یوگی کے بچاؤ کے لئے حکومت نے تمام حدیں پار کیں

یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف 153Aکے تحت مقدمہ چلانے کے لئے سرکاری منظوری دینے سے انکار۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

پی پی گنج کے جس معاملے میں یوگی حکومت نے وزیر اعلی اور دیگر دس افراد کو عدالت سے راحت دلانے کا فیصلہ لیا ہے وہ تو کچھ بھی نہیں ہےاس کے علاوہ دیگر دو معاملے ہیں جن میں وزیر اعلی پر سنگین الزام ہیں۔ ان معاملوں میں کچھ حقائق اشارہ کر رہے ہیں کہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو ہر حال میں بچانے کے لئے اقتدار کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق سکریٹری داخلہ نے یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف 153Aکے تحت مقدمہ چلانے کے لئے سرکاری منظوری دینے سے انکار کیا ہے اور اس کے لئے جس سی ڈی کو ثبوت کی طور پر پیش کیا ہے اس کی لیب رپورٹ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ فرضی سی ڈی ہے۔ الہ آباد کے معروف وکیل فرمان نقوی جو اس معاملے کے بھی وکیل ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’ ہمارا یہ ماننا تھا کہ انہوں نے(یوگی آدتیہ ناتھ) جو تقریر کی تھی کہ ’ایک ہندو مرے گا ، تو ہم دس مسلمان ماریں گے‘ اس کی سی ڈی ایف آئی آرکے ساتھ ہم نے عدالت میں پیش کی تھی اور یہ سی ڈی آج تک ریکارڈ پر موجود ہے۔ حکومت نے 153A کےتحت مانگے جانے والے جس سینکشن کو دینے سے انکار کیا ہے وہ سینٹر فورنسک سائنس لیب کی رپورٹ کی بنیاد پر کیا ہے ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس سی ڈی کی انہوں نے جانچ کی ہے وہ سی ڈی ڈاکٹرڈ (فرضی )ہے اور سی ڈی میں کوئی ایسا مواد نہیں ، جیسا کہا جا رہا ہے یعنی اس سی ڈی کے حساب سے یوگی آدتیہ ناتھ نے کوئی متنازعہ بیان دیا ہی نہیں ۔لیب کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس سی ڈی کی انہوں نے جانچ کی ہے اس کے تیار کئے جانے کی تاریخ ہی 24-03-2013 ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے جو سی ڈی عدالت میں جمع کی ہے وہ 2008میں جمع کی ہے۔ وہ عدالت میں موجود ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ سی ڈی 2008 سے پہلے کی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو سی ڈی ہم نے 2008 میں دی ہے اس کے تیار کی جانے کی تاریخ لیب 2013 بتا رہی ہے، اس کا مطلب صاف ہے کہ سینکشن سے انکار کی وجہ ایک فرضی سی ڈی ہے،جس کو بنیاد بنایا گیا‘‘۔

معاملہ صرف یہی نہیں کہ سینکشن سےانکار کرنے کے لئے ایک غلط سی ڈی کو بنیاد بنایا گیا بلکہ اس معاملے کا ایک سنگین پہلو یہ بھی ہے کہ سینکشن کرنے کا جودستاویز عدالت میں پیش کیا گیا ہے اس پر 3مئی کی تاریخ ہے جبکہ سرکاری وکیل نے 4مئی کو عدالت میں کہا کہ انہیں اس معاملے میں حکومت کے موقف کے بارے میں علم نہیں ہے اور عدالت نے سرکاری وکیل کے اس بیان کی روشنی میں اتر پردیش کے سکریٹری داخلہ کو 11مئی کو عدالت میں طلب کیاتھا۔ 11مئی کو جب سکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے تھے توانہوں نے 3مئی کو دستخط ہوا لیٹر دیا ،جس میں سینکشن دینے سے انکار کیا گیا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہو تاہے کہ 4مئی تک سرکاری وکیل عدالت میں کہتے ہیں کہ ان کو سینکشن سے متعلق حکومت کے موقف کا علم نہیں ہے جبکہ حکومت نے یہ فیصلہ 3مئی کو لے لیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری وکیل کو واقعی معلوم نہیں تھا یا سینکشن کے انکار کا یہ دستاویز بعد میں تیار ہوا اور تاریخ پہلے کی ڈالی گئی۔

فرمان نقوی نے بتایا کہ ’’ ہم نے عدالت سے پھر کہا کہ اگر 3 تاریخ کو حکومت نے یہ فیصلہ لے لیا تھا تو پھر عدالت کو 4 مئی کو کیوں نہیں بتایا گیا۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ انہوں نے حکومت کے آرڈر کو اپنے حساب سے تیار کیا ہے اور اس کی تاریخ سے بھی کھلواڑ کیا گیا ہے۔ہم نے اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا ‘‘۔

دراصل 2007کے دو فرقہ وارنہ فساد کے معاملے ہیں۔ ویسے تو کل29 معاملے ہیں لیکن یہ دو بڑے معاملے ہیں۔ پی پی گنج والے معاملے کی طرح ان دو معاملوں میں سیدھے طور پر تو ہاتھ نہیں لگایا گیاہے کیونکہ یہ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں اور ان معاملوں میں فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے ، لیکن حقیقی طور پر مداخلت کی شروعات یہیں سے ہوئی تھی۔

یہ 29جنوری 2007کے معاملے ہیں جس میں ان کے(یوگی آدتیہ ناتھ) خلاف ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ ایک ایف آئی آر ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مشتعل کیا اور مشتعل عوام نے ایک درگاہ میں آگ لگائی اور وہاں موجود رقم لوٹی ، آستانہ کو جلایا، سامان کو نقصان پہنچایا چیزوں کو توڑا پھوڑا۔ دوسرا معاملہ 10 محرم کے جلوس کا ہے جس میں تخریب کاروں نے توڑ پھوڑ کی اور آدتیہ ناتھ نے ایک تقریر کی جو بہت متنازعہ ہوئی ، جس میں انہوں نے کہا تھاکہ ’ایک ہندو مرے گا تو دس مسلمان ماریں گے‘۔ آدتیہ ناتھ نے جو لوگوں کو مشتعل کیا تھا اس کے بعد گورکھپور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھیل گئے اور اس میں کل 29 ایف آئی آر درج ہوئی تھیں۔

آستانے والے معاملہ اور 10 محرم والے معاملے میں آدتیہ ناتھ کے خلاف 153A کے تحت دو اایف آئی آر درج ہوئی تھیں۔ 153A مذہبی منافرت پھیلانے والے کے خلاف عائد ہوتی ہے۔153A کے معاملے میں قانونی پابندی یہ ہے کہ قانونی عمل شروع کرنےسے قبل ریاستی حکومت کو ایک سینکشن گرانٹ کرنی ہوتی ہے یعنی کیس چلانے کے لئے قانونی ضرورت ہے۔ درگاہ اور آستانے والے معاملہ میں سال 2009 میں ریاستی حکومت نے سینکشن گرانٹ کر دی تھی ، وہ معاملہ نچلی عدالت میں پینڈنگ ہے اور سال 2014 میں ایک ملزم نے ایک پٹیشن دائر کی کہ ریاستی حکومت نے جو سینکشن گرانٹ کی ہے وہ ضوابط کے مطابق نہیں ہے کیونکہ جس اتھارٹی نے سینکشن آرڈر پر دستخط کئے تھے وہ اس افسر کے نہیں تھے جو افسر اس پر دستخط کرنے کا اہل تھا ۔

2014سے وہ معاملہ پینڈنگ رہا اور جنوری 2017 میں پٹیشن کرنے والے کی بات کو درست تسلیم کیا گیا ۔ فرمان نقوی نے بتایا کہ ’’ اس معا ملے کو بعد میں چیلنج کیا گیا ، جس کا فیصلہ گزشتہ جمعہ کو محفوظ کر لیا گیا ہے‘‘۔

دوسرا معاملہ یعنی 10محرم کے جلوس میں توڑ پھوڑ۔جب 2007 میں ایف آئی آر درج نہیں ہوئی تو صحافی پرویز پرواز نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے کہا کہA 153 کے تحت کیس درج کیا جائے۔ یہ جنوری کی 27 اور 28 کی تاریخیں تھیں جب ٹرینیں جلائی گئیں، بسیں جلائی گئیں اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ اس میں ریلوے کی پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کے لئے الگ ایف آئی آر ہے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے لئے الگ ایف آئی آر ہے اور انفرادی املاک کو نقصان پہنچانے کی الگ ایف آئی آر ہے یعنی کل ملاکر 29 ایف آئی آر درج ہوئیں۔

اس میں پرویز پرواز نے کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی کیونکہ بعد میں ان کی درخواست عدالت نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ اس معاملے میں دوسری ایف آئی آر نہیں درج ہو سکتی کیونکہ توڑ پھوڑ اور لوٹنے کی ایف آئی آر پہلے ہی درج ہے۔ ’’ہم نے اس معاملے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور ہائی کورٹ نے مجسٹریٹ کو حکم جاری کیا کہ ایف آئی آر درج کی جائے ، حکم نامے کے بعد یہ ایف آئی آر اکتوبر 2008 میں درج ہوئی۔ اس معاملے کی جانچ سی بی سی آئی ڈی کو سونپ دی گئی۔ اس وقت مایاوتی کی حکومت تھی اس لئے فوری طور پر جانچ شروع ہو گئی۔ پھر پرویز پرواز نے عدالت سے رجوع کیا اور کہا کہ پولس اور سی بی سی آئی ڈی یوگی آدتیہ ناتھ کے اثر میں ہیں اور معاملے کی جانچ کے بجائے یہ لوگ ان کی مدد کر رہے ہیں۔اس لئے یہ جانچ سی بی سی آئی ڈی کی جگہ کسی اور ایجنسی کو دے دی جائے۔ عدالت نے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا اور جواب طلب کیا تھا۔ اس معاملے میں ملزمہ انجوچودھری جو اس معاملے کے وقت گورکھپور کی میئر تھیں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ کےذریعہ ایف آئی آر کرنے کے احکام کے خلاف سال 2008 میں عرضی دی تھی۔ انجو چودھری کی عرضی پر سپریم کورٹ نے اس سے متعلق معاملے میں اسٹے جاری کر دیا تھا۔جس کے بعد تمام کارروائی رک گئی۔ سال 2012 میں یہ ایس ایل پی عدالت سے مسترد ہوئی۔ سال 2012 میں سی بی سی آئی ڈی نے پھر جانچ شروع کی اور عدالتی کارروائی بھی دوبارہ حرکت میں آگئی۔ 2015 میں ریاستی حکومت کا جواب آیا کہ جانچ پوری ہو چکی ہے اور ملزمان کے خلاف کیس درج کیا جا سکتا ہے ،لیکن اس معاملےمیں قانونی ضرورت یہ ہے کے153Aکے تحت ریاستی حکومت کی جانب سے ایک سینکشن کی ضرورت ہے اور اس سینکشن کے لئے معاملہ ریاستی حکومت کو ریفر کر دیا گیا ۔

19 مارچ کو یوگی نے وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف لیا ، یہ معاملہ جب ہائی کورٹ میں آیا تو میں نے عدالت سے کہا کہ اب سینکشن کون گرانٹ کرے گا کیونکہ ملزم خود وزیر اعلی بن گئے ہیں۔یہ سوال عدالت نے ایک جگہ فریم بھی کیا ہے کہ کون سینکشن گرانٹ کرے گا۔ اس کے بعد ایک دو مرتبہ ان کے وکیل نے کچھ جھوٹ بولا جس پر عدالت بہت ناراض ہوئی اور سکریٹری داخلہ کو عدالت میں طلب کیا گیا۔’’میں نے اس کو عدالت میں فوری طور پر چیلنج کیا اور کہا کہ ملزم وزیر اعلی بن گئے ہیں اور وزارت داخلہ کا قلم دان ان کے ہی پاس ہے‘‘۔فرمان نقوی نے بتایا کہ اس معاملے کی آخری سنوائی 18دسمبر کو ختم ہو چکی ہے اور اس میں فیصلہ محفوظ ہے۔

یہ تمام حقائق جن کی طرف فرمان نقوی نے اشارہ کیا ہے اس سے ایک بات صاف واضح ہو جاتی ہے کہ اتر پردیش حکومت یوگی پر چل رہے مقدمات میں راحت دینے کے لئے ہر ممکن حد تک جا سکتی ہے ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔