مودی کی سوشل میڈیا لہر کے برے دنوں کا آغاز

ان دنوں سوشل میڈیا پر چل رہے سیاسی لطیفوں، پیروڈی گیتوں، مذاحیہ باتوں، کئی پرانے انتخابی جملوں اور نریندر مودی کی پرانی تقاریر نے بی جے پی کو پریشان کرنا شروع کر دیا ہے۔

Photo by Sushil Kumar/Hindustan Times via Getty Images  
Photo by Sushil Kumar/Hindustan Times via Getty Images
user

آشوتوش شرما

ایک پرانی کہاوت ہے ’’جیسا بوؤگے ویسا ہی کاٹوگے‘‘ یعنی ماضی میں آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ایک نہ ایک دن آپ کے سامنے ضرور آتا ہے ۔ بات جب سوشل میڈیا کی ہو تو ماضی کے ’کارنامے ‘ بہت جلد آپ کو منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ وقت میں اس بات کو بی جے پی سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے جس نے اپنے فائد ے کے لئے سوشل میڈیا کو سب سے بڑا ہتھیار بنا یا اور انتخابی تشہیر کےلئے اس نے’تصوراتی دنیا ‘کا بھرپور استعمال کیا ۔ جس کے سبب ملک بھر میں ’’مودی لہر ‘‘ کا ایک طوفان سابرپا ہو گیا، لیکن اب سوشل میڈیا پر بی جے پی کے ذریعہ بنائی گئی ’تصوراتی دنیا‘یعنی ’’مودی لہر‘‘ اب ماند پڑ تی ہو ئی دکھائی دے رہی ہے۔

اسٹین فورڈ یونیورسٹی نے انتخابات میں ٹوئٹر کے استعمال کے حوالے سے ایک ریسرچ کی ہے، جس کے مطابق 2014 کے عام انتخابات کو سوشل میڈیا نے واضح طور پر متاثر کیا تھا۔ ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ کانگریس کی قیادت والی یو پی اے کے مقابلہ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے سوشل میڈیا پر زیادہ فعال تھی اور اس کام کے لئے ایک ٹیم کو تعینات کیا گیا تھا۔

حال ہی میں مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے لوگوں کو سوشل میڈیا پر بغیر سوچے سمجھے پیغامات (میسج )کو نہ پھیلانے کے تعلق سے آگاہ کیا ۔ وہیں دوسری طرف بی جے پی کے صدر امت شاہ نے بھی پارٹی کارکنان سے بی جے پی مخالف ’پروپیگنڈہ ‘ سے ہوشیار رہنے کی اپیل کی۔ خاص بات یہ ہے کہ دونوں رہنماؤں نے یہ اپیل ایسے وقت میں کی ہے جب گوری لنکیش کے قتل کے بعد ٹوئٹر پر وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف ’# بلاک نریندر مودی ‘کے نام سے ایک ہیش ٹیگ وائرل ہوا ۔ دراصل یہ ہیش ٹیگ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد سےشروع ہواکہ گوری لنکیش کے قتل کا جشن منانے والے ایک ٹوئٹر صارف کو خود وزیر اعظم فالو کرتے ہیں۔

بی جے پی نے جس سوشل میڈیا کا برسوں تک فائدہ اٹھایا اب وہی سوشل میڈیا بی جے پی کے لئے پریشانی کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے زیادہ تر پوسٹ بی جے پی کے پرانے ٹوئٹس یا تقاریر پر مبنی ہیں ،جوکہ 2014 کے عام انتخابات میں ان کی مہم کا ایک حصہ تھے۔ سوشل میڈیا پر موجود پرانی پوسٹوں کا ہی کمال ہے کہ انتخابات کے دوران تمام ’پھینکے گئے جملے‘ لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔

احمد آباد میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے جاپانی ہم منصب شنجو آبے کی طرف سے بلٹ ٹرین کے سنگ بنیاد رکھنے کے وقت سے مودی کا ایک پرانا ویڈیو وائرل ہو رہا ہےجس میں نریندرمودی بلٹ ٹرین کے تعلق سے بات کر رہے ہیں۔ سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے دوران نریندر مودی نے ایک لاکھ 10 ہزار کروڑ کی لاگت والی 508 کلو میٹر لمبی بلٹ ٹرین منصوبہ بندی کو نئے ہندوستان سے تعبیر کیا ہے جبکہ وائرل ہو رہے ویڈیو میں وہ یہ کہتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں کہ ، ’’بلٹ ٹرین میں کوئی بیٹھنے والا نہیں ہے ، ہمیں صرف دکھاوے کے لئے اس کی ضرورت ہے۔‘‘

سوشل میڈیا پر ایسے متعدد ہیش ٹیگ اور پیج بنائے گئے ہیں جو بی جے پی کے انتخابی وعدوں اور این ڈی اے حکومت کے کام میں زمین و آسمان کا فرق ہونے کے تعلق سے مسلسل بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کا پول کھول رہے ہیں۔ مندرجہ ذیل لنک میں انتخابی ریلیوں اور تشہیر کے دوران استعمال کئے گئے جملوں اوربہکانے والے وعدوں پر سوال اٹھایا گیا ہے۔

https://twitter.com/mrindia420/status/910400532002377728

بی جے پی کی انتخابی تشہیر کے دوران اکثر ٹی وی اور سوشل میڈیا پر مایوس سی دکھائی دینے والی اس خاتون کو یاد کریں جو اس بات سے پریشان تھی کہ کس طرح پٹرول سمیت تمام ضروری اشیاء کی بڑھی ہوئی قیمتوں نے اسے متاثر کیا ہے۔ آج سوشل میڈیا پر سوال پوچھا جا رہا ہے کہ یہ خاتون کہاں غائب ہو گئی ہے۔

عام انتخابات کے دوران بی جے پی کے ’بہت ہوئی مہنگائی کی مار،بہت ہوا ناری (خاتون)پر وار،بہت ہوا گھوٹالوں کا ویاپار، اب کی بار مودی سرکار ‘جیسے نعروں کی بھرمار تھی۔ اب اس طرح کے نعرے موجودہ حکومت کی کھنچائی کرنے والوں کے خوب کام آ رہے ہیں۔

اسی طرح بڑے پیمانے پر اخباروں، ریڈیو اور ٹی وی پر چھائے رہنے والے بی جے کی میڈیا مہم کا حصہ رہے اشتہارات بھی آج کل کالا دھن، مہنگائی، دہشت گردی اور نوٹ بندی جیسے مسائل پر سیاسی پیروڈی (مزاحیہ) گیتوں کی تخلیق بڑے کام کے ثابت ہو رہے ہیں۔

نریندر مودی نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے شناختی کارڈ کے منصوبے ’آدھار ‘ کو ایک ’فراڈ اسکیم‘ قرار دیا تھا لیکن بر سر اقتدار آنے کے فوری بعد انہوں نے آدھار کو تیزی سے آگے بڑھایا اور کئی خدمات کے لئے لازمی بنا دیا۔ سوشل میڈیا کا مندرجہ ذیل لنک اس معاملہ پر وزیر اعلیٰ مودی اور وزیر اعظم مودی کے درمیان واضح فرق کو نمایاں کرتا ہے۔

خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والی 5 کروڑ خواتین کو ایل پی جی کنکشن فراہم کرنے کا ہدف رکھنے والی ’اجولا اسکیم‘ پر جہاں حکومت خود کو شاباشی دے رہی ہے وہیں سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے متعدد لوگ سبسڈی واپس لینے کے حوالے سے دی گئی دلیل پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اصل میں سوشل میڈیا صارفین اس بات پر حیرت میں ہیں کہ وہ مودی جو سابق وزرائے اعظم کا مذاق اڑایا کرتے تھے آج انہی کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور لطفے بن رہے ہیں ۔

نریندر مودی کی ’آفیشیل ‘ سالگرہ پر ایک ’کنفیوز‘ خود ساختہ مودی بھکت کی طرف سے اپنی غلطی کے اعتراف کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

کچھ اور مذاحیہ ٹوئٹ جن کے ذریعہ موجودہ حکومت اور مودی بھکتوں کا مذاق اڑایا گیا مندرجہ ذیل دیکھے جا سکتے ہیں۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔