غزہ: حماس تو ایک بہانہ ہے!... اعظم شہاب
غزہ پر اسرائیلی حملے کا ایک بڑا مقصد ’بن گورین کنال پروجیکٹ‘ کی تکمیل بھی ہے، جس میں امریکہ برابر کا حصہ دار ہے۔

فلسطین سے گزرتی ہوئی سوئز نہر کی ایک پرانی تصویر، Getty Images
غزہ میں انسانی جانوں کی تباہی نے تو اب آنسو بھی خشک کر دیے ہیں۔ مسلسل فضائی و زمینی حملے، سڑکوں پر بکھری ہوئی بے گور و کفن لاشیں، ملبے میں تبدیل ہوتی عمارتیں اور اسپتالوں پر کیے جا رہے حملوں نے سکتہ سا طاری کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمس غزہ کے زخمی بچوں کی دل دہلا دینے والی ویڈیوز سے بھرے پڑے ہیں جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو رو دیتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کے 145 سے زائد ممالک اسرائیل کے خلاف اپنی حقِ رائے دہی استعمال کر رہے ہیں، عرب ممالک متحدہ طور پر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، تو بھی جنگ کیوں نہیں رک رہی ہے؟
تو اس کا جواب امریکہ کی اس ظالمانہ پالیسی میں پوشیدہ جس کے تحت وہ کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے کسی کمزور کو اپنا ہدف بناتا رہتا ہے۔ عراق و افغانستان اس کی مثالیں ہیں جنہیں اس نے تباہ کر کے رکھ دیا۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ ان ممالک پر امریکہ کے حملوں کا بالآخر کیا نتیجہ ہوا اور کس طرح اسے اپنا بوریا بستر چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہونا پڑا۔ بعینہ یہی صورت حال غزہ پر اسرائیلی حملے کی بھی ہے جسے کچھ بھولے بھالے لوگ ’حماس پر اسرائیل کا حملہ‘ تصور کر رہے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی شکل میں امریکہ ہی حملہ آور ہے جس کے دیگر مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد نہر سوئز کے بالمقابل ایک ایسا بحری راستہ تیار کرنا ہے جس کے ذریعے یوروپی ممالک اپنے تجارتی جہاز مصر کو ٹیکس دیے بغیر ایشیائی ممالک تک بہ آسانی سے پہنچا سکیں۔
یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ جدید ترین ہتھیاروں و ایٹمی طاقت سے لیس ہونے کے باوجود اسرائیل میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ تنہا حماس کا مقابلہ کر سکے۔ اس کا ثبوت 8 اکتوبر کو ہی سامنے آ گیا تھا جب حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے اس وقت تک غزہ کی جانب اپنا رخ نہیں کیا تھا جب تک کہ امریکہ نے اس کی مدد کا اعلان نہیں کر دیا یا مدد پہنچا نہیں دی۔ یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اسرائیل امریکہ کا ایک فرنٹل فیس ہے جس کی ہر پالیسی و ہر اقدام امریکہ کی مرضی کے مطابق ہوا کرتا ہے۔ اس کا اعتراف اسرائیل میں امریکہ کے سابق سفیر مارٹن انڈک نے بھی 29 اکتوبر کو کیا تھا جس میں انہوں نے اسرائیل کے عبرانی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’اسرائیل کا مستقل وجود ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مدد اور اس کی حمایت پر منحصر ہے۔‘‘
امریکہ و اسرائیل کے لیے نہر سوئز کے متبادل تیار کرنے میں غزہ پر مکمل قبضہ ضروری ہے لیکن جب تک حماس وہاں موجود ہے، یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے پالیسی یہ اپنائی گئی کہ غزہ کے لوگوں پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کر دیا جائے کہ وہ مجبور ہو کر اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اس کے لیے اہلِ غزہ کو ان کے گھرو ں سے نکالا گیا، انہیں بلاوجہ گرفتار کر کے جیلوں میں ٹھونسا جانے لگا، انہیں اسرائیل کے رحم و کرم پر جینے پر مجبور کیا گیا، انہیں زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ پورے غزہ کو ایک کھلی جیل میں بدل دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 7 اکتوبر کو غزہ کے جیالے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ’اب بہت ہوا، اس طرح مجبور و مقہور ہو کر جینے سے تو بہتر ہے کہ آر پار کا فیصلہ ہو جائے‘۔ امریکہ و اس کے حواری اسی موقع کے منتظر تھے، سو ان سب سے مل کر اسرائیل کے ذریعے غزہ پر یلغار کر دی۔
نہر سوئز کی اہمیت ختم ہو جانے سے مصر کی معیشت پر بہت برا اثر پڑے گا کیونکہ اس نہر سے مصر کو سالانہ طور تقریباً 75 ہزار کروڑ ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ یہ آمدنی اگر اسرائیل کی جھولی میں آ جائے تو ظاہر ہے کہ اسرائیل کی معیشت کافی مضبوط ہو جائے گی اور امریکہ سمیت دیگر یوروپی ممالک کو بھی اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نہر سوئز کے بالمقابل ایک دوسری نہر بنائی جائے۔ اس کے لیے ایک ایسے علاقے کی ضرورت ہے جہاں بہ آسانی نہر کھودی جا سکے جو اتفاق سے اسرائیل کے پاس موجود ہے۔ 1967 کی جنگ میں مصر کے ایک جزیرہ نما علاقہ ’سنائی‘ پراسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔ اس جزیرے کے ایک جانب نہر سوئز ہے جبکہ دوسری جانب کچھ بحری و ریگستانی علاقہ ایسا ہے جس کی کھدائی کے بعد اسے بحری جہازوں کا راستہ بنایا جا سکتا ہے۔
اسرائیل کا یہ ایک بڑا پروجیکٹ ہے جسے اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیویڈ بن گورین کے نام پر ’بن گورین کنال پروجیکٹ‘ نام دیا گیا ہے۔ یہ نئی مجوزہ نہر جس علاقے سے گزارنے کا منصوبہ ہے اس کے قریب ہی غزہ پٹی واقع ہے جو اس کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن چونکہ یہ پروجیکٹ امریکہ و اسرائیل کے لیے نہایت اہم ہے، اس لیے غزہ کی رکاوٹ کو ختم کیا جانا بہت ضروری ہے جو غزہ پر مکمل قبضے کی صورت میں ہی ختم ہو سکتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ یہاں یہ اعتراض کیا جائے کہ اس نہر سے امریکہ کو کیا فائدہ ہوگا جو وہ غزہ میں اسرائیل کو لوگوں کی نسل کشی کی کھلی چھوٹ دے رہا ہے؟ تو انہیں نہر سوئز سے گزرنے والے بحری جہازوں کے ذریعے مصر کو ادا کیے جانے والے ٹیکس پر ایک نظر ڈال لینی چاہئے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ گو کہ یہ پروجیکٹ اسرائیل کا ہے لیکن اس کو پورا کرنے کا بیڑہ امریکہ نے اٹھا رکھا ہے۔ اس پروجیکٹ سے متعلق امریکہ کی خفیہ دستاویزات ابھی حال ہی میں منظر عام پر آئی ہیں، جس کے مطابق اس نہر کو کھودنے کے لیے زیرِ زمین سینکڑوں ایٹمی دھماکے کیے جانے ہیں۔ جہا ں یہ دھماکے ہونے ہیں، اس کے ایک جانب جارڈن ہے تو دوسری جانب سنائی ہے، جبکہ نصف علاقہ غزہ سے متصل ہو کر گزرتا ہے۔ اس لیے ایسے حالات پیدا کیے گیے کہ اہلِ غزہ اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تاکہ ان کو سبق سکھانے کے نام پر غزہ پر قبضہ کر لیا جائے اور پھر آرام سے یہ اہم پروجیکٹ مکمل کیا جا سکے۔
غزہ پر قبضہ کرنے کے اپنے مقصد کو ظاہر کر کے اسرائیلی وزیر اعظم نے خود اس کا ثبوت بھی پیش کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’غزہ کو ہم فلسطینی اتھاریٹی یا حماس کے حوالے نہیں کریں گے، جنگ ختم ہونے کے بعد بھی ہم غزہ میں رہیں گے۔‘‘ نیتن یاہو کے اسی اعلان کے بعد اقوامِ متحدہ کی جانب سے فلسلطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف قرارداد پیش ہوئی جس میں ہمارے ملک عزیز نے بھی اسرائیل کے خلاف ووٹ دے کر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کی اپنی دیرینہ روایت نبھائی، بھلے ہی روایت کی یہ پاسداری پردھان سیوک کے ابتدائی موقف کے بعد ہوئی تنقید کا ہی نتیجہ کیوں نہ ہو۔ لیکن نیتن یاہو کے اس اعلان سے یہ ضرور واضح ہو گیا ہے کہ حماس تو محض ایک بہانہ ہے، اصل مقصد غزہ پر قبضہ کر کے ’بن گورین کنال پروجیکٹ‘ کو مکمل کرنا ہے۔
(نوٹ: مضمون نگار کی آراء سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔