ہلدوانی: ایسے کسی کو اجاڑا نہیں جا سکتا!

اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے ریمارکس بھی انتہائی حیران کن تھے جس میں ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ ریلوے کی زمین پراب تک ناجائز قبضہ برقرار رکھنے کے پیچھے ووٹ بینک کی سیاست کارفرما تھی۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

نواب علی اختر

ہلدوانی میں بنبھول پورا علاقے میں مبینہ ریلوے کی 29 ایکڑ اراضی پر آباد مکینوں پر اس وقت بجلی گرگئی جب اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے 20 دسمبر کو 7 دن کا نوٹس جاری کرکے طاقت کے زور پرعلاقہ خالی کرانے اور تعمیرات کو گرانے کا حکم دیا۔ ریاست کی بی جے پی حکومت کی مسلم دشمنی کے سبب سردی کے موسم میں ہزاروں لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑگئی۔ سینکڑوں مردو خواتین خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوگئے کیونکہ انہیں اپنے بچوں کا مستقبل تاریک نظر آنے لگا تھا۔ ان حالات میں متاثرین کے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ متاثرین نے عدالت عظمیٰ کے سامنے حکومت کی نیت کو بے نقاب کیا، جہاں متاثرین کو راحت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ برسوں سے ایک جگہ پر رہنے والے 50 ہزار لوگوں کو سات دن کے نوٹس پر نہیں اجاڑا جا سکتا۔

اتراکھنڈ کے ہلدوانی شہر میں ریلوے ٹریک کو چوڑا کرنے کی آڑ میں 4000 سے زیادہ مکانات کو زمیں دوز کرنے کی مہم پر عارضی روک لگا کر سپریم کورٹ نے جہاں متاثرین کے درد کو سمجھا ہے، وہیں اس نے حکومت اور انتظامیہ کی ہٹ دھرمی پر بھی کرارا حملہ کیا ہے۔ حکومت کے لیے جیسے سب کچھ روبوٹک ہے، برسوں تک کسی زمین پر قبضہ جاری رہیں گے، وہاں رہنے والوں کے راشن کارڈ، بجلی کنکشن اور دیگر تمام سرکاری دستاویزات تیار ہوتے رہیں گے لیکن پھر اچانک نیند کھلتی ہے اور وہاں سب کچھ غلط ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں چار سرکاری اسکول، 11 نجی اسکول، ایک بینک، دو اوور ہیڈ واٹر ٹینک، 10 مساجد اور چار مندر ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دہائیوں پہلے بنی ہوئی دکانیں بھی ہیں۔


کہا جا رہا ہے کہ یہ مکانات ریلوے کی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے بنائے گئے ہیں۔ اس معاملے میں اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے ریمارکس بھی انتہائی حیران کن تھے جس میں ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ ریلوے کی زمین پر اب تک ناجائز قبضہ برقرار رکھنے کے پیچھے ووٹ بینک کی سیاست کارفرما تھی۔ اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ یہ غریب لوگ ہیں جو محلہ نئی بستی، ہلدوانی ضلع میں 70 سال سے زیادہ عرصے سے قانونی طور پر مقیم ہیں۔ پھر بھی اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے 4,365 گھروں میں رہنے والے 50,000 سے زیادہ لوگوں کو بے دخل کرنے کا حکم دے دیا، اس حقیقت کے باوجود کہ پی پی ایکٹ کے تحت کئی معاملات ضلع مجسٹریٹ کے سامنے زیر التوا ہیں۔

اس کے علاوہ مقامی رہائشیوں کے نام ہاؤس ٹیکس کے تحت میونسپل ریکارڈ میں درج ہیں اور وہ سالوں سے باقاعدگی سے ہاؤس ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ اس علاقے میں 5 سرکاری اسکول، ایک اسپتال اور دو اوور ہیڈ واٹر ٹینک ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ عرضی گزاروں اور ان کے آباء و اجداد ہندوستان کی آزادی کی تاریخ سے بھی پہلے سے یہاں آباد ہیں، جسے ریاست اور اس کی ایجنسیوں نے تسلیم کیا ہے اور انہیں گیس اور پانی کے کنکشن اور یہاں تک کہ آدھار کارڈ نمبر بھی دے کر ان کے رہائشی پتے قبول کئے گئے ہیں۔ اس غیر قانونی حکم کے خلاف ایک ایس ایل پی بھی دائرکی گئی ہے جس میں 30 درخواست گزاروں کی اپیلیں پی پی ایکٹ کے تحت ضلعی عدالت میں زیر التوا ہیں۔


عدالت عظمیٰ نے تقریباً 50,000 سے بھی زیادہ مسلم اورغیرمسلم لوگوں کو راحت دیتے ہوئے اس معاملے میں کئی اہم سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ قانون اور اس کے نفاذ سے متعلق ان بنیادی پہلوؤں پر پہلے توجہ نہیں دی گئی۔ یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ مبینہ طور پر ریلوے کی ملکیتی اراضی پر بنائے گئے کئی مکانات، جنہیں غیر قانونی قرار دے کر منہدم کرنے کا کہا جا رہا ہے، آزادی سے پہلے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان لوگوں کے پاس ان گھروں سے متعلق تمام دستاویزات ہیں۔ ریاستی حکومت اس زمین کے کچھ حصے کو اپنا بتا رہی ہے۔ ریلوے کی زمین کہاں تک پھیلی ہوئی ہے اور ریاستی حکومت کی زمین کہاں سے شروع ہوتی ہے اس کی کوئی حد بندی نہیں ہے۔

نسلوں سے رہنے والے لوگ کہاں جائیں گے، بے گھر ہونے کے بعد کیسے رہیں گے، بچوں کی پڑھائی لکھائی کا کیا ہوگا، اس بارے میں کچھ بھی منصوبہ نہیں بنایا گیا اور نہ ہی اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے اس پر کوئی بات کی۔ یہاں تک کہ ان ہزاروں لوگوں کی بازآباد کاری کے انتظام پر بھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ کی منتخب حکومت نے بھی اس بارے میں کوئی تشویش ظاہر کرنا ضروری نہیں سمجھا، جب کہ اس مہم سے متاثر ہونے والے باشندے اس کی توقع کر رہے تھے۔ جمہوری نظام میں لوگ حکومت سے ہی توقع رکھتے ہیں۔ ان حالات میں مایوس اور پریشان خواتین، بچے، بزرگ سخت سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے اور دھرنا دے کراپنا آشیانہ بچانے کی فریاد کرنے لگے۔


معاملے میں سپریم کورٹ نے اسٹے دیا ہے لیکن خطرہ برقرار ہے۔ معاملے پر اگلی سماعت 7 فروری کو ہوگی۔ ریاستی حکومت اور ریلوے سے بھی جواب طلب کیا گیا ہے۔ وہاں معاملے کے تمام پہلوؤں پر باریک بینی سے غور کیا جائے گا لیکن سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر اہم کسوٹی طے کر دی ہے کہ معاملے کا کوئی’عملی حل‘ تلاش کرنا ہوگا۔ امید کی جانی چاہئے کہ سپریم کورٹ کے ریمارکس کو اس طرح کے دیگر معاملات میں بھی مدنظر رکھا جائے گا۔ اس وقت آسام میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے کے الزام میں جہاں 100 سال سے بسنے والی مسلم بستیوں کو اجاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہیں مدھیہ پردیش کے اجین میں مہاکبھ کے پیش نظر پارکنگ کی تعمیر کے لیے مسلمانوں کو بے گھر کر دینے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔