آئینی اداروں کی خود مختاری، معتبریت اور غیر جانبداری محفوظ رکھنا لازمی

حکومت کی قوت ارادی اور آئینی اداروں کے ایماندارانہ احساس سے ہی ان اداروں کی دوبارہ ساکھ بحالی ممکن ہے، کیا اگلی حکومت اس پر سنجیدگی سے توجہ دے گی یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

آیندہ پارلیمانی الیکشن کے ممکنہ نتائج سے خوفزدہ مودی سرکار سیاسی مخالفین کے خلاف آئینی اداروں کا جس بےشرمی اور پھوہڑ پن کا مظاہرہ کر رہی ہے وہ بے مثال ہے اس کا سب سے گھناؤنا مظاہرہ کانگریس صدر راہل گاندھی کے بہنوئی رابرٹ واڈرا سے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور کولکاتا پولس کمشنر سے سی بی آئی کی پوچھ گچھ ہے۔ اس سلسلہ میں کانگریس صدر راہل گاندھی کا یہ بیان پوری تصویر صاف کر دیتا ہے کہ مودی جی واڈرا، چدمبرم یا جس کے خلاف جو بھی جانچ کرانی ہو کرا لیں، لیکن رافیل معاملہ میں بھی جواب دے دیں۔

صاف ظاہر ہے کہ بد عنوانی کے مبینہ معاملات میں ایک طرفہ جانچ اور کارروائی ہو رہی ہے جس سے حکومت کی بدنیتی اور ان محکموں کی غیر جانبداری اور معتبریت پر سوالیہ نشان کھڑے ہوتے ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ کئی برسوں سے دبے پڑے معاملات ٹھیک الیکشن سے قبل کیوں زور پکڑ رہے ہیں، مثلاً رابرٹ واڈرا کے خلاف معاملہ 2010 میں درج ہوا تھا، اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سابقہ حکومت میں ان کے سیاسی رسوخ کی وجہ سے ڈھائی تین سال تک جانچ نہیں ہوئی، لیکن مودی کے موجودہ دورحکومت میں جانچ کیوں نہیں کی گئی۔

اب جبکہ رابرٹ واڈرا کی اہلیہ اور کانگریس صدر راھل گاندھی کی بہن پرینکا گاندھی کو کانگریس پارٹی کا جنرل سکریٹری بنایا گیا اور ساتھ ہی بی جے پی کے لئے سیاسی طور سے سب سے اہم حلقہ مشرقی اترپردیش کا انچارج بننے کے بعد ہی یہ جانچ کیوں شروع ہوئی، جبکہ لندن کے جس فلیٹ کو بے نامی بتا کر محض ایک ای مل کی بنیاد پر جانچ کی جا رہی ہے، ’انڈیا ٹو ڈے‘ میگزین کی خبر کے مطابق وہ کسی انگریز کے نام درج ہے۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی یہ حرکت حکمت سے زیادہ محکمہ اور اس کے سربراہ کی بدنامی کا سبب بن رہی ہے، عوام انھیں بے ریڑھ کا سمجھ رہے ہیں جو اپنے سیاسی آقا کے اشارہ پر کام کر رہا ہے تاکہ ریٹائرمنٹ کے باد کوئی اچّھا عہدہ انہیں مل جائے۔

اسی طرح کبھی ملک کی ممتاز ترین ہی نہیں بلکہ معتبر ترین تفتیشی ایجنسی سمجھی جانے والی سی بی آئی کا اب تنازعوں سے جیسے چولی دامن کا ساتھ ہو گیا ہے، حالات یہاں تک بگڑ چکے ہیں کہ کئی ریاستی حکومتوں نے تو اپنے یہاں اس کے داخلہ پر ہی پابندی لگا دی ہے، چند برسوں پہلے سپریم کورٹ نے اسے پنجرے میں بند طوطا کہا تھا اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مرکز میں بر سر اقتدار پارٹی نے اس کا استعمال اپنے سیاسی مفاد کے لئے کیا اور سی بی آئی کے سربراہوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر کے حکمرانوں کے اشارے پر ناچنے میں ذرہ برابر بھی شرم و غیرت محسوس نہیں کی۔

بدقسمتی سے صرف سی بی آئی ہی نہیں قریب قریب سبھی جمہوری اور آئینی اداروں نے حکومت سے سمجھوتہ کر کے نہ صرف اپنی افادیت کھو دی ہے بلکہ جمہوریت کو آمریت یا انبوہ گردی میں تبدیل کرنے کا خطرناک کھیل شروع کر دیا ہے کیونکہ یہ جمہوری اور آئینی ادارہ ہی ہیں جو پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی حکمران جماعت اور حکمرانوں کو ڈکٹیٹر بننے سے روکتے ہیں، تھوڑا بہت کھیل تو سبھی حکومتوں اور حکمران جماعتوں نے کیا، اس لئے کسی کو دودھ کا دھلا نہیں کہا جا سکتا لیکن مودی حکومت میں یہ کھیل بےشرمی کی تمام حدوں کو پار کرچکا ہے نہ ایک ادارہ دوسرے سے بلکہ کبھی کبھار تو اداروں کے اندر ہی جوتم پیزار ہو جاتی ہے، سپریم کورٹ کے چار سینئر جج پریس کانفرنس کر کے اپنا درد بیان کرتے ہیں تو سی بی آئی کے دو اعلی ترین افسران باہم دست بگریباں ہو جاتے ہیں، ایسی مثالوں پر الگ سے مضمون لکھا جا سکتا ہے لیکن کولکاتا میں گزشتہ دنوں جو ہوا وہ انہیں شرمناک سلسلوں کی ایک کڑی ہے جو ہماری جمہوریت کا مقدر بن چکے ہیں۔

شاردا چٹ فنڈ گھپلہ معاملہ میں کولکاتا کے پولس کمشنر راجیو کمار سے پوچھ گچھ کرنے کے لئے سی بے آئی کے قریب 40 افسروں نے ان کے گھر پر دبش دی جیسے وہ کوئی دہشت گرد، غنڈے یا ٹپوری ہوں وہاں تعینات بنگال پولس کے عملہ نے الٹے سی بی آئی کے ان کارکنوں کو حراست میں لے لیا، یہ اپنی نوعیت کا بالکل پہلا واقعہ ہے سی بی آئی کے عملہ نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ انھیں ایسے حالات سے دو چار ہونا پڑے گا، ادھر بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی بھی اس کھلی غیر قانونی حرکت کے خلاف میدان میں آگئیں اور دھرنے پر بیٹھ گئیں، ان کے دھرنے پر بیٹھتے ہی ترنمول کانگریس کے ہزاروں کارکنان بھی دھرنے کی جگہ پر پہنچ گئے، ملک بھر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، راہل گاندھی سمیت اپوزیشن کے سبھی لیڈران اور پارٹیاں ممتا بنرجی کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہو گئیں، دیکھتے ہی دیکھتے ممتا بنرجی حزب اختلاف میں صف اول کے مقام پر پہنچ گئیں۔

سی بی آئی کی اس کارروائی کی چہار سو مذمت ہونے لگی، خود سبکدوش ہو چکے اعلی پولس افسران اور انتظامی افسران سی بی آئی کے طریق کار پر انگلی اٹھانے لگے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کولکاتا پولس کمشنر کے عہدہ پر فائز ایک سینئر پولس افسر کے ساتھ سی بی آئی کے افسران کو ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا یہی نہیں سی بی آئی کے مقامی ذمہ داروں نے خود اپنے نئے ڈائریکٹر کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی اور اتنا بھی انتظار نہیں کیا کہ ان کے نئے ڈائریکٹر دوسرے دن صبح اپنا عہدہ سنبھلنے والے ہیں، ان کے احکام کا انتظار کرلیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسے بڑے افسر یا سیاسی آقا کے دباؤ یا اشاروں پر کام کر رہے تھے-

جبکہ متعلقه پولس افسر نہ تو فرار ہونے والے تھے اور نہ ہی ان سے کسی دوسرے غیر قانونی کام کی امید کی جا سکتی ہے، سی بی آئی کے افسروں کو ان سے پوچھ گچھ کے لئے سمن جاری کرنا چاہیے تھا اگر کچھ نوٹسوں کے بعد بھی وہ نہ آتے تو وہ وزیراعلی سے مل کر انھیں طلب کرنے کی درخواست کرتے اور اگر وزیر اعلی بھی تعاون نہ کرتیں تو عدالت سے ان کی طلبی کا پروانہ حاصل کرتے، اس طرح پولس کمشنر کے بنگلے پر بغیر کسی قانونی تیاری کے دبش دینا نہ صرف ان کے عہدہ اور مرتبہ کے خلاف ہے بلکہ اس سے بنگال پولس کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ غیر قانونی طریق کار تھا۔ خاص کر تب جب وزیر اعلی اس ریاست میں سی بی آئی کے استمعال پر پابندی لگا چکی ہیں، ایسی صورت حال میں سی بی آئی کے عملہ کو وزیر اعلی کو اعتماد میں لے کر ہی کام کرنا چاہئے تھا، بصورت دیگر ان کے پاس عدالت سے اجازت نامہ لینے کا متبادل موجود تھا۔

بہر حال اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پہنچ چکا ہے جس نے سی بی آئی کو حکم دیا ہے کہ وہ متعلقه پولس افسر سے شیلانگ میں پوچھ گچھ کرے اور انھیں گرفتار نہ کرے باقی جو باتیں دونوں فریقوں نے اٹھائی ہیں ان پر عدالت عظمیٰ نے بعد میں غور کرنے کو کہا ہے اس طرح ایک ہائی وولٹیج ڈرامہ کا ڈراپ سین تو ہو گیا لیکن کئی سوال ضرور کھڑے ہو گئے ہیں جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف سی بی آئی جیسی ممتاز تفتیشی ایجنسی کی ساخ بحال ہو بلکہ دیگر آئینی اداروں کی نیک نامی کو جو بٹہ لگا ہے ان سب کی ساکھ بھی بحال ہو-

اندر اور باہر دونوں طرف سے سی بی آئی کی ساخ داؤں پر لگی ہوئی ہے گزشتہ پانچ برسوں سے اس نے صرف اپوزیشن کے لیڈروں کو ہی نشانہ بنایا ہے اور بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈروں کے ہائی پروفائل معاملوں میں سست روی اختیار کر رکھی ہے۔ مثلاً مدھیہ پردیش کا ویاپم گھپلہ ہو یا بہار کا سرجن گھوٹالہ میں اربوں روپیہ لے کر فرار ہو چکے ڈکیتوں کا معاملہ ہو یا اور کوئی۔ سی بی آئی یا دیگر ادارہ ایسے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

سی بی آئی کی ایک عدالت بی جے پی صدر کو ریاست بدر کر دیتی ہے، جب اقتدار بدلتا ہے تو سی بی آئی کا جج بدل دیا جاتا ہے اور وہ انھیں بری کر دیتا ہے، ستم بالاے ستم سی بی آئی بی جے پی کے صدر کو بری کیے جانے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل بھی نہیں کرتی، گجرات کے سابق وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل سے لے کر جج لویہ جیسے قتل معاملات سرد خانہ میں پڑے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں سی بی آئی کے ڈائریکٹر اور جوائنٹ ڈائریکٹر کے درمیان جس طرح جوتے میں دال بٹی اور دونوں نے جس طرح ایک دوسرے پر نہ صرف بدعنوانی کے الزام لگائے بلکہ ایف ائی آر تک لکھوائی گئی، اس سے ادارہ کی ساکھ خاک میں مل چکی ہے، نئے ڈائریکٹر کی تقرری بھی متنازعہ ہو چکی ہے کیونکہ لوک سبھا کے حزب اختلاف کے رہنما نے جو تقرری کمیٹی کے رکن ہیں انہوں نے کئی اعتراض اٹھاے ہیں، حکومت کی قوت ارادی اور آئینی اداروں کے ایماندارانہ احساس سے ہی ان اداروں کی دوبارہ ساکھ بحالی ممکن ہے، کیا اگلی حکومت اس پر سنجیدگی سے توجہ دے گی یہ بہت بڑا سوال ہے۔ کیونکہ مودی حکومت نے ایک ایجنڈہ کے تحت ان سب کو برباد کرنےمیں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔