گراؤنڈ رپورٹ فتح پور: مذہب کی سیاست پر بھاری پڑ رہی ذاتیات کی ریاضی!

اتر پردیش میں تیسرے مرحلے کے انتخابات میں یادو اکثریت ہونے کے سبب ایس پی اتحاد یہاں مضبوط قرار دیا جاتا ہے اور مذہب کی سیاست کرنے والی جماعت کو کافی مشکلات کا سامنا ہے

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

فتح پور: اتر پردیش انتخابات میں دو مراحل کی پولنگ مکمل ہو چکی ہے اور اب 23 فروری کو چوتھے مرحلہ میں ’یادو بیلٹ‘ میں پولنگ ہونے جا رہی ہے۔ یہاں ایس پی، آر ایل ڈی اتحاد کو مضبوط قرار دیا جاتا ہے اور بی جے پی بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے، لہذا اس نے بندیل کھنڈ میں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔

گراؤنڈ رپورٹ فتح پور: مذہب کی سیاست پر بھاری پڑ رہی ذاتیات کی ریاضی!
گراؤنڈ رپورٹ فتح پور: مذہب کی سیاست پر بھاری پڑ رہی ذاتیات کی ریاضی!
گراؤنڈ رپورٹ فتح پور: مذہب کی سیاست پر بھاری پڑ رہی ذاتیات کی ریاضی!
گراؤنڈ رپورٹ فتح پور: مذہب کی سیاست پر بھاری پڑ رہی ذاتیات کی ریاضی!
گراؤنڈ رپورٹ فتح پور: مذہب کی سیاست پر بھاری پڑ رہی ذاتیات کی ریاضی!
گراؤنڈ رپورٹ فتح پور: مذہب کی سیاست پر بھاری پڑ رہی ذاتیات کی ریاضی!
گراؤنڈ رپورٹ فتح پور: مذہب کی سیاست پر بھاری پڑ رہی ذاتیات کی ریاضی!

سال 2017 میں بی جے پی بندیل کھنڈ میں یکطرفہ طور پر فتح یاب رہی تھی۔ بندیل کھنڈ کے دورہ پر پہنچے سماج وادی پارٹی کے لیڈر اکھلیش یادو نے دعوی کیا ہے کہ بندیل کھنڈ اس مرتبہ حیران کر دے گا۔ اکھلیش یادو نے یہ دعویٰ اپنی ذاتیات کی ریاضی کی بنیاد پر کیا ہے۔ جن سیٹوں پر 23 فروری کو پولنگ ہونے جا رہی ہے ان میں سے فتح پور سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ضلع ہے۔ یہاں ساڑھے تین لاکھ مسلم ووٹوں کی تقسیم کو لے کر بحث چل رہی ہے۔ بی ایس پی 2 مسلم امیدواروں سے یہاں مقابلہ کر رہی ہے۔ منگل کو اسی ضلع کی جہاں آباد اسمبلی سیٹ پر پہنچے اکھلیش یادو نے فتح پور کے بڑے لیڈر مرحوم سید قاسم حسن کی قبر پر گلہائے عقیدت پیش کرنے کے بعد ناراضگی کو کافی حد تک دور کر دیا ہے۔ فتح پور کی کھاگا اور آیا شاہ اسمبلی سیٹوں پر کانگریس بھی مقابلہ میں ہے۔ یہاں کسانوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ آوارہ جانوروں کے ذریعہ فصلوں کی بربادی ہے اور نوجوانوں میں روزگار کو لے کر بھی ناراضگی ہے۔


فتح پور صدر اسمبلی سیٹ پر بی جے پی کے وکرم سنگھ نے سماج وادی پارٹی کے چندر پرکاش لودھی کو شکست دی تھی۔ ایس پی نے چندر پرکاش لودھی کو پھر سے میدان میں اتارا ہے۔ بی جے پی نے بھی اپنا امیدوار نہیں بدلا ہے اور بی ایس پی نے ایک مسلم امیدوار کو میدان میں اتارا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق فتح پور صدر اسمبلی سیٹ میں تقریباً 75 ہزار لودھی ووٹ ہیں اور اس کے بعد مسلم ووٹروں کی تعداد ہے۔ لودھی اکثریتی اسمبلی ہونے کے باوجود یہاں سے صرف ایک بار لودھی ایم ایل اے بن پایا ہے۔ شاید اسی امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے اکھلیش یادو نے چندر پرکاش لودھی کو پھر سے امیدوار بنایا ہے۔

تمام 6 سیٹوں پر بی جے پی کی جیت اور ضلع سے دو وزیر بنانے کے بعد بھی لوگوں کی امیدیں پوری نہ ہو پانے کے سبب لوگوں میں ناراضگی ہے۔ فتح پور صدر کے ویبھو سنگھ کے مطابق ریاستی حکومت میں وزیر اور ایم پی مرکزی حکومت میں وزیر ہونے کے باوجود شہر میں توقع کے مطابق کام نہیں ہوا۔ پانچ سالوں میں صرف میڈیکل کالج ملا، وہ بھی آدھا ادھورا ہے۔ اس کے علاوہ فتح پور کا سب سے بڑا مسئلہ لکشمی کاٹن مل کا بند ہونا بھی ہے۔ ساڑھے تین سال قبل اس کی بندش کی وجہ سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو گئے تھے۔


جہان آباد کے عابد حسن کے مطابق اس کا مالک ملک چھوڑ کر بھاگ گیا اور اس نے اس میں کام کرنے والے ہزاروں خاندانوں کی پرواہ نہیں کی، ان کے مسائل بھی نہیں پوچھے۔ یہاں اے ایم یو کے ایک نوجوان طالب علم سمیر خان کا کہنا ہے کہ وہ ایک نوجوان ہیں اور اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ فتح پور کے نوجوان روزگار کے لیے بڑے شہروں کی طرف ہجرت کرتے ہیں، کیونکہ فتح پور میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ موجودہ بی جے پی حکومت نے صرف اعداد و شمار میں نوکریاں دی ہیں۔ سمیر کا کہنا ہے کہ وہ روزگار کے معاملے پر ووٹ دیں گے۔

فتح پور کی بندکی اسمبلی میں اہم مقابلہ اپنا دل اور سماج وادی پارٹی کے درمیان نظر آ رہا ہے۔ کرمی اکثریتی اسمبلی میں مسلم ووٹروں کا بھی فیصلہ کن کردار ہے۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کے کرن سنگھ پٹیل نے سماج وادی پارٹی کے دیالو گپتا کو 50,000 سے زیادہ کے فرق سے شکست دی تھی۔ اس بار یہ سیٹ بی جے پی کی حلیف اپنا دل (انوپریہ پٹیل) کے کھاتے میں گئی ہے۔ اپنا دل نے بندکی اسمبلی سے جہان آباد کے ایم ایل اے اور یوگی حکومت میں وزیر مملکت جے کمار جیکی کو میدان میں اتارا ہے۔ ایس پی نے اپنے پرانے امیدوار دیالو گپتا پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔ دوسری طرف بی ایس پی نے سشیل پٹیل کو الیکشن میں اتارا ہے۔ ابھیمنیو سنگھ کانگریس کی طرف سے میدان میں ہیں۔ بندکی اسمبلی پر 1996، 2007 اور 2012 میں بی ایس پی کا قبضہ تھا۔ گزشتہ کئی بار وہ کرمی برادری سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔


یہاں کے عاقل حسین کا کہنا ہے کہ بندکی میں 2012 اور 2007 میں بی ایس پی کے ایم ایل اے سکھ دیو ورما تھے اور ان کے دور میں ہی کام ہوئے تھے، موجودہ ایم ایل اے نے کچھ نیا نہیں کیا۔ اس بار عوام ان کے جھوٹے اور کھوکھلے وعدوں میں نہیں آنے والے۔ جہان آباد اسمبلی میں مسلم اور کرمی ووٹروں کا فیصلہ کن کردار ہے۔ جہان آباد اسمبلی میں سماج وادی پارٹی نے اپنے سابق ایم ایل اے مدن گوپال ورما پر داؤ کھیلا ہے، وہیں بہوجن سماج پارٹی نے بھی اپنے سابق ایم ایل اے آدتیہ پانڈے کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ بی جے پی نے سابق وزیر راجندر پٹیل کو میدان میں اتارا ہے، جو ایک کرمی چہرہ ہیں۔ 2017 میں بی جے پی کے اتحادی، اپنا دل کے جے کمار جیکی نے ایس پی کے مدن گوپال ورما کو شکست دی تھی۔ پارٹی نے اب جے کمار جیکی کو بندکی اسمبلی میں منتقل کر دیا ہے۔

محمد عادل کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں موجودہ ایم ایل اے جے کمار جیکی کو علاقے میں کم ہی دیکھا گیا اور نہ ہی ان کے دور میں کوئی ترقیاتی کام ہوئے، یہی وجہ ہے کہ جے کمار جیکی کو بندکی بھیج دیا گیا کیونکہ وہ یہاں سے الیکشن ہار گئے تھے۔ نریندر کا کہنا ہے کہ جہان آباد میں پانچ سال میں کوئی کام نہیں ہوا موجودہ ایم ایل اے نے عوام کو بے وقوف بنایا ہے۔


فتح پور کی حسین گنج اسمبلی میں مسلم اور یادو ووٹر فیصلہ کن کردار میں ہیں۔ حسین گنج میں بی جے پی نے اپنے موجودہ ایم ایل اے اور حکومت میں وزیر مملکت رنوندر پرتاپ سنگھ کو میدان میں اتارا ہے، جبکہ سماج وادی پارٹی نے 2017 میں ایس پی کانگریس اتحاد کی امیدوار اوشا موریہ کو ٹکٹ دیا ہے۔ کانگریس سے شیوکانت تیواری اور بی ایس پی سے مسلم چہرہ فرید احمد میدان میں ہیں۔ حسین گنج اسمبلی سیٹ 2007 میں وجود میں آئی تھی۔ 2012 میں بی ایس پی کے محمد آصف ایم ایل اے بنے تھے۔

عبداللہ کا کہنا ہے کہ نظام بدحال ہیں اور حسین گنج کے علاقے میں سرکاری اسپتالوں کا ناقص نظام، کھیتی باڑی کا ناقص نظام، جانوروں کے اسپتال کا ناقص انتظام، دیہاتوں میں صفائی کا فقدان، تعلیم کا ناقص نظام، رابطہ سڑکوں کا فقدان، علاقے میں بجلی کی ٹوٹی پھوٹی لائنیں اس کی عکاس ہیں۔


آیا شاہ اسمبلی سیٹ 2007 میں حد بندی کے بعد وجود میں آئی، اس سے پہلے یہ اسمبلی ہسوا کے نام سے جانی جاتی تھی۔ آیا شاہ اسمبلی میں او بی سی ووٹروں کا فیصلہ کن کردار ہے، اس کے بعد ٹھاکر، برہمن ووٹر ہیں۔ 2017 میں آیا شاہ اسمبلی میں تین بار کے سابق وزیر رادھے شیام گپتا کے بیٹے وکاس گپتا نے ایس پی کے ایودھیا پرساد پال کو شکست دی۔ ایودھیا پرساد پال نے 2018 میں ایس پی چھوڑ کر بی ایس پی میں چلے گئے تھے لیکن اس سال دسمبر میں دوبارہ ایس پی میں شامل ہوئے، لیکن ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے بی جے پی میں چلے گئے۔ اس سے پہلے ایودھیا پرساد پال بھی آیا شاہ سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔

آیا شاہ میں سماج وادی پارٹی نے اپنے راجیہ سبھا ایم پی اور پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری وشمبر پرساد نشاد کو میدان میں اتارا ہے۔ ایس پی نے نشاد چہرے کو اتار کر بی جے پی کے او بی سی ووٹ بینک کو نقصان پہنچایا ہے۔ وشمبر نشاد کے آنے سے اس سیٹ کے مساوات بدل گئے ہیں۔ کانگریس نے ہیم لتا پٹیل کو ٹکٹ دیا ہے، ہیم لتا کئی سالوں سے اپنے سماجی کاموں کے لیے سرگرم ہیں، وہ گلابی گینگ سے آتی ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی نے نئے چہرے چندن پال کو ٹکٹ دیا ہے۔ آیا شاہ ضلع باندہ کی ملحقہ اسمبلی ہے اور ترقی کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے۔


کھاگا ایک محفوظ اسمبلی سیٹ ہے اور یہاں ایس سی ووٹر فیصلہ کن رول میں ہیں۔ کرشنا پاسوان موجودہ رکن اسمبلی ہیں اور ان کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ 2012 میں بھی کرشنا پاسوان یہاں سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ بی جے پی نے ایک بار پھر ان پر داؤ کھیلا ہے۔ سماج وادی پارٹی نے سابق آئی پی ایس رام تیرتھ پرمہنس پر داؤ کھیلا ہے۔ کانگریس نے ایک بار پھر اپنے پرانے امیدوار اوم پرکاش گیہار کو ٹکٹ دیا ہے۔ بی ایس پی سے دشرتھ لال سروج میدان میں ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں کرشنا پاسوان نے کانگریس کے اوم پرکاش کو شکست دی تھی۔ کھاگا ضلع کوشامبی سے متصل ایک نشست ہے۔ 1993 سے سماج وادی پارٹی یہاں سے خالی ہاتھ ہے۔ پہلے اس اسمبلی سیٹ کو کشن پور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں سے ابھی تک سماج وادی پارٹی کا کھاتہ نہیں کھلا ہے۔ مسائل میں ناقص تعلیمی نظام، دیہات میں پسماندگی، خراب سڑکیں وغیرہ شامل ہیں۔

نوجوان عقیل حسین کا کہنا ہے کہ فتح پور بہت اہم ضلع ہے اور اب تک یہ علاقہ فرقہ پرستی کی سیاست سے دور ہے۔ فتح پور ضلع میں تمام اسمبلی سیٹوں پر اپنی ذات کا رکن اسمبلی بنانے کی ہوڑ رہتی ہے۔ یہاں لودھ اور کُرمی معاشرے میں یہ بے چینی زیادہ ہو گئی ہے۔ یہاں مذہب کی سیاست پر ذات پات کی سیاست کا پلڑا بھاری ہے، اس لیے تمام سیاسی جماعتوں نے ذات پات کے مطابق ہی فیصلے لئے ہیں۔ اس لیے اس بار نتیجہ دلچسپ ہونے والا ہے۔ یہاں آوارہ مویشیوں کا مسئلہ کسانوں میں بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔