آخر کس دَم پر ووٹ مانگ رہے کیجریوال، پورے نہ ہونے والے وعدوں کی فہرست بہت طویل ہے... ہرجندر

دہلی کی عام آدمی پارٹی حکومت کی کارگزاریوں کا ریکارڈ مشتبہ ہے، ایسے وعدوں کی فہرست بہت طویل ہے جن کے دَم پر اروند کیجریوال دہلی کے اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

ہرجندر

سال 13-2012 میں جب شیلا دیکشت کی قیادت والی کانگریس حکومت دہلی میں تھی، تب اشتہار کے لیے دہلی حکومت کا بجٹ 11.18 کروڑ روپے تھا۔ 23-2022 میں یہ بڑھ کر 557 کروڑ روپے ہو گیا۔ اس درمیان دہلی کا سالانہ بجٹ 37 ہزار کروڑ روپے سے بڑھ کر 77 ہزار کروڑ روپے تک ہی پہنچا۔ یعنی سالانہ بجٹ دوگنا ہوا، لیکن اشتہار کے لیے بجٹ 50 گنا ہو گیا۔ اگر دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ کی بات مانیں تو اشتہار کا بجٹ 600 کروڑ روپے کی حد پار کر چکا ہے۔

تیسری مرتبہ اقتدار میں واپسی کے لیے ان اشتہارات کے ذریعہ ماحول تیار کر رہی عآپ کے علاوہ اس بھاری بھرکم خرچ کا فائدہ اشتہارات کی ایجنسیوں، آؤٹ ڈور ایجنسیوں، ایونٹ منیجرس، اشتہاری مواد تیار کرنے والوں اور سب سے اہم کردار نبھانے والی میڈیا تک کو مل رہا ہے۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کیوں عآپ لیڈران پر سوال نہیں اٹھائے جاتے اور دعووں و لفاظی کو حقیقت کے مقابلے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جن کی جیب سے یہ رقم جا رہی ہے، وہ وہی لوگ ہیں جو ووٹ ڈالیں گے۔ اس لیے دعووں کی تحقیق کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔


عآپ دہلی میں بدعنوانی ختم کرنے، لوک پال کی تقرری، تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹیشن اور ماحولیات میں انقلابی تبدیلی لانے کا وعدہ کر اقتدار میں آئی تھی۔ ایک دہائی بعد اب وہ لوک پال کی بات نہیں کرتی اور بدعنوانی ہر طرح سے بڑھی ہے۔ اب اس کا دعویٰ ہے کہ تعلیم اور بنیادی صحت کے معاملے میں انقلابی تبدیلی ہوئی ہے۔ بیانات اور اشتہارات کے ذریعہ بتایا جاتا ہے کہ دہلی کی سرکاری تعلیم عالمی سطح کی ہو گئی ہے۔ عآپ کے وزیر اور لیڈران اکثر کہتے ہیں کہ اب سرپرست اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں سے ہٹا کر سرکاری اسکولوں میں بھیجنے لگے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ عآپ نے دہلی میں حکومت بنانے کے بعد تعلیمی بجٹ کو کافی تیزی سے بڑھایا۔ 13-2012 میں دہلی کا تعلیمی بجٹ 5491 کروڑ روپے تھا جو 19-2018 آتے آتے 13995 کروڑ روپے ہو گیا۔ کچھ علاقوں، خصوصاً جنوبی دہلی میں کچھ اسکولوں اور کلاسز کو چمکایا گیا۔ یہی اسکول اشتہارات میں دکھائی دیتے ہیں، یہی پر غیر ملکی سفیر اور نمائندے دورے کے لیے جاتے ہیں۔


لیکن ایک وعدہ تھا کہ دہلی میں 500 نئے اسکول کھولے جائیں گے، اس میں اساتذہ اور دیگر ملازمین کی تقرری ہوگی، ان اسکولوں میں غریبوں کے بچے پڑھیں گے۔ 2022 میں ایک آر ٹی آئی کے جواب میں پتہ چلا کہ فروری 2015 سے مئی 2022 کے درمیان صرف 63 نئے سرکاری اسکول کھولے گئے۔ ’نیوز لانڈری‘ کے ذریعہ داخل ایک دیگر آر ٹی آئی کے جواب میں اکتوبر 2024 میں بتایا گیا کہ صرف 39 نئے سرکاری اسکول کھولے گئے۔

اب عآپ لیڈران اس وعدے کا تذکرہ بھی نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ حکومت نے سرکاری اسکولوں میں 23 ہزار نئے کمرے بنائے۔ دہلی ہائی کورٹ میں ڈالی گئی ایک عرضی کے مطابق شمال مشرقی دہلی کے 18 سرکاری اسکولوں میں انفراسٹرکچر کی حالت بہت خراب ہے۔ ان کی کلاسز میں بہت بھیڑ رہتی ہے۔ طلبا کے بیٹھنے کے لیے ڈیسک ناکامی ہیں اور کچھ طلبا کو برآمدے میں بیٹھنا پڑتا ہے۔


سنٹرل ویجلنس کمیشن کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی حکومت نے 194 اسکولوں میں 6133 کلاس رومز بنانے کا ہدف رکھا تھا، لیکن 141 اسکولوں میں 4027 کمرے ہی بنوائے۔ حالانکہ ادائیگی 7137 کلاسز بنانے کی ہوئیں۔ کئی مقامات پر ٹوائلٹ کو بھی کلاس روم میں شمار کر لیا گیا۔

مزید ایک دعویٰ رہا کہ اسکولوں میں تعلیم کے معیار کو بہت اعلیٰ کر دیا ہے۔ بطور ثبوت سی بی ایس ای بورڈ امتحان کے نتائج پیش کیے جاتے ہیں جن میں سرکاری اسکولوں کی کارکردگی پرائیویٹ اسکولوں سے بھی بہتر دکھائی جاتی ہیں۔ مثلاً 2024 کے ریزلٹ میں سرکاری اسکولوں کے 96.99 فیصد بچوں نے امتحان پاس کر لیا تھا، لیکن تمام اسٹڈی میں پایا گیا ہے کہ ان اسکولوں میں درجہ 9 اور 11 کے نصف سے زیادہ بچے ناکام ہو جاتے ہیں تاکہ درجہ 10 اور 12 میں صرف وہی بچے پہنچیں جن کے اچھے نمبر سے پاس ہونے کا زیادہ امکان ہو۔


تعلیم کے معیار کو سمجھنے کا مزید ایک پیمانہ بھی ہے، نیشنل اچیومنٹ سروے۔ سروے کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق:

  • دہلی میں درجہ 3 کے بچوں کا لینگویج اسکل 52 ہے، جبکہ قومی اوسط 62 ہے۔

  • ریاضی میں یہ اسکل 47 ہے، جبکہ قومی اوسط 57 ہے۔

  • انوائرنمنٹ اسٹڈیز میں درجہ 3 کے بچوں کا اسکل 48 اور قومی اوسط 57 ہے۔

یہ سچ ہے کہ ایک دور میں دہلی کے پرائیویٹ اسکولوں کے بہت سے بچوں نے سرکاری اسکولوں میں داخلہ لیا تھا۔ یہ دور تھا کووڈ وبا کا جب بہت سے لوگوں کی ملازمت چلی گئی تھی، یا لاک ڈاؤن کے سبب کام بند ہو گیا تھا۔ تب لوگوں نے اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن اب حالات پھر بدل گئے ہیں۔ دہلی کی بڑھتی آبادی کے تناسب میں یہاں سرکاری اسکولوں میں بچوں کی تعداد نہیں بڑھ رہی۔ کچھ جگہ تو یہ تعداد گھٹی بھی ہے۔ دوسری طرف سرکاری اسکولوں کی ڈراپ آؤٹ ریٹ کافی زیادہ ہے۔ درجہ 9 میں داخلہ لینے والے ڈھائی لاکھ سے زیادہ بچے درجہ 12 تک نہیں پہنچ پاتے۔


اروند کیجریوال سمیت دہلی کے بہت سارے عآپ لیڈران نے گزشتہ دنوں دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت نے دہلی میں 6 یونیورسٹیز کھولے ہیں۔ گزشتہ پوری ایک دہائی میں دہلی میں کھولی گئی یونیورسٹیز کی تعداد کسی بھی طرح سے 6 نہیں ہے۔ ان میں سے ایک ہے دہلی اسکل اینڈ انٹرپرینیورشپ یونیورسٹی جو 2020 میں کھولی گئی تھی۔ دوسری ہے دہلی اسپورٹس یونیورسٹی۔ 2020 میں کھولنے سے پہلے ہی دہلی حکومت نے اس کی تشہیر پر ایک کروڑ روپے خرچ کر دیے تھے۔ ابھی تک یہ یونیورسٹی عارضی کیمپس سے ہی چل رہی ہے۔ منڈکا میں 80 ایکڑ زمین پر اس کا کیمپس تیار ہو رہا ہے۔ تیسری ہے دہلی ٹیچرس یونیورسٹی۔ 2022 میں شروع کی گئی اس یونیورسٹی میں صرف 6 کورسز کی پڑھائی ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک یونیورسٹی بھی ایسی نہیں ہے جو ملٹی ڈسپلنری ہو اور جس میں سبھی سبجیکٹ کی پڑھائی ہوتی ہو۔

بنیادی صحت کو لے کر بھی دعوے بڑے تھے۔ محلہ کلینک کی تشہیر بھی بہت ہوئی۔ شروع میں بڑی تعداد میں لوگ آئے، لیکن ایک دہائی بعد اب محلہ کلینک غلط وجوہات سے خبروں میں آ رہے ہیں۔ سب سے زیادہ شکایتیں مریضوں کے فرضی رجسٹریشن کو لے کر ہیں۔ جانچ میں جو پتہ چلا، اس کی کچھ مثالیں اس طرح ہیں:

  • مریضوں کے 3 ہزار ریکارڈ ایسے تھے جن میں سب کا ایک ہی نمبر تھا- 9999999999۔

  • 15 موبائل نمبر پر 999 مریضوں کے نام درج تھے۔

  • 11657 ایسے مریض تھے جن کے فون نمبر میں صفر لکھا تھا۔

  • 8000 مریضوں کے معاملے میں فون نمبر کا خانہ خالی تھا۔


ظاہر ہے کہ ان سب کے نام پر خرچ ہو رہا پیسہ کسی اور کی جیب میں جا رہا تھا۔ ’انڈین ایکسپریس‘ کی ایک تازہ رپورٹ (13 جنوری 2025) میں آر ٹی آئی کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کلینک میں آنے والے مریضوں کی تعداد 28 فیصد تک گری ہے جو کووڈ کے دوران تیزی سے بڑھی تھی۔

10 نئے اسپتال کھولنے کا وعدہ بھی تھا لیکن 10 سال میں 3 نئے اسپتال ہی شروع ہو سکے- امبیڈکر نگر اسپتال، براڑی اسپتال اور اندرا گاندھی اسپتال دوارکا۔

پبلک ٹرانسپورٹ کو آسان بنانے کے لیے 11 ہزار بسیں چلانے کا وعدہ تھا۔ ابھی 7700 پبلک بسیں ہی چل رہی ہیں، جن میں سے ڈی ٹی سی کی کئی سی این جی بسیں ایسی ہیں جن کا وقت پورا ہو چکا ہے۔ اب نیا شگوفہ چھوڑا گیا ہے الیکٹرک بسیں چلانے کا۔ جب بھی دہلی کے لیے بسیں خریدنے کا معاملہ آتا ہے، حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر میں جنگ شروع ہو جاتی ہے۔

میٹرو کی توسیع بھی سست رفتار رہی ہے۔ 5 جنوری کو اروند کیجریوال نے ’ایکس‘ پر کیے گئے ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ میٹرو کی 200 کلومیٹر توسیع کی گئی ہے اور 250 کلومیٹر کی توسیع پر کام چل رہا ہے۔ وعدہ میٹرو کی 500 کلومیٹر توسیع کی تھی۔


ہر کنبہ کو ہر ماہ 40 ہزار لیٹر مفت پانی دینے کا وعدہ بھی تنازعات میں پھنس گیا ہے۔ گندے پانی کی سپلائی کی شکایتیں کئی جگہوں سے آ رہی ہیں۔ کئی کنبوں کو بہت زیادہ پانی کے بل ملے ہیں۔ کیجریوال کہہ رہے ہیں کہ آئندہ 5 سالوں میں سب کو صاف پانی دستیاب کرائیں گے، اور بڑھے بل بھی معاف کیے جائیں گے۔

وعدہ تھا کہ دہلی میں آلودگی بہت کم کریں گے۔ ہوا یہ کہ آلودگی بڑھ گئی۔ یہ بھی کہا تھا کہ 2 کروڑ درخت لگائیں گے۔ حال ہی میں وزیر ماحولیات گوپال رائے نے کہا کہ 4 سال میں دہلی میں 2 کروڑ درخت اور 35 لاکھ جھاڑیاں لگائی گئی ہیں۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ لگائے گئے درختوں میں کتنے بچے۔

اروند کیجریوال خود اعتراف کر چکے ہیں کہ اپنی مدت کار میں وہ جمنا کو صاف نہیں کروا سکے۔ دہلی کو کوڑے کے ڈھیر سے آزادی بھی نہیں مل سکی ہے۔ نئے لینڈفل سائٹ ابھی تک تیار نہیں کیے گئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پورے نہیں کیے جا سکے وعدوں کی فہرست بہت طویل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔