بھوپندر سنگھ ہڈا کا انٹرویو: ’کانگریس کی حکومت بنتے ہی سی ای ٹی، پولیس اور گروپ-جی کی رکی ہوئی بھرتیوں کے نتائج جاری کریں گے‘
ہریانہ میں انتخابی مہم زوروں پر ہے اور سابق وزیراعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا نے اپنے انٹرویو میں کسانوں کے مسائل، نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع اور ریاست میں کانگریس کی پالیسیوں پر بات کی
ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا پراعتماد دکھائی دیتے ہیں۔ انتخابی مہم میں وہ ایک ایسے رہنما کے طور پر نظر آتے ہیں جنہیں معلوم ہے کہ ووٹروں کی حمایت انہیں حاصل ہے۔ جوانی کے دنوں میں ہڈا سینئر بیڈمنٹن اور ٹینس کھیلنے کے شوقین تھے۔ بعد میں انہوں نے پورے ہریانہ میں کھیلوں کا انفراسٹرکچر بنایا اور کھیلوں کو ایک کیریئر کے طور پر قائم کیا۔ وہ بی جے پی حکومت کے کام کاج پر سخت تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بی جے پی نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس کا ذکر کیا جا سکے۔
جب الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کی تاریخ یکم اکتوبر سے بڑھا کر 5 اکتوبر کر دی تو بی جے پی نے کافی امیدیں وابستہ کر لیں۔ ووٹنگ کی تاریخ بڑھانے کی درخواست خود بی جے پی نے ہی کی تھی، ان کا یہ کہنا تھا کہ لمبے ویک اینڈ کی وجہ سے شہری ووٹر ان تاریخوں میں چھٹیاں منانے باہر جا سکتے ہیں۔ اس بیان کے ذریعے بی جے پی نے یہ قبول کیا کہ اس کی بنیاد شہری علاقوں تک ہی محدود ہے۔ اس سے پارٹی کو چار دن مزید انتخابی مہم کا موقع ملا لیکن اس کا بی جے پی کو کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ بھوپندر سنگھ ہڈا کا کہنا ہے کہ وہ کانگریس کی جیت کے بارے میں مکمل طور پر پراعتماد ہیں۔
اپنی ریلیوں میں وہ لوگوں سے ووٹ ڈالنے کی درخواست کرنے کے بجائے اس بات کی اپیل کرتے ہیں کہ پچھلی بار کی طرح اس بار بی جے پی کے خلاف پڑنے والے ووٹ تقسیم نہیں ہونے چاہئیں۔ وہ طوفانی دورے کر رہے ہیں اور ایک ایک گاؤں جا کر لوگوں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اسی مصروفیت کے درمیان ہرجندر نے بھوپندر سنگھ ہڈا کا ایک انٹرویو کیا، پیش ہیں اسی انٹرویو کے اہم اقتباسات:
کسان موجودہ حکومت سے ناراض ہیں اور آپ سے کافی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں لیکن ڈیزل، کیڑے مار ادویات، کھاد وغیرہ کی قیمتیں ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتیں اور ایم ایس پی بھی مرکزی حکومت طے کرتی ہے، پھر آپ کسانوں کو کس طرح راحت دیں گے؟
یقیناً کسانوں سے متعلق بہت سے مسائل پر مرکزی حکومت کا کنٹرول ہے لیکن کانگریس نے ہریانہ میں کسانوں کو ایم ایس پی کی ضمانت دینے کا اعلان کیا ہے اور ہم اس پر مکمل طور پر پرعزم ہیں۔ اسے صحیح طریقے سے لاگو کرنے کے لیے باقاعدہ قانون بنایا جائے گا۔ کانگریس کسانوں کو ضرورت کے مطابق پوری اور سستی بجلی فراہم کرنے پر توجہ دے گی۔ ہماری پارٹی کسانوں کو وقت پر کھاد، بیج اور دوائیاں فراہم کرنے کا وعدہ کرتی ہے۔ کانگریس کسانوں کی فصل کی بروقت خریداری اور ادائیگی کو یقینی بنائے گی۔ کسانوں پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ہم ان کی تشویش کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ کانگریس ہائی کمان پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کسانوں کے مسائل اٹھا کر مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالتی رہے گی۔
اسی طرح آپ اگنی ویر کا مسئلہ بھی اٹھا رہے ہیں لیکن ہریانہ میں حکومت بنا لینے کے باوجود آپ اس میں کچھ نہیں کر سکتے۔ ناراض نوجوانوں کو کس طرح پرسکون کریں گے؟
دیکھئے، ریاستی حکومت کے طور پر کانگریس دباؤ ڈالے گی اور ہم یہ مطالبہ کرتے رہیں گے کہ اگنی ویر اسکیم کو ختم کیا جائے اور نوجوانوں کو فوج میں مستقل ملازمت دی جائے۔ کانگریس اس بات کو یقینی بنائے گی کہ جو بھی اگنی ویر چار سال فوج کی ملازمت کے بعد واپس آئے، اسے ریاستی حکومت کی ملازمت میں ایڈجسٹ کیا جائے۔ ہم ریاستی سطح پر اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ کانگریس ہائی کمان اس اسکیم کو منسوخ کرنے کے لیے مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالے گی۔
پچھلی بار جب آپ نے حکومت بنائی تھی تو پہلا فیصلہ کسانوں کے بجلی کے بل معاف کرنے کا کیا تھا۔ اس بار کانگریس کی حکومت کا پہلا فیصلہ کیا ہوگا؟
اس بار جب ہم حکومت بنائیں گے تو ہم فوری طور پر موجودہ حکومت کی رکی ہوئی بھرتیوں کے نتائج جاری کریں گے۔ سی ای ٹی، ہریانہ پولیس اور گروپ-جی کی بھرتیوں کو مکمل کر کے تمام منتخب نوجوانوں کو تیزی سے جوائننگ دیں گے۔ ملازمین کے لیے پرانی پنشن اسکیم کی مانگ کو پارٹی اقتدار میں آتے ہی پورا کرے گی۔ بزرگوں کی 6000 روپے پنشن شروع کر دی جائے گی۔ خواتین کو 2000 روپے کا اعزازی وظیفہ دیا جائے گا۔ 500 روپے میں گیس سلنڈر سمیت پارٹی کی ساتوں ضمانتوں کو ترجیح کے ساتھ نافذ کیا جائے گا۔ انتخابی منشور کے ایک ایک وعدے کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے حکومت بننے کے ایک سال کے اندر ایک لاکھ نئی بھرتیوں کا عمل شروع کیا جائے گا۔
لوک سبھا انتخابات کے دوران ہریانہ میں مکمل طور پر کانگریس کا ماحول نظر آ رہا تھا لیکن نتائج آئے تو کانگریس کو 10 میں سے صرف 5 سیٹیں ہی مل سکیں جبکہ کانگریس کو تو پوری 10 سیٹیں ملنے کی امید تھی۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ کہاں کمی رہ گئی تھی؟ اور ان تین مہینوں میں کیا بدلا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے آغاز میں بی جے پی نے پورے ملک میں 400 سیٹیں جیتنے کا نعرہ بلند کیا ہوا تھا۔ پوری میڈیا بی جے پی کے اشارے پر یہی نعرہ بلند کر کے مسلسل ماحول بنا رہی تھی۔ فرضی سروے دکھا کر لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا تھا۔ ہریانہ میں بی جے پی تمام 10 سیٹوں پر جیت کا دعویٰ کر رہی تھی لیکن ہریانہ کے عوام اور کانگریس نے ثابت کر دیا کہ اس کا دعویٰ جھوٹا تھا۔ اگر میڈیا کے ذریعے عوام تک یہ سچ بروقت پہنچتا تو ہریانہ میں کانگریس تمام 10 سیٹیں جیتتی اور ملک میں انڈیا اتحاد کی حکومت بنتی۔ ہریانہ میں بی جے پی کی ایسی حالت ہے کہ وہ اپنے ساڑھے نو سال کے کاموں کا ذکر تک نہیں کر رہی۔ اس کے سابق وزیر اعلیٰ کا نام تک نہیں لیا جا رہا۔ بی جے پی خود مانتی ہے کہ اس نے ریاست میں ایک ناکام حکومت چلائی ہے جس کے نام پر ووٹ نہیں مانگے جا سکتے۔
میڈیا کے بہت بڑے حصے میں کانگریس کی گروپ بندی کی بات کی جا رہی ہے۔ کیا آپ مانتے ہیں کہ اس سب کے باوجود اس بار پوری پارٹی متحد ہو کر الیکشن لڑے گی؟
کانگریس مکمل طور پر متحد اور مضبوط ہے۔ گروپ بندی کیا ہوتی ہے یہ آپ کو بی جے پی کے اندر دیکھنا چاہیے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد بی جے پی میں کیسے افراتفری مچ گئی۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ راؤ اندر جیت سنگھ، رام بلاس شرما، انل وج وغیرہ کی بی جے پی کے اندر کیا حالت ہے۔ کرن دیو کمبوج جیسے بڑے لیڈر، کئی ارکان اسمبلی اور سابق ارکان اسمبلی کانگریس میں شامل ہو گئے ہیں کیونکہ بی جے پی میں اندرونی رسہ کشی بہت زیادہ ہے۔ وہاں عوام کو تو کیا، خود اپنے لیڈروں اور کارکنوں کو بھی کوئی عزت نہیں ملتی۔
(اس انٹرویو کے چند گھنٹے بعد ہی کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے اعلان کیا کہ ووٹنگ سے چند دن پہلے راہل گاندھی، پرینکا گاندھی اور کماری شیلجا ہریانہ میں انتخابی مہم چلائیں گے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔