پنجاب اسمبلی انتخابات: چنیّ کے سامنے چکناچور ہوتا کیجریوال کے ’خوابوں کا محل!‘...گراؤنڈ رپورٹ

گزشتہ اسمبلی انتخابات میں برنالہ ضلع کی تینوں سیٹوں پر قبضہ کرنے والی عام آدمی پارٹی اس بار مقابلہ میں پھنس چکی ہے، چنی کی مقبولیت انتہائی پسماندہ علاقہ بھدوڑ میں کیجریوال کی راہ میں حائل نظر آ رہی ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

دھیریندر اوستھی

چنڈی گڑھ: کانگریس کی جانب سے وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی کو وزیر اعلیٰ عہدے کا امیدوار قرار دینے کا واؤ کام کر گیا مالوہ کی بنیاد پر پنجاب کے اقتدار کا خواب دیکھنے والے کیجریوال کا ’خوابوں کا محل‘ چکناچور ہو جائے گا۔ دراصل، کانگریس نے برنالہ ضلع کی بھدوڑ (محفوظ) سیٹ سے چنی کو میدان میں اتار کر بہترین اقدام لیا ہے اور اس کا اثر زمین پر بھی نظر آ رہا ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں برنالہ ضلع کی تینوں سیٹوں پر قبضہ کرنے والی عام آدمی پارٹی اس بار مقابلہ میں پھنس چکی ہے، چنی کی مقبولیت انتہائی پسماندہ علاقہ بھدوڑ میں کیجریوال کی راہ میں حائل نظر آ رہی ہے۔

برنالہ تزویراتی لحاظ سے مالوہ کا ایک اہم ضلع ہے۔ اس کو اس طرح سے سمجھا جا سکتا ہے کہ پنجاب کے علاقہ مالوہ کے 5 اضلاع کی سرحدیں برنالہ سے ملتی ہیں۔ یہ اضلاع بھٹنڈہ، لدھیانہ، مانسا، موگا اور سنگرور ہیں۔ اس طرح یہاں برنالہ سمیت 6 اضلاع سے 3 درجن سے زائد اسمبلی سیٹیں آتی ہیں۔ اس لحاظ سے ہم برنالہ کو اعصابی مرکز کہہ سکتے ہیں۔ مالوہ میں 69 سیٹیں ہیں، اتنی سیٹوں والا علاقہ کسی بھی پارٹی کے لیے اقتدار تک پہنچنے کے لیے سیڑھی ثابت ہو سکتا ہے۔ برنالہ کانگریس کی کمزور کڑی تھی۔ عام آدمی پارٹی نے گزشتہ تین انتخابات 2014، 2017 اور 2019 میں اس علاقے میں مضبوط گرفت بنائی تھی۔ برنالہ سے وابستہ سنگرور عآپ کے وزیراعلیٰ بھگونت مان کا گڑھ بھی ہے۔


چمکور صاحب کے علاوہ کانگریس نے چنی کو بھدوڑ سے بھی میدان میں اتار کر عآپ کے لئے راہ کو مشکل بنا دی ہے۔ چنی کے اترنے سے کانگریس کو نہ صرف برنالہ بلکہ آس پاس کے اضلاع میں بھی اس کا اثر ہونے کی امید ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کانگریس کا سی ایم چہرہ چل جاتا ہے تو چنڈی گڑھ زیادہ دور نہیں ہوگا۔ زمین اس کا اثر بھی نظر آ رہا ہے۔ چنی کے وزیراعلیٰ بننے کی صورت میں بھدوڑ کے لوگوں کی خواہشات پوری ہو سکتی ہیں اور لوگوں کو اس پر یقین بھی آنے لگا ہے۔

گگن پریت سنگھ، مارکیٹ کمیٹی کے ممبر سادھو رام، بھدوڑ کے سابق کونسلر اشوک ورما، لیبر یونین کے سربراہ رام سنگھ، سرجیت سنگھ نمبردار اور گوگی سنگھ نے کہا کہ یہاں اگر اسپتال ہے تو کوئی ڈاکٹر نہیں ہے، ادویات نہیں ہیں۔ یہاں کوئی صنعت نہیں ہے اس لیے روزگار کی حالت بہت خراب ہے۔ دیہات میں بینک نہیں ہیں۔ ڈسپنسری ہے لیکن وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ ہسپتال کی عمارت بھی خستہ حال ہے۔ واٹر سپلائی میں لیکیج ہے جس کی وجہ سے پانی میں ریت مل جاتی ہے اور لوگ وہی پانی پینے پر مجبور ہیں۔


لوگوں کا مطالبہ ہے کہ بھدوڑ میں گورنمنٹ ڈگری کالج اور میڈیکل کالج ہونا چاہیے۔ ایک بڑی تحصیل ہونی چاہیے جس میں ایس ڈی ایم بیٹھے۔ ایس ڈی ایم کے نہ بیٹھنے کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اتنی لمبی فہرست ہونے کا مطلب ہے کہ وزیراعلیٰ کے چہرے کا کارڈ کام کر رہا ہے۔ بھدوڑ مالوہ کا وہ علاقہ ہے جو اب بھی پسماندہ ہے۔ برنالہ ہائی وے کو چھوڑ کر انتہائی تنگ سڑکوں سے گزرتے ہوئے بھدوڑ پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو ایک بڑے چہرے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے لوگوں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر چنی وزیر اعلیٰ بنیں گے تو اس خطے کی یہ امیدیں پوری ہوں گی۔ اس حلقہ میں بھدوڑ اور تپا دو شہر کونسل ہیں۔ زمین پر کچھ اور حقائق بھی کام کر رہے ہیں۔

لوگ بی جے پی سے ناراض ہیں۔ گگن پریت نے کہا کہ زرعی قوانین کے خلاف تحریک میں سات سو کسان شہید ہوئے۔ قوانین واپس لے لیے گئے لیکن فصلوں کی ایم ایس پی نہیں ملی۔ مہنگائی کے حالات اتنے خراب ہیں کہ ڈیزل، پٹرول، سلنڈر اور سرسوں کا تیل حد سے باہر ہو گئے ہیں۔ لوگ جی ایس ٹی کو مہنگائی کی بڑی وجہ مانتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کے سوال پر لوگ کہتے ہیں کہ انہیں اچھی تنخواہ ملتی ہے، کام کے نام پر وہ کچھ نہیں کرتے اور اس کے بعد بھی وہ حکومت کو بلیک میل بھی کرتے رہتے ہیں۔


اکالی دل کی بات کرنے پر لوگوں نے کہا کہ وہ نمبر تین کی جنگ لڑ رہی ہے۔ بے ادبی اور منشیات کی لت کا مسئلہ اکالیوں کے خلاف کام کر رہا ہے۔ کیپٹن امریندر کے سوال پر لوگوں نے کہا کہ انہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ نوکریوں کے انتظار میں لوگوں کی عمر گزر چکی ہیں۔ بھدوڑ کے بازار میں ملے بھولا سنگھ، میجر سنگھ اور دھنا سنگھ نے کہا کہ چنی نے 3 ماہ کے اندر سب کو فائدہ پہنچایا۔ کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں دیکھا۔ بجلی کا بل دو ہزار تھا، وہ معاف کر دیا گیا۔ بھولا سنگھ نے کہا کہ لوگ کیپٹن سے بہت ناراض ہیں۔ بھدوڑ کے مرکزی اڈے پر جوس کی دکان چلانے والے راج کمار نے کہا کہ یہاں مقابلہ صرف عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان ہے۔

اسی دوران وہاں آئے گرمیل اور رپندر نے کہا کہ جوں جوں الیکشن قریب آرہا ہے، چنی کا زور بڑھ رہا ہے تاہم عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان مقابلہ بہت سخت ہے۔ کسانوں کی طرف سے بنائے گئے سنیوکت سماج مورچہ کے سوال پر گرمیل سنگھ نے کہا کہ کسانوں کو الیکشن نہیں لڑنا چاہیے تھا۔ کسان لیڈر اب بھی قابل احترام ہیں اور لوگ انہیں سیاست میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ لوگ کیپٹن امریندر کا نام سننے کو تیار نہیں تھے۔ یہاں ایک بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ 22 کسان تنظیموں کو ملا کر بنایا گیا سنیوکت سماج مورچہ ووٹ کاٹنے کے کردار میں زیادہ نظر آتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اکالی دل اپنی مطابقت کھوتا نظر آ رہا ہے۔


بھدوڑ حلہ کی تشکیل 1967 میں ہوئی تھی۔ 12 الیکشن ہو چکے ہیں اور یہاں اکالی دل نے زیادہ بار جیت حاصل کی ہے۔ کانگریس نے دو بار اور عام آدمی پارٹی، بی ایس پی اور سی پی آئی نے ایک ایک بار کامیابی حاصل کی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے بھدوڑ سے لابھ سنگھ کو جبکہ شرومنی اکالی دل نے ستنام سنگھ کو میدان میں اتارا ہے۔ 2014 میں بھدوڑ سیٹ سے عآپ کے ٹکٹ پر جیتنے والے پیرمل سنگھ بھی کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہیں اور اس کا فائدہ کانگریس کو ہو سکتا ہے۔ 2017 میں عآپ کے پیرمل سنگھ نے اکالی دل کے بلویر گھناس کو 20784 ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔ یہاں ذات پات کی مساوات بھی چنی کے لیے سازگار ہے۔ یہاں کل ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 57 ہزار 324 ہے۔ اس میں سے تقریباً 60 ہزار ایس سی بھائی چارے کے ووٹ ہیں۔ ان میں نصف سے زیادہ رام داسیا سکھ شامل ہیں۔ تقریباً 40 ہزار جاٹ سکھ ووٹ ہیں۔ باقی ووٹ ہندوؤں اور او بی سی کے ہیں۔ تقریباً 56 گاؤں والے بھدوڑ ضلع میں دیہی ووٹر بہت اہم ہیں۔

عام آدمی پارٹی کو 2014 کے لوک سبھا انتخابات، پھر 2017 کے اسمبلی انتخابات اور پھر 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھدوڑ سے برتری حاصل ہوئی تھی۔ چنی فیکٹر نے کس طرح برنالہ ضلع کی تمام سیٹوں پر مقابلہ سخت کر دیا ہے، اس کا اندازہ محل کلاں کے ایک گاؤں چنگ کے چوپال پر بیٹھے لوگوں نے بھی ظاہر کر دیا۔ یہاں بیٹھے گرپریت سنگھ، سندیپ، کرنیل اور ناظر سنگھ کہتے ہیں کہ چنی کو تو موقع ہی نہیں ملا، اس کے بعد بھی بجلی کے بل معاف ہوئے اور ہمیں براہ راست فائدہ ہوا۔ سندیپ نے بتایا کہ یہاں موجود ڈسپنسری بند ہے۔ اسکول صرف پانچویں جماعت تک ہے۔ تیل مہنگا ہونے سے عوام کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ روزگار ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وزیر اعلیٰ کو ان مسائل پر کام کرنا چاہیے۔ سندیپ نے بتایا کہ تقریباً 1200 ووٹروں والے اس گاؤں میں دلت طبقہ کے تقریباً 300 لوگ رہتے ہیں۔ سندیپ نے اس بات سے انکار کیا کہ کسانوں کی پارٹی کا یہاں کوئی چرچا ہے۔ محل کلاں بھی ایک محفوظ نشست ہے۔ یہ پہلی بار 2012 میں وجود میں آئی تھی۔ 2012 میں کانگریس، 2017 میں عآپ نے یہاں سے کامیابی حاصل کی۔ یہی صورتحال برنالہ اسمبلی سیٹ پر بھی دیکھنے میں آئی۔ برنالہ ہائی وے پر ڈھابہ چلانے والے اچھے رام نے بتایا کہ یہاں مقابلہ سخت ہے۔ لوگ کانگریس اور عآپ پر زیادہ بحث کر رہے ہیں۔ کانگریس نے برنالہ سے سابق مرکزی وزیر پون بنسل کے بیٹے منیش بنسل کو میدان میں اتار کر مقابلہ سخت کر دیا ہے۔


برنالہ ایک ایسا شہر ہے جہاں ہندو آبادی بھی کافی ہے۔ یہاں سے عآپ کے موجودہ ایم ایل اے میت ہیئر، سابق اکالی دل ایم ایل اے ملکیت کیتو کے بیٹے کلونت کانتا، کانگریس کے منیش بنسل اور بی جے پی کے دھیرج ددھاہور کے درمیان مقابلہ ہے۔ یہاں سے سنیوکت سماج مورچہ نے عآپ کے پرانے کارکن جسویر کھیڑی امیدوار بنایا ہے، کسانوں کا ایک بڑا گروپ ان کے ساتھ ہے۔ اس نے عآپ کے لیے مزید مشکل پیدا کر دی ہے۔ کانگریس نے صرف مالوہ کے اثر کو کم کرنے کے لیے ہی چنی کو امیدوار بنایا ہے۔ چنی یہاں کے لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ اگر وزیراعلیٰ بھدوڑ سے ہوگا تو یہ علاقہ وی آئی پی بن جائے گا۔ ریاست اور راجدھانی میں یہاں کی عزت ہوگی۔ لوگوں میں اس کا چرچا بھی کافی ہے۔ کانگریس نے 2017 کے اسمبلی انتخابات میں مالوہ بیلٹ میں کل 69 سیٹوں میں سے 40 پر کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ عام آدمی پارٹی کو 18 سیٹوں کا نقصان ہوا تھا۔ مالوہ خطہ میں 69 میں سے 18 سیٹیں محفوظ ہیں۔ ان میں سے 2017 میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی دونوں کو 9-9 سیٹیں ملی تھیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔