آر ایس ایس ایجنڈا پر مبنی پہلا بل اتفاق رائے سے کیسے منظور ہوگیا!

مودی جی کے 10فیصد ریزرویشن کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ اس میں غریب اسے شمار کیا گیا ہے جس کی سالانہ آمدنی 8لاکھ روپیہ یعنی تخمیناً 67 ہزار روپیہ ماہانہ ہے یا پھر اس کے پاس پانچ ایکڑ زرعی زمین ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

جس طرح بجھتے چراغ کی آخری لو ایک دم سے بھبھک اٹھتی ہے اسی طرح حالیہ پ5ریاستوں کے انتخابات میں شکست فاش اور اگلے تین مہینوں کے اندر مجوزہ عام انتخابات میں شکست کے خوف سے وزیر اعظم نریندر مودی پے در پے اقدام کر کے اپنی ناؤ پار لگانے کی کوشش کر رہے ہیں ، لیکن ان کوششوں میں اتنا پھوہڑ پن عیاں اور نمایاں ہے کہ عوام ان کی چال سمجھ جاتے ہیں اور تیراُلٹا پڑ جاتا ہے۔

معاشی طور سے کمزور اعلی ذات کے لوگوں کوجن میں سبھی مذاہب کے لوگ شامل ہیں سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلہ کے لئے پارلیمانی اجلاس کے آخری دن 10 فیصدی ریزرویشن کا اعلان ان کے انھیں قدموں میں سے ایک ہے، یہ قدم اتنی جلد بازی میں اٹھایا گیا کہ اطلاعات کے مطابق متعلقه وزیر کو بھی نہیں معلوم تھا کی کابینہ میٹنگ کیوں بلائی گئی ہے، جب انھیں میٹنگ میں اپنی وزارت سے متعلق اس بل کا پتہ چلا تو وہ دم بخود رہ گئے۔

ٹی وی پر مباحثہ کے دوران ایک سینئر صحافی نے بتایا کہ وہ پارلیمنٹ کے سینٹرل حال میں موجود تھے جہاں بر سر اقتدار پارٹی کے ممبران یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ انھیں پتہ ہی نہیں تھا کہ حکومت نے اتنا اہم فیصلہ کر لیا ہے ، مودی جی نے نوٹ بندی کا فیصلہ بھی ایسے ہی اچانک کر لیا تھا اور پارلیمنٹ تک میں یہ الزام لگا تھا کہ خود وزیر مالیات کو نہیں پتہ تھا کہ8 بجے قوم کے نام اپنے خطاب میں مودی جی کیا کہنے والے ہیں۔

بہر حال مودی جی کے اس فیصلہ کا سب سےبڑا مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ اس میں غریب اسے شمار کیا گیا ہے جس کی سالانہ آمدنی 8لاکھ روپیہ یعنی تخمیناً 67 ہزار روپیہ ماہانہ ہے یا اس کے پاس پانچ ایکڑ زرعی زمین ہے، جبکہ انکم ٹیکس کی حد ڈھائی لاکھ روپیہ سالانہ ہے ، اتنی تنخواہ پانے والے ہندوستان میں کتنے لوگ ہوں گے اس کا اندازہ سب کو ہے یعنی حکومت نے تسلیم کر لیا کہ ملک میں نوے فیصدی لوگ خط افلاس سے نیچے ہیں ، دوسری بڑی صفت یہ ہے کہ متعدد تحفظات کے باوجود کوئی بھی پارٹی ایوان میں اس کی مخالفت نہیں کر سکی، اسد الدین ا ویسی نے ضرور کچھ اہم آئینی اعتراض اٹھائے لیکن نقار خانہ میں طوطی کی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا ، حالانکہ اسدالدین اویسی نے جو اعتراض اٹھائے ہیں وہ نہ صرف جائز ہیں بلکہ سپریم کورٹ میں انھیں نکات پر اس بل کے مستقبل کا انحصار بھی ہے۔

یہ بے حد تشویشناک پہلو ہے کہ آئین ہند کی روح اور بنیادی اصولوں سے متصادم ایک بل ایوان میں پاس ہو گیا ، اس طرح تو کل موجودہ حکومت سیکولر ازم اور دیگر بنیادی اصولوں کے خاتمہ کا بل ایوان سے منظور کرا سکتی ہے ، یہ آر ایس ایس نظریہ کا پہلا بل ہے جو اس طرح اتفاق راۓ سے منظور ہوا ہے، کیونکہ آر ایس ایس شروع سے ہی ذات کے بجائے معاشی بنیاد پر ریزرویشن دینے کی وکالت کرتا رہا ہے اگلا بل کون سا ہو سکتا ہے سوچا جا سکتا ہے۔ اب یہ بل دونوں ایوانوں سے منظور ہو نے کے بعد صدر جمہوریہ کے دستخط کا منتظر ہے ، تو دوسری جانب اسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا گیا ہے۔

در اصل یہ ریزرویشن آئین میں موجود ریزرویشن کے بنیادی نظریہ سے متصادم ہے، یعنی آئین نے ریزرویشن کی بنیاد سماجی اور تعلیمی پسماندگی کو مانا ہے نہ کہ ذات اور معاشی حیثیت کو ، ایوان میں اس نقطہ پر طویل بحث ہوئی تھی اور تب دلتوں کو ریزرویشن دینے کا فاصلہ کیا گیا تھا کیونکہ ہزاروں برسوں سے صرف ذات کی بنیاد پر ا ن کا استحصال کیا گیا تھا ، انھیں سماجی اور تعلیمی طور سے جاں بوجھ کرپچھڑا رکھا گیا تھا ، پھر منڈل کمیشن کی سفارشات میں دیگر پسماندہ طبقوں کو بھی اسی بنیاد پر ریزرویشن دیا گیا ۔ مرحوم وزیر اعظم وی پی سنگھ نے جب یہ فیصلہ لاگو کیا تھا تو شمالی ہند میں آر ایس ایس کے اشارہ پر ایک طوفان کھڑا ہو گیا تھا اور کئی نوجوانوں نے خود سوزی تک کر لی تھی ، اسی منڈل کے جواب میں اور اس کے اثرات کو ذائل کرنے کے لئے ہی لال کرشن اڈوانی نے کمنڈل اٹھا کر سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا نکالی تھی۔

منڈل کا معاملہ بھی سپریم کورٹ پہنچا تھا ، تب اس وقت کے چیف جسٹس احمدی کی بنچ نے فیصلہ دیا تھا کہ کسی بھی قیمت پر ریزرویشن کی حد پچاس فیصدسے زیادہ نہیں ہونی چاہیے ، جنوبی ہند کی چند ریاستوں کو چھوڑ کر مرکزی حکومت نے اس حد کی ابھی تک پاسداری کی، لیکن نریندر مودی نے یہ حد بھی توڑ دی ہے، اس طرح اس بل کے ذریعہ نریندر مودی نے آئین کی خلاف ورزی کی ، چونکہ یہ آئینی ترمیمی بل ہے اس لئے ایوان سے منظور ہو کرصدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد قانون تو بن ہی جاےگا۔

صدر جمہوریہ آئین ہند کے محافظ ہیں چونکہ یہ بل ریزرویشن کے سلسلہ میں آئین ہند کی روح کو پامال کر رہا ہے اس لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اس پر بے چوں و چرا دستخط کر کے پارٹی سے اپنی سابقہ وابستگی کا تقاضہ پورا کرتے ہیں یا آئین ہند کے محافظ بن کر یہ بل کابینہ کو دو بارہ غور کرنے کے لئے بھیجتے ہیں۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ جب آنجہانی راجیو گاندھی کے دور میں پوسٹل بل پاس ہوا تھا تو آنجہانی صدر جمہوریہ گیانی ذیل سنگھ نے کانگریس اور نہرو گاندھی خاندان سے اپنی دیرینہ وابستگی کے باوجود اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر کے ایک سیاسی طوفان کھڑا کر دیا تھا ، آخر کار راجیوگاندھی کو وہ بل واپس لینا پڑا تھا۔

دھیان رہے کہ سپریم کورٹ کیشو نند بھارتی کیس میں واضح کر چکا ہے کہ آئین ہند کی روح اور اس کے بنیادی نظریہ کو ایوان کے ذریعہ بدلا نہیں جاسکتا، سیکولر ازم ، مساوات، سب کو یکساں مواقع وغیرہ اسی بنیادی نظریہ کا حصہ ہیں، ریزرویشن ایک الگ مثبت کارروائی (افرمیٹو ایکشن ) ہے، جس کا مقصد صدیوں سے استحصال اور نا انصافی کا شکار رہے طبقوں کو سماج میں برابر ی پر کھڑا کرنا ہے جو لوگ ریزرویشن کو انسداد، غربت ، پالیسی کا حصہ سمجھتے ہیں وہ غلط فہمی اور عدم معلومات کا شکار ہیں۔

ایک دوسری خامی جو اس بل میں ہے وہ یہ کہ حکومت نے ریزرویشن دینے کے لئے زمینی سطح پر کوئی تیاری نہیں کی، دلتوں کا ریزرویشن ڈاکٹر امبیڈکر جیسے عظیم لیڈروں کی برسوں کی محنت ،لگن اور مطالعہ کا مرہون منت تھا، تو منڈل کمیشن کی سفارشات بی پی منڈل اور ان کے ساتھیوں کی برسوں کی عرق ریزی اور دستاویز پیش ہونے کے بعد متعدد کمیٹیوں ، وزارتی کیمٹی، افسران کمیٹی کے مطالعہ کے بعد لاگو ہو سکی تھیں، سابقہ منموہن حکومت نے اقلیتوں کے لئے 4.5 فیصدی ریزرویشن کا اعلان کیا تھا اس کے پس پشت منڈل کمیشن کی سفارشات میں شامل مسلم برادریاں سچر کیمٹی کی رپورٹ اور سفارشات، نیز رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ تھی ، پھر بھی سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر حکم امتناعی جاری کر دیا تھا کہ حکومت بنا زمینی تیاری کے کورٹ کو حقیقی صورت حال سے وقف کرانے میں ناکام رہی ہے اس لئے اس پر عمل درآمد روکا جاتا ہے ۔نریندر مودی کے اس بل کا ممکنہ انجام یہی ہوگا، جس سے صاف ظاہر ہے کہ نریندر مودی نے نیک نیتی سے یہ ریزرویشن نہیں دیا ہے، بلکہ بقول راشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا رکن منوج جھا مودی نے عوام کو لالی پاپ دیا ہے اور ان کے بہت سے جملوں میں سے یہ بھی ایک جملہ ثابت ہوگا۔

دوسری اہم بات جو خود مودی کے ایک وزیر نتن گڈکری نے کہی ہے وہ قابل غور ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب سرکار کے پاس نوکریاں ہیں ہی نہیں تو ریزرویشن دینے سے کیا فایدہ، مودی نے ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا اس حساب سے اب تک10 کروڑ لوگوں کو نوکری مل جانی چاہیے تھی، لیکن ہوا یہ کہ مودی جی نے نوجوانوں کو پکوڑہ بیچنے کی صلاح دے دی اور امت شاہ نے اسے انتخابی جملہ کہہ کے معاملہ ختم کر دیا۔

مودی حکومت جس طرح بی ایس این ایل، ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ ،بینکوں ، ریلوے وغیرہ جو زیادہ سے زیادہ روزگار اور ملازمت دینے والے ہیں ، ان اداروں کو نجی زمرہ کے ہاتھ میں دھیرے دھیرے دے دیا، اس کے بعد سرکار کے پاس دینے کے لئے بہت کم نوکریاں بچی ہیں اور جو ہیں ان میں بھی ایڈہاک یا ٹھیکے پر تقرریاں ہو رہی ہیں جواکنامک ٹرم میں ایمپلائمنٹ نہیں ، بلکہ انڈر ایمپلائمنٹ کے زمرہ میں آتا ہے جو نوجوانوں کے لئے بیروزگاری سے بھی زیادہ خطرناک صورت حال ہوتی ہے۔

نریندر مودی نے اس بل کے ذریعہ نہ صرف ایک سیاسی پانسہ پھینکا ہے بلکہ مستقبل کے آرایس ایس نظریہ کا ہندوستان کیسے بنایا جا سکتا ہے اس کا بھی اشارہ دے دیا ہے ، کوئی سماجی گروپ اور سیاسی پارٹی سمجھے یا نہ سمجھے مسلمانوں اور دلتوں کو ضرور چوکنّا ہو جانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔