شہریت کے نام پر پولرائزیشن کا کھیل

این آر سی کے لئے جو ’خطوط‘ وضع کئے گئے، اس پر ابتداء سے اعتراض ہورہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس پورے عمل کی شفافیت اور غیرجانبداری پر سوال اٹھ رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

م. افضل

آسام میں این آر سی کی فائنل لسٹ جاری کی جاچکی ہے۔ جس خدشہ کا اظہار کیاجارہا تھا سچ ثابت ہوگیا۔ 40لاکھ کی آبادی کانام اس لسٹ میں نہیں ہے۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے چنانچہ اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر دی گئی مہلت کے دوران بھی یہ بدنصیب لوگ اپنی شہریت ثابت نہ کرسکے تو پھر ان کا کیا مستقبل ہوگا؟ قابل ذکر ہے کہ این آرسی کی تیاری کاکام سپریم کورٹ کی ہدایت پر اور اس کی نگرانی میں ہوا جس کے تحت 3.39 کروڑ میں سے 2.89کروڑ لوگوں کو ہی ہندوستانی شہریت کے لائق سمجھا گیا اور 40 لاکھ لوگوں کے سروں پر غیرملکی ہونے کی تلوار لٹکا دی گئی۔

ہمارے وزیرداخلہ صاحب پارلیمنٹ میں تقریباً ایک لاکھ بار یہ یقین دہانی کراچکے ہیں کہ ہر شخص کو شہریت ثابت کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس لئے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جن کے نام این آر سی میں نہیں ہیں، انہیں غیر ملکی نہیں قرار دیاجائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ وضاحت بھی کردی کہ کسی کو غیر ملکی قرار دینے کا اختیار ٹریبونل کے پاس ہے۔ یہاں ان کی مراد غیر ملکیوں کی شناخت سے متعلق اس ٹریبونل سے ہے جو آسام میں پہلے سے کام کررہا ہے اور جس نے پہلے ہی لوگوں کو غیر ملکی قرار دے رکھا ہے۔ اس موقع پر ہم باور کرادیں کہ 2017 میں گوہاٹی ہائی کورٹ یہ فیصلہ صادر کرچکی ہے کہ ’فارنیر ٹریبونل‘ جس کو غیر ملکی قرار دے چکا ہے، اس کے اہل خانہ کو بھی غیر ملکی سمجھا جائے اور ان سب کے نام این آر سی میں شامل نہ کئے جائیں۔ اس فیصلہ کی بنیاد پر 2018 میں سپریم کورٹ کے ذریعہ نامزد این آرسی اسٹیٹ کوآرڈینٹرپرتیک ہزیلا نے خاموشی سے حکام کو ایک سرکلر جاری کرکے ہدایت کردی تھی کہ ٹریبونل کے ذریعہ غیرملکی قرار دیئے گئے لوگوں کے خاندان کے لوگوں کا نام بھی فہرست میں شامل نہ کیاجائے اور انہیں بھی غیر ملکی سمجھاجائے۔ جب تک کہ وہ لوگ اپنی شہریت ثابت نہ کردیں۔

گوہاٹی ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو جمعیۃ علماء ہند اور کچھ دوسرے لوگوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے جس پر عدالت کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے۔ این آر سی کے لئے جو ’خطوط‘ وضع کئے گئے، اس پر ابتداء سے اعتراض ہورہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس پورے عمل کی شفافیت اور غیرجانبداری پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ دوسرے اس معاملہ پر لوگوں کے جو متضاد بیانات آتے رہے ہیں اس سے بھی خدشہ اور خوف کی فضا وہاں پیدا ہوگئی ہے۔ اس سے پہلے جنوری میں این آرسی کی جو پہلی لسٹ منظرعام پر آئی تھی اس میں بھی کئی لوگوں کے نام شامل نہیں تھے۔ اس وقت آسام کے وزیراعلیٰ کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ جولوگ غیر ملکی قراردیئے گئے ہیں، انہیں تمام آئینی حقوق یہاں تک کہ ووٹ کے حق سے بھی محروم کردیاجائے گا۔ مگر اب ’ٹائمس آف انڈیا‘ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاہے کہ اگر این آرسی مسودہ میں کسی کانا م نہیں آیا ہے تو اسے غیر ملکی نہیں سمجھاجائے گا اور انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے تمام تر مواقع دیئے جائیں گے۔

اس تنازعہ کا آغاز 1971 میں بنگلہ دیش کی تشکیل کے بعد ہوا، جب آسام میں بنگلہ بولنے والی آبادی کے تعلق سے پروپیگنڈہ کیاگیا اور کہاگیا کہ یہ لوگ درانداز ہیں۔ 1979 سے انہیں ریاست سے نکال باہر کرنے کی تحریک بھی شروع ہوگئی۔ 1983 میں جب اندراگاندھی کی سرکار تھی، غیرملکی دراندازوں سے متعلق باقاعدہ ایک ایکٹ کو منظوری دی گئی مگر دوسرا فریق مطمئن نہیں ہوا۔ اس کے خلاف طلباء نے بھی تحریک شروع کی۔ بعدازاں 1984 میں ان طلباء نے آل آسام اسٹوڈنٹ یونین (آسو) کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بھی بنالی۔ پھر 1985 میں راجیوگاندھی اور آسام اسٹوڈنٹ یونین کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ ہوا، جس میں طے پایاکہ 1971 تک جولوگ یہاں آباد ہوئے انہیں شہریت دی جائے گئی اور باقی لوگوں کو یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ لیکن جن لوگوں نے معاہدہ کیا، انہیں لوگوں نے اس معاہدہ کو بعد میں تسلیم نہیں کیا۔ چنانچہ تنازعہ بدستور زندہ رہا۔ اس کے لئے کچھ لوگ قانونی جدوجہد بھی کرتے رہے جس کی بنیادپر2013 میں سپریم کورٹ نے یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور این آرسی تیار کرنے کی ہدایت کی۔

لیکن این آر سی کی تیاری میں نہ تو 1985 کے معاہدہ پر عمل ہوا اور نہ ہی سپریم کورٹ کی ہدایات پر ایمانداری سے عمل ہوا۔ گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ نے اس عمل میں مزید پیچیدگی اور مشکل پیدا کردی۔ اس عرصہ میں وہاں اقتدار میں جو تبدیلی آئی، اس نے بھی اپناکام کیا۔ غیر ملکیوں کی شناخت سے متعلق ٹریبونل نے شہریت کو جانچنے کا جو پیمانہ اپنایا، وہ بھی بڑی حد تک امتیازی رہا۔ چنانچہ ہوا یہ کہ اگر کسی نے شہریت کے کاغذات دکھائے اور اپنی شہریت ثابت بھی کردی تو اسے یہ ثابت کرنے کو کہاگیا کہ کیا اس کے والدین بھی ہندوستانی تھے۔ اس دشوار تر عمل کی وجہ سے ’ٹریبونل‘ کے ذریعہ تقریباً 98ہزار لوگ غیر ملکی قرار دیئے گئے۔ بعدازاں گوہاٹی ہائی کورٹ کے اس عجیب وغریب فیصلہ نے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے ان بنگلہ بولنے والی غریب اور غیر تعلیم یافتہ آبادی کے لئے کئی پریشانی کھڑی کردی۔ دوسرے یہ کہ پہلے ’ٹریبونل‘ پنچایت کے ذریعہ جاری سرٹیفکیٹ کو ثبوت تسلیم کررہا تھا مگر جب بی جے پی اقتدار میں آئی تو ایک بڑی سازش کے تحت اعلان کردیاگیا کہ اس سرٹیفکیٹ کو ثبوت نہیں مانا جائے گا۔

این آر سی کو لے کر کانگریس اور کچھ دوسری اپوزیشن پارٹیوں نے پارلیمنٹ میں سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے اسے ایک انتہائی حساس اور پیچیدہ مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسے حل کرنے کی بات کہی ہے۔ انہوں نے کانگریس لیڈروں اور کارکنان سے یہ اپیل بھی کی کہ جن لوگوں کے ساتھ ڈرافٹ میں زیادتی ہوئی ہے ان کی مدد کریں۔ کانگریس اس مسئلہ پر آل پارٹی میٹنگ طلب کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ دوسری پارٹیاں بھی یہ مطالبہ کررہی ہیں۔ دوسری طرف سرکار کے لوگ متضاد باتیں کہہ رہے ہیں۔ ایک طرف تو وزیرداخلہ پارلیمنٹ میں یہ کہہ رہے ہیں کہ سب کو اپنی شہریت ثابت کرنے کا موقع ملے گا اور یہ کہ کسی کو حراستی کیمپ میں نہیں رکھاجائے گا۔ وہیں پارٹی صدر امت شاہ نے پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ جن لوگوں کے نام این آر سی میں نہیں ہیں وہ سب درانداز ہیں۔ سرکار کی طرف سے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ این آرسی کی تیاری کاکام سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوا۔ یہ بات شاید اس لئے کہی جارہی ہے تاکہ این آرسی کی معتبریت پر کوئی سوال کھڑا نہ کرے۔ بلاشبہ یہ کام سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوا اور اس کے لئے عدالت نے ایک اسٹیٹ کو آرڈینٹر بھی مقرر کردیا تھا مگر اس کو آرڈینیٹر پر بھی جانبداری برتنے کا الزام ہے۔ یہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں جو معاملے زیر سماعت ہیں ان میں سے ایک معاملہ اسٹیٹ کوآرڈینیٹر سے متعلق ہے جس میں عرضی گزاروں نے کہاہے کہ این آرسی کی تیاری میں اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کو نظرانداز کیا۔

سچائی یہ ہے کہ آسام میں بی جے پی جیسا چاہتی تھی، ویسا ہی ہوا۔ اس لئے وہ خوش ہے۔ اسے اس میں اپنا سیاسی فائدہ دکھائی دینے لگا ہے۔ انگریزی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمس‘ کی 31جولائی کی اشاعت میں پرشانت جھا کی ایک تجزیاتی رپورٹ چھپی ہے جس میں انہوں نے اس بات پر بحث کی ہے کہ آسام کے واقعہ سے شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی کو کس طرح فائدہ ہوسکتا ہے۔ ہر چند کہ ان 40لاکھ لوگوں میں بنگلہ بولنے والے غیر مسلم بھی شامل ہیں لیکن اب تک اس کو لے کر جو پروپیگنڈہ ہوا اس سے یہی باور کرانے کی کوشش ہوئی کہ جنہیں درانداز کہاجاتاہے وہ سب بنگلہ دیشی ہیں۔ کیونکہ وہ بنگلہ بولتے ہیں۔

آسام مذہبی اور لسانی بنیاد پر ہونے والے فسادات کے لئے بدنام رہا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرقہ پرست عناصر نے بنگلہ بولنے والی لسانی اقلیتوں کے خلاف دوسری لسانی اقلیتوں کو صف آرا کردیا۔ جولوگ اس خوش فہمی میں ہیں کہ اب کلیم اور آبجیکشن کا عمل شروع ہوگا اس کے بعد این آرسی کی حتمی فہرست جاری ہوگی اور اس مسئلہ کا ہمیشہ کے لئے سدباب ہوجائے گا، وہ غلط فہمی میں ہیں۔ آسام کی اس آگ کو اب دوسری ریاستوں تک بھی پہونچایا جاسکتا ہے اور بی جے پی اس کا پہلا تجربہ مغربی بنگال میں کرسکتی ہے۔ آسام میں جو پروپیگنڈوں کا خطرناک کھیل شروع ہوا تھا وہ یہاں بھی شروع ہوچکا ہے۔ بی جے پی کے جنرل سکریٹری کیلاش وجے ورگیہ نے اس کا اشارہ دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب آسام کی طرز پر مغربی بنگال میں بھی بنگلہ دیشی دراندازوں کی شناخت کا عمل شروع ہوگا۔ ان کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ اگر آسام میں 40لاکھ درانداز نکلے ہیں تو مغربی بنگال میں یہ تعداد ایک کروڑ سے اوپر ہوسکتی ہے۔ بنگلہ بولنے والوں کے خلاف بی جے پی نے جو یہ نئی مہم شروع کی ہے اسے شاید اس کا علم نہیں کہ دنیا میں جہاں جہاں بنگال کے لوگ ہیں اس کاوہ کیا تاثر لے سکتے ہیں۔ ان کے اندر اگر یہ احساس پیدا ہوگیا کہ بنگلہ دیشی کی آڑ میں انہیں منصوبہ بند طریقہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے تو وہ بی جے پی کے خلاف صف آرا ہوسکتے ہیں، اور اس کا زبردست سیاسی نقصان اسے اٹھانا پڑسکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔