اندریش کا دورۂ دارالعلوم، سنگھ نے اپنی چال چل دی ہے اب جوابی چال کا ہے انتظار

دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان سنگھ کی اس چال کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں یا پھر اپنی مات کو یقینی بنانےکے لئے مخالف کی چال میں پھنس جاتے ہیں۔ ملک سے اگر اپوزیشن ختم ہوجاتی ہے توجمہوریت ایک خوفناک غار ثابت ہوگی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

مکمل اکثریت کے ساتھ بی جے پی کے دوبارہ اقتدار سنبھالتے ہی آر ایس ایس نے اپنے دو اہم مہروں کو آگے بڑھا دیا ہے اور اب انتظار اس بات کا ہے کہ مخالف ان چالوں کا جواب کس چال سے دیتا ہے۔ پہلے آر ایس ایس نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ میں ’سب کا وشواس‘ جوڑ کر پہلے اپنی چال چلی اور بعد میں تنظیم میں مسلم مسائل کے انچارج اور راشٹریہ مسلم منچ کے صدر اندریش کمار کو دارالعلوم دیوبند میں بھیج کر اپنی دوسری چال چلی۔ اندریش کمار کی دارالعلوم کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم سے ملاقات کیا ہوئی اس پر زبردست بحث شروع ہو گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا کے بعد دیگر ذرائع سے بھی اس ملاقات پر منفی اور مثبت تبصرے موصول ہونے لگے۔

دیوبند کے دانشوران کی اگر بات کی جائے تو ان میں واضح طور پر تقسیم صاف نظر آئی۔ کچھ دانشوروں کا ماننا ہے کہ سنگھ کے کسی بھی قدم کو مسلم دوستی سے تو تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اندریش کمار کی دارالعلوم میں آمد چاہے اتفاقیہ ہی کیوں نہ ہو، لیکن اسے کیش کرنے کی ضرور ت ہے۔ اس سلسلہ میں یوپی رابطہ کمیٹی کے سکریٹری ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے کہا کہ اندریش کمار کی دیوبند دارالعلوم میں مدعو یا غیر مدعوآمد کے حوالے سے مختلف الجہات بحثوں کا بازار گرم ہے۔ سوشل میڈیا پر چمپئن حضرات اس کو اپنی اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور اپنی بات کے حق میں مضبوط ترین دلائل پیش کر رہے ہیں۔


صحیح بات یہ ہے کہ اس وقت برادران وطن کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی جو بھی راہیں فراہم ہو سکتی ہوں انہیں اختیار کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر عبید اقبال نے کہا کہ’’ ایک صحافی نے اپنی یہ تحقیق پیش کی ہے کہ اندریش دارالعلوم میں خود سے نہیں آئے بلکہ انہیں بلایا گیا۔ اگر فی الواقع ایسا ہوا بھی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس رائے میں وزن ہے کہ دیوبند کو ناگپور جانا چاہیے اور اگر اب موقع ملا ہے تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیوبند کو ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے تمام نمائندہ علماء کو متحدہ طور پر ناگپور کی طرف جاکر حالات حاضرہ پر سنجیدہ گفتگو کرنا چاہیے۔

ادارہ خدمت خلق کے بانی اور عالم تحریک کے سربراہ مولانا حسن الہاشمی نے کہا کہ ’’آر ایس ایس کے پرچارک اندریش کمار کا دارالعلوم پہنچنا کئی طرح کے شک وشبہات کے ساتھ سوالات پیدا کرتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے دروازے اگرچہ سب کے لئے کھلے ہیں لیکن ذمہ داران کو سواد اعظم کے جذبات واحساسات کا بھی خیال رکھنا چاہیے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ نظریاتی اختلافات کے باوجود اتحاد کی راہیں کھلی رکھنا خوش آئند ہے لیکن آر ایس ایس کا وہ شخص (اندریش کمار) جو ہمیشہ عملی طور پر بھی زک پہنچنانے کا ملزم ہو جس کے نام کے ساتھ بھگوا دہشت گردی کا عنوان قائم ہو اس کے استقبال کے لئے تیار رہنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔


بدر اکیڈمی کے ڈائریکٹر اور قانون داں ارشد علی خاں ایڈوکیٹ نے کہا کہ کل تک جو فکر مسلمانوں اور ان کے مدارس کے خلاف فضا کو زہر آلودہ کرنے میں مصروف تھی، زمامِ اقتدار سنبھالنے کے بعد شاید ان کی سمجھ میں آگیا کہ علمی سطح پر نفرت کی بنیاد پر نیک نامی حاصل نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی ملک کی تعمیر وترقی کو خاطر خواہ رفتار دی جاسکتی ہے۔

اس حقیقت سے کوئی چشم پوشی نہیں کر سکتا کہ آر ایس ایس اور اس کا سیاسی ونگ بی جے پی کبھی بھی مسلم دوست نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کے کیڈر کی زندگی کا مقصد جہاں ملک میں ہندو راشٹر قائم کرنا ہے وہیں ان کی مسلمانوں سے نفرت جگ ظاہر ہے۔ سنگھ کو معلوم ہے کہ اس کے خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی راہ میں جنوبی ہند کی ریاستیں اور ملک کے مسلمان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اس لئے بی جے پی اقتدار کی دوسری اننگ میں سنگھ کی توجہ ان دونوں میں سیندھ لگا کر ملک سے اپوزیشن نام کی چیز کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے۔ سنگھ نے اپوزیشن کو بے اثر کرنے کے لئے مسلمانوں میں تقسیم ڈالنے کی غرض سے اپنی چال چل دی ہے۔ وہ سنگھ جس نے اٹھتے بیٹھتے دارالعلوم کو دہشت گردی کا اڈا قرار دیا ہو وہ اگر اپنے پرچارک کو اس مبینہ دہشت گردی کے اڈے میں بھیجتا ہےتو پھر کوئی بھی ذی شعور اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ سنگھ یہ قدم بغیر کسی سازش کے نہیں اٹھا سکتا۔


مخالف نے اپنی چال چل دی ہے اب جوابی چال کا انتظار ہے، دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان سنگھ کی اس چال کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں یا پھر اپنی مات کو یقینی بنانے کے لئے مخالف کی چال میں پھنس جاتے ہیں۔ ملک سے اگر کسی بھی طرح کی اپوزیشن ختم ہو جاتی ہے تو یہ جمہوریت ایک ایسی خوفناک سرنگ ثابت ہو گی جس سے باہر آنے اور ملک کی ترقی کے تمام راستے بند ہو جائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Jun 2019, 9:10 AM