آدرش گجرات کا مثالی انصاف!... اعظم شہاب

عدالتوں کے فیصلے تفتیش کی بنیاد پر ہوا کرتے ہیں اور اگر تفتیش کے وقت ہی کوئی خاص موقف اختیارکرلیا جائے تو پھر فیصلہ گجرات کے کلول قتل عام واجتماعی عصمت دری کے مقدمے جیسا ہی ہوگا۔

عدالت، علامتی تصویر آئی اے این ایس
عدالت، علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

گجرات فساد 2002 میں ہوئے کلول قتل عام واجتماعی عصمت دری کے مجرمین کی برأت نے ایک بار پھر آدرش گجرات کے مثالی عدل وانصاف کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ ابھی راہل گاندھی کی سزا اور بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی سے گجراتی انصاف کا ڈنکا پوری دنیا میں بج ہی رہا تھا، کہ کلول واردات کے ان 26 ملزمین کو بری کرنے سے اس میں چارچاند لگ گئے۔ اس معاملے میں کل 39 ملزمین ماخوذ تھے جن میں سے 13 کی موت ہوچکی ہے۔ بقیہ26 کو پنچل محل ضلع کی ہلول ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت نے ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے بری کر دیا۔ ان تمام پر 12؍سے زائد افراد کے قتل عام اورایک خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کا الزام تھا۔ ایڈیشنل سیشن جج لیلا بھائی چڈاسما کی عدالت سے کیے گئے اس فیصلے کے بعد اب یہ تمام ملزمین مقدمے سے بری ہوچکے ہیں کیونکہ ان کے خلاف اب نہ تو کوئی کیس ہوگا اور نہ ہی کوئی استغاثہ۔ بعید نہیں جلد ہی انہیں اچھے سنسکاری ہونے کا سرٹیفکٹ بھی حاصل ہوجائے۔

ان ملزمین کے خلاف استغاثہ کی جانب سے عدالت میں 190؍گواہان اور334 دستاویزی ثبوت پیش کئے گئے لیکن دلچسپ بات یہ رہی کہ عدالت کی نظر میں ایک بھی گواہی یا دستاویز سے استغاثہ کے موقف کی تائید نہیں ہوسکی۔ یعنی گزشتہ 20 سالوں میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران جو بھی ثبوت یا گواہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے وہ اس قابل ہی نہیں تھے کہ عدالت انہیں تسلیم کرے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس مقدمے کی تفتیش کیسے ہوئی ہوگی، کتنے مضبوط گواہوں کے بیانات درج کیے گئے ہوں گے اور ان دستاویزات کی کیا قانونی اہمیت ہوگی جو عدالت میں پیش کیے گئے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ عدالتیں اپنے روبرو پیش ہونے والے ثبوتوں وگواہوں کی بنیاد پر ہی فیصلے کیا کرتی ہیں۔ جب ثبوت اور گواہ ہی اس معیار کے ہوں جو عدالت کے طے کردہ پیمانے پر پورے نہ اتریں تو بلی کے بھاگوں یقینا چھینکا ٹوٹے گا اور اتفاق سے ٹوٹ بھی گیا۔


اس طرح کے مقدمات جن میں حکومت کے کسی موقف کو چیلنج کیا گیا ہو یا جو کسی خاص نقطہ نظر کے خلاف ہوں، ان میں سقم پیدا کرنے کا عمل دراصل تفتیشی مراحل سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جس مقدمے کے نتائج حکومت کے موقف کے خلاف ہوں گے، ان کے بارے میں حکومت یہ تو کبھی نہیں چاہے گی ناکہ اس کی شفافیت کے ساتھ تفیش ہو اور سچائی لوگوں کے سامنے آئے؟ اس لیے اس کی جانچ ایسے ہی ایجنسیوں یا افسران سے کرائی جاتی ہے جو حکومت کی ایماء پر ثبوت وشواہد عدالتوں میں جمع کریں یا اس سے آگے بڑھ کر حکومت کے موقف پر اثرانداز ہونے والے ثبوت وشواہد کو عدالت میں پہنچنے سے ہی روک دیں۔ یہ عمل اس صورت میں مزید آسان ہو جاتا ہے جب استغاثہ حکومت خود ہو۔ کلول قتل عام اوراجتماعی عصمت دری مقدمے میں حکومت ہی استغاثہ تھی۔ اس مقدمے کی ایف آئی آر کلول پولیس اسٹیشن میں درج ہوئی اور اسی پولیس اسٹیشن کے اہلکاروں نے اس کی تفتیش کی تھی۔ اب اگر کوئی یہ سمجھے کہ کلول پولیس کے اہلکار حکومت کی منشاء سے لاعلم تھے تو یہ اس کی سادگی ہی ہوگی۔

سچائی یہ ہے کہ گجرات فسادات کی پوری تفتیش پر ہی ہمیشہ شک وشبہے کے بادل منڈلاتے رہے۔ پھر چاہے وہ گجرات پولیس کی تفتیش ہو، ایس آئی ٹی کی ہو، امیش چندر کمیٹی یا پھر ناناوتی کمیشن کی تفتیش ہو۔ شاید یہی وجہ رہی کہ بیسٹ بیکری سے لے کر بلقیس بانو کے مقدمات گجرات کے باہر منتقل کر دیئے گئے تھے اور ان میں جن مجرمین کو سزائیں ہوئی ہیں وہ مہاراشٹر کی عدالتوں سے ہوئی ہیں۔ گجرات عدالتوں سے بھی کچھ مجرمین کو سزائیں ہوئیں لیکن پھر یا تو وہ ضمانت پر رہا ہوئے یا پھر مقدمے سے ہی بری ہوگئے۔ ناناوتی کمیشن کی تفتیش کے بارے میں تو یہ بات علانیہ کہی جا رہی تھی کہ وہ مودی حکومت کی مرضی کے مطابق ہی رپورٹ دے گی۔ 2017 میں تہلکہ میگزین نے اس وقت کے گجرات حکومت کے کونسل اروند پانڈیا کا ایک اسٹنگ آپریشن ریلیز کیا تھا جس میں وہ یہ کہتے ہوئے دیکھے وسنے گئے تھے ’کہ فکر کی کوئی بات نہیں ہے، ناناوتی کمیشن میں جتنے لوگ بھی ہیں وہ سب کے سب گورنمنٹ کے خاص آدمی ہیں، جو بھی رپورٹ آئے گی وہ گورنمنٹ کے فیور میں آئے گی‘۔


ہوا بھی وہی کہ ناناوتی کمیشن نے اپنی 15؍سو صفحات کی فائنل رپورٹ، 45 ہزار حلف نامہ اور ہزار گواہوں کے بیانات کے ساتھ عدالت میں پیش کیا۔ اس میں گجرات حکومت، آر ایس ایس، بجرنگ دل، وی ایچ پی اور جتنی بھی ہندو شدت پسند تنظیمیں تھیں، سب کو کلین چیٹ دی گئی۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ کمیشن نے گورنمٹ اٹھاریٹی میں سے کسی کو تفتیش کے لیے بھی نہیں طلب کیا۔ جب ناناوتی کمیشن کا یہ حال تھا تو ریاستی پولیس اور دیگر ایجنسیوں کی تفیش کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس لیے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ کلول کے مقدمے میں پولیس نے عدالت کے روبرو وہی ثبوت وشواہد پیش کیے جو ملزمین کے مقدمے کو کمزور کرنے والے تھے یا جس سے انہیں راحت ملنے والی تھی۔ کیونکہ اس واقعے کا کوئی عینی شاہد نہیں تھا۔ ڈرائیور کو تو جائے واقعہ پر ہی جلاکر مار دیا گیا تھا۔ اس لیے اس ضمن میں عدالت میں پیش کیے جانے والے گواہوں کے بیانات ہی وہ ثبوت ہوسکتے تھے جو ملزمین کو مجرم ثابت کرتے، لیکن بدقسمتی سے وہ گواہیاں حکومت کے موقف کے خلاف تھے، اس لیے عدالت کو 190؍گواہوں کے بیانات میں تضاد مل گیا۔

 اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کا یہ موقف تھا کہ تمام گواہوں کے بیانات میں سرِموفرق نہیں ہونا چاہئے۔ یعنی اگر ایک گواہ نے یہ کہا کہ اس نے دیکھا کہ ایک گاڑی ریورس اور یوٹرن کے دوران پلٹ گئی اور اس میں 12؍لوگ سوار تھے جسے فلاں فلاں نے آگ لگا دی تو اگر دوسرے گواہ کے بیان میں ریورس، یوٹرن، پلٹنے، سوار ہونے والوں کی تعداد و آگ لگانے والوں کی نشاندہی میں کوئی واقعاتی فرق بھی ہوا تو اسے تسلیم نہیں کیا گیا۔ یعنی اگر کسی گواہ نے یہ بیان دے دیا کہ اس گاڑی میں کتنے سوار تھے، مجھے یہ تو نہیں یاد ہے لیکن اسے آگ لگاتے ہوئے میں نے ضرور دیکھا تو فاضل جج صاحب کی عدالت نے ان دونوں گواہوں کے بیانات میں تضاد کی بنیاد پر ان گواہیوں کو مسترد کر دیا۔ بلقیس بانو کے مقدمے میں پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح سپریم کورٹ کے ایک حکم کو کھینچ تان کر ریاستی حکومت نے اپنے موافق بنایا اور پھر اس بنیاد پر قتل عام وعصمت دری کے ملزمین کو جیل سے رہا کر دیا۔ بلقیس بانو کے مجرمین آج ریاستی بی جے پی کے نمائندے بنے ہوئے ہیں، بعید نہیں کہ کل کلول کے ملزمین کے بھی ستکار واستقبال کی خبر آجائے۔

(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */