ہندوستانی معیشت اور جھوٹے دعوے

حکومت کا دعویٰ ہے کہ جی ایس ٹی سے مینوفیکچرنگ زمرہ میں تیزی آئی ہے اور عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہوا ہے، حالانکہ زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے، کوئی بھی کاروباری جی ایس ٹی سے خوش نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

اقتصادی محاذ پر متضاد صورت حال سامنے آ رہی ہے ایک طرف اس بات کا زور شور سے ڈنکا پیٹا جا رہا ہے کہ فرانس کو پچھاڑ کر ہندستان دنیا کی چھٹی سب سے بڑی معیشت بن گیا ۔ عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق 2017 میں ہندستان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) 2.597 کھرب ڈالڑ ہو گئی جب کہ فرانس کی جی ڈی پی 2.582 کھرب ڈالر ہے ۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہندستان دنیا کی سب سے تیز رفتارسے بڑھتی معیشت ہے دوسرے جی ایس ٹی جیسے دیگر اقدام سے یہاں تجارت کرنا آسان ہو گیا اور رینکنگ میں بھی ملک اوپر چلا گیا ہے ، حکومت تو یہ بھی دعویٰ کر رہی ہے کہ جی ایس ٹی سے مینوفیکچرنگ زمرہ میں تیزی آئی ہے اور عوام کی قوت خرید بڑھی ہے حالانکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی کاروباری جی ایس ٹی سے خوش نہیں، خاص کر چھوٹا اور متوسط کاروباری تو اس کی مار جھیل ہی نہیں پا رہا ہے، عوام کی قوت خرید میں اضافہ کا دعویٰ بھی حقیقت کی زمین پر کھوکھلا ثابت ہو رہا ہے ۔ادھر خوردہ مہنگائی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے اور صنعتی پیداوار کے اعداد و شمار کوئی تسلی بخش نہیں ہیں ، روزگار کے محاذ پر تو کچھ کہا ہی نہیں جا سکتا ۔

حکومت نے بڑی ہوشیاری سے بے روزگاری کے اعداد و شمار جاری نہ کرنے کا فیصلہ کر کے ملک کی سب سے تلخ حقیقت کو عوام سے چھپا تو لیا ہے لیکن حقیقت نہیں چھپائی جا سکتی بلکہ اسکا منفی پہلو یہ ہے کہ اس سے افواہوں کا بازار گرم ہوتا ہے، مثلاً اگر حقیقی بیروزگار ایک لاکھ ہیں تو انہیں دس لاکھ بتا کر بھی افواہ پھیلائی جا سکتی ہے جس سے ملک میں نہ صرف نہ امیدی پھیلے گی بلکہ اس سے سماجی اثرات بہت خراب ہو سکتے ہیں ، حکومت اپنی نا کامی پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک خطرناک سماجی برائی کی راہ ہموار کر رہی ہے۔

ادھر چند دنوں قبل شیئر بازار میں ایک دم آئے اچھال نے لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا ، گزشتہ بدھ کو سنسکس چار سو پوائنٹ اچھل کر36 ہزار 6 سو سے اوپر پہنچ گیا اور تھوڑا نیچے آ کر بھی ریکارڈ بلندی پر بند ہوا ۔نفٹی نے بھی تیزی دکھائی اور 11 ہزار کے اوپر پہنچ گیا ۔

ماہرین اس کی وجہ ایران سے تیل خریدنے کے معاملے کو لے کر بتا رہے ہیں، ہوا یہ کہ جب امریکہ نے ایران پر معاشی پابندی لگائی تو اس نے ہندستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ایران سے تیل نہ خریدے، جبکہ ہندستان کا ایرانی تیل پر انحصار دیگر ملکوں سے منگائے جانے والے تیل سے زیادہ ہے، حکومت ہند نے اس سلسلہ میں جب کوئی واضح موقف نہیں اختیار کیا تونئی دہلی میں ایران کے نائب سفیر نے بیان دیا کہ اگر ہندستان نے امریکہ کے دباؤ میں ایران سے تیل خریدنے میں تخفیف کی تو ایران ہندستان کو دی جانے والی خصوصی سہولیات بند کر دےگا۔ اس بیان کے آتے ہی تیل کمپنیوں کے شیئر گرنے لگے دوسرے دن ایرانی سفارت خانہ سے وضاحت آئی کہ ایران ، ہندستان کو تیل کی سپلائی مناسب طریقہ سے جاری رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ جس کا حصص بازار پر مثبت اثر پڑا اور شیئر بازارمیں اچھال دکھائی دیا۔ ادھر ڈالر کے مقابلہ ہندستانی روپیہ 69تک پہنچ گیا اور اب مستحکم ہو رہا ہے جو تادم تحریر 68.58پر ٹھرا ہواہے ، لیکن اگر بڑے کھلاڑیوں کو چھوڑ دیں تو چھوٹے کھلاڑیوں یا سرمایہ کاروں کے لئے یہ اتار چڑھاؤ کوئی خاص معنی نہیں رکھتے ۔

دوسری جانب تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہندستانی معیشت سائز میں ضرور بڑی ہوئی ہے لیکن عوام کو فی الحال کہیں سے کوئی راحت نہیں مل رہی ہے ، مثلاً یہ تو فخر کی بات ہے کی ہماری معیشت فرانس سے آگے نکل گئی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کی فرانس والوں کی فی کس آمدنی ہندستانیوں کے مقابلہ میں تقریبا 20 گنا زیادہ ہے۔

جب تک معیشت میں استحکام اور تیزی کا فائدہ عوام کو نہ ملے تب تک یہ اعداد و شمار کی جادوگری محض دانشورانہ مباحثہ کا موضوع ہی ہو سکتا ہے۔ ہندستانی کسانوں کی کیا حالت ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں بیروزگاری کا تذکرہ اوپر کیا ہی جا چکا ہے گزشتہ چند برسوں میں عوام کی آمدنی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو گیا ہے، دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے، ریلوے، بینکوں اور دیگر سرکاری اداروں کا وجود خطرہ میں آ گیا ہے جبکہ کچھ بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے صحت اور تعلیم جیسی بنیادی عوامی خدمات جو کسی بھی سرکار کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہیں وہ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا جا رہا ہے ، عوام کو مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا عوام کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق ہے ،عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا اور ان کا معیار زندگی بلند کرنا حکومت کا فرض ہے، ناکہ محض لالی پاپ دینا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔