڈالنا یہ صرف بی جے پی کی حکومت میں ہی ممکن ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

خود ساختہ راشٹروادی یعنی قوم پرستوں کے ہاتھوں آٹھ سالہ بچی کے ریپ اور قتل کے مجرموں کی حمایت میں قومی پرچم یعنی ترنگا جھنڈا لے کر یاترا نکالنا یا قتل کے ملزم کی موت پر اس کے جسد خاکی پر ترنگا ڈالنا یہ صرف بی جے پی کی حکومت میں ہی ممکن ہے۔

گزشتہ دنوں جموں وکشمیر کے کشتوارڑعلاقہ میں کچھ درندہ صفت لوگوں نے آٹھ سال کی ایک بچی کے ساتھ منہ کالا کیا اور بعد میں اسے قتل بھی کر دیا ، پولس نے اس سلسلہ میں چند لوگوں کو گرفتار کیا ، جو بی جے پی یا اس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ بتائے جاتے ہیں ، مظاہرین کا الزام ہے کہ پولس نے ان لوگوں کو غلط طریقے سے گرفتار کیا ، جن کی رہائی کے لئے ان لوگوں نے قومی پرچم کے ساتھ مظاہرہ کیا ۔

ہندوتو وادی تنظیموں کا یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ ملزم اگر غیر مسلم ہے تو اس نے چاہے جتنا بڑا سنگین جرم کیا ہو اس کی نہ صرف حمایت کرتی ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں، یہی کچھ اس معاملہ میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے ، بجائے اس کے کہ اس سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف غم و غصّہ کا اظہار کیا جاتا ، انھیں پارٹی سے نکال باہر کیا جاتا اور قانون کو اپنا کام کرنے دیا جاتا ، شر پسند ، فرقہ پرست عناصر ان کی حمایت میں سڑکوں پر اتر کر ہنگامہ شروع کر دیتے ہیں اور انتظامیہ پر اپنے سیاسی اثرات کا استعمال کرتے ہوئے ان مجرموں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں ، جس میں وہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں ۔

اس کا سب سے شرمناک پہلو راجستھان میں دیکھنے کو ملا تھا جہاں ریگر نام کے ایک فر قہ پرست جنونی نے بنگال سے آئے ایک مزدور افروزل کو بہت ہی بہیمانہ طریقہ سے کلہاڑی سے حملہ کر کے مار ڈالا ، اس کے بعد ادھ مرے افروزل کو زندہ جلادیا اور اس پورے واقعے کی ویڈیو بھی بنا ئی جسے بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل بھی کر دیا۔ پولس نے جب اسے گرفتار کر کے ریمانڈ پر لینے کے لئے عدالت میں پیش کیا تو وہاں سنگھ پریوار کی مختلف ذیلی تنظیموں سے وابستہ سیکڑوں لوگ پہنچ گئے ، عدالت پر ایک طریقه سے قبضہ کر لیا۔ اس پر لہرا رہا ترنگا اتار کر اس پر بھگوا جھنڈا لہرا دیا تھا ۔ موقعہ پر موجود پولس فورس خاموش تماشائی بنی رہی، بعد میں پولس نے ویڈیو فوٹج کے ذریعہ کچھ لوگوں کی شناخت کر کے ان کو گرفتار کرنے کیرسم ادا کر دی ، جو کہ بعد میں چھوٹ بھی گئے ہونگے ۔

اسی راجستھان میں پہلو خان نامی ایک ڈیری کسان کو گئو اسمگلنگ کے الزام میں پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جاتا ہے ، حالانکہ وہ جے پور کی سرکاری مویشی بازار سے پکی رسید پر گائے خرید کر لے جا رہا تھا لیکن نام نہاد گئو رکشکوں نے اسے راستے میں روک کر پیٹ پیٹ کر مار ڈالا ، اس معاملہ میں گرفتار کے گئے لڑکوں کو ایک سنگھی خاتون نے شہید اعظم بھگت سنگھ کا خطاب بھی دے دیا تھا ۔ یہ مقدمہ راجستھان سرکار کی ایماء پر بے حد کمزور کر دیا گیا ہے، مبینہ طور سےملزموں کو جیل میں وی وی آئی پی سہولیات ملی ہوئی ہیں ، ظاہر سی بات ہے کہ ان سب باتوں سے ان کو ایسےہی اور جرم کرنے کا حوصلہ ملےگا ۔

اتر پردیش کے دادری میں اخلاق نامی ایک شخص کو بیف رکھنے کے شبہ میں پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا تھا اس سلسلہ میں گرفتار کیے گئے کئی لوگوں میں سے ایک نوجوان جو پہلے سے ہی بیمار تھا اس کی جیل میں طبیعت خراب ہونے کے بعد اسپتال میں بھرتی کرایا گیا جہاں اس کی موت ہو گئی ، اس کے جسد خاکی کو ترنگے میں لپیٹ کر آخری رسوم کے لئے لے جایا گیا۔ اس کے بعد ہندوتو ادی تنظیموں نے ایک طوفان کھڑا کر کے اس کے ورثا کو بھی اتنا ہی معاوضہ دلوایا جتنا اخلاق کے پسماندگان کو دیا گیا تھا یعنی ظالم اور مظلوم میں کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ اس کے لئے دباؤ آر ایس ایس سے وابستہ ذیلی تنظیموں نے بنایا تھا ۔اس معاملہ میں سب سے زیادہ قابل اعتراض عمل یہ تھا کہ ملزم کے جسد خاکی کو قومی ترنگے میں لپیٹا گیا، لیکن کسی نے بھی اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا ۔ جبکہ یہ واقعہ اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے دور حکومت میں پیش آیا تھا۔

خود وزیر اعظم نریندر مودی نے عالمی یوم یوگا کے موقعہ پر ترنگے والے گمچھے سےاپنے چہرے کا پسینہ پونچھ کر قومی پرچم کے سلسلہ میں کوئی اچّھا پیغام نہیں دیا تھا۔ اگر یہی حرکت کسی غیر بی جے پی وزیر اعظم نے کی ہوتی تو بی جے پی اس پر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ، ٹیلی ویژن پر کان پھوڑ دینے والی بحث شروع ہو جاتیں اور ملک میں ایک طوفان کھڑا کر دیا جاتا ، اب اسے اپوزیشن کی بردباری کہیے یا کمزوری وہ ایسے معاملات کو سیاسی ایشو نہیں بنا پاتی۔

اسی کے ساتھ ایک نیا رجحان یہ بھی ہے کہ معمولی معمولی واقعات اور موقوں پر ترنگا یاترا نکالی جاتی ہے جس میں ایک فرد کے پاس ترنگا جھنڈا تو باقی سبھی کے ہاتھوں میں بھگوا جھنڈا ہوتا ہے ، شہر کی سڑکوں کو بھگوا جھنڈوں سے بھر دیا جاتا ہے۔ دار اصل یہ ایک سوچی سمجھی طویل مدتی حکمت عملی کا حصّہ ہے یعنی عوام میں بھگوا جھنڈے کو مقبول اور قابل قبول بنانا ہے، ان یاتراؤں اور پروگراموں کو ہنگامہ آرائی اور فساد کرانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ابھی حال ہی میں اتر پردیش کے کاس گنج شہر میں کیا گیا ۔ایک سینئر آئی اے ایس افسر نے جب اس رجحان کے خلاف سوشل میڈیا میں کچھ لکھا تو اس کے خلاف ریاستی حکومت کارروائی کر رہی ہے ۔

سماج میں تفریق پیدا کرنے کے لئے سنگھ پریوار سے وابستہ نوجوان ترنگے اور بھگوا جھنڈوں کا آزادی سے استعمال کر رہے ہیں اور انتظامیہ کی اوقات نہیں ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے۔ قوم کو ایک دھاگے میں سمیٹے ترنگے کو اب قوم میں انتشار اور پھوٹ ڈالنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔یہ حرکت ان عناصر کے ذریعہ کی جا رہی جن کے سیاسی ابا ؤ اجدا نے ہمیشہ ترنگے کی مخالفت کی ہے، جن کے جلسوں میں کبھی ترنگے کی پرچم کشائی نہیں ہوئی اور جنہوں نے ناگپور میں واقع دفتر پر ترنگا پھہرانے کی مانگ کرنے والوں کو گیارہ برس تک عدالتوں کے چکّر لگوائے تھے ، جن لوگوں نے ترنگے کو منحوس قرار دیتے ہوئے بھگوا کو قومی پرچم بنانے کی مہم چلائی تھی اور اب جب انھیں اقتدار حاصل ہو گیا ہے تو وہ ترنگے کا ہر ممکن طریقے سے غلط استعمال کر کے بھگوا کو سربلند کرنے کی مہم چلا رہے ہیں ۔

واضح ہو کہ قومی پرچم کے استعمال کے سلسلہ میں واضح گائیڈ لائنز موجود ہیں اور اس کے غلط اور توہین آمیز استعمال پر تین سال تک کی سزا اور جرمانہ کا قانون ہے ۔ پہلے تو ہر کس و ناکس قومی پرچم کولہرا بھی نہیں سکتا تھا کسی قسم کے غلط اور غیر قانونی استعمال کا سوال ہی نہیں تھا۔ لیکن کانگریس کے نوجوان لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ رہے نوین جندل نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی کے ذریعہ یہ حکم حاصل کر لیا تھا کہ عام آدمی بھی قومی پرچم لہرا سکتا ہے ۔ یقینی طور سے نویں جندل نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ایک دن قومی پرچم کا ایسا بے جا اور توہین آمیز استعمال بھی ہوگا۔

ضرورت ہے کہ سپریم کورٹ ان تمام واقعات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ترنگے کے ایسے بے جااور توہین آمیز استعمال کو روکنے کے لئے نئی گائیڈ لائنز جاری کرے اور ترنگا یاترا کے نام پر بھگوا یاترا نکالنے پر سخت پابندی لگائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔