بہت ہو چکی پچھلے دروازے کی کارستانی... سنجے ہیگڑے
تمل ناڈو کے فیصلے کو قائم رہنے دیں، کمزور یا ٹالا ہوا نہیں، بلکہ آئین کے مطالبہ کے ایک اہم اعلان کو ظاہر کریں، یعنی حکومت قوانین سے چلتی ہے، نہ کہ لوگوں سے۔

صدر جمہوریہ کسی قانونی سوال پر سپریم کورٹ سے اس کی رائے پوچھنے کے حقدار ہیں، لیکن یہ طاقت ایگزیکٹیو کی ناراضگی دور کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ یہ عدالتی فیصلے سے ناخوش حکومت کے لیے کوئی گھماؤدار راستہ بھی نہیں ہے۔ یہ بھی کہ آرٹیکل 143 ایسے معاملوں پر از سر نو غور کرنے کا کوئی پچھلا دروازہ نہیں ہے، جنھیں آرٹیکل 137 کے صدر دروازے نے روک رکھا ہے۔
تمل ناڈو، کیرالہ، پنجاب اور جھارکھنڈ جیسی ریاستوں نے سپریم کورٹ کو جو پیغام بھیجا ہے، اس کی بنیاد میں یہی ہے۔ انھوں نے ایک آواز میں عدالت سے ریاستوں کے بلوں پر گورنر کی طاقتوں کو ’واضح‘ کرنے والے ’صدارتی سوال‘ کو نامنظور کرنے کی گزارش کی ہے۔ اس لیے نہیں کہ یہ بے معنی ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ آئینی طور پر ناقابل قبول ہے۔ یہ معاملہ محض سوال کا نہیں ہے، یہ ایک شکایت ہے۔ عدالت کو چاہیے کہ خود کو آئینی طور پر از سر نو جائزہ کا پلیٹ فارم بنانے سے انکار کر دے۔
متعلقہ معاملہ میں بلوں کو منظوری دینے یا نہ دینے کے حوالے سے گورنروں اور صدر جمہوریہ کی طاقتوں کو لے کر 14 سوالات پوچھے گئے ہیں۔ اوپری طور پر یہ حقیقی قانونی سوالات معلوم پڑتے ہیں، لیکن گہرائی سے دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ سوال فطری طور سے ان دلائل سے ملتے جلتے ہیں جنھیں نومبر 2023 میں دیے گئے ’تمل ناڈو بنام تمل ناڈو کے گورنر‘ کے فیصلے میں پہلے ہی اٹھایا جا چکا ہے، اور جنھیں خارج بھی کر دیا گیا تھا۔
یہ فیصلہ واضح تھا۔ اس نے کہا کہ گورنروں کو آئینی طور سے مناسب وقت کے اندر کام کرنا چاہیے۔ اس نے غیر معینہ مدت کی عدم فعالیت کے نظریہ کو خارج کر دیا۔ اس نے اس بات کی تصدیق کی کہ گورنر کی دانشمندی کا مطلب منتخب مقننہ کو روکنے کا لائسنس نہیں ہے۔ اب جبکہ معاملہ بمشکل سلجھا تھا، وہی ایشوز آرٹیکل 137 کے تحت نظرثانی عرضی کے ذریعہ نہیں، جس کی سخت حدیں ہیں، بلکہ آرٹیکل 143 کے تحت صدر جمہوریہ کے قدم کے ذریعہ، جس کی کوئی حدیں نہیں ہیں، واپس آ گئے ہیں۔ حالانکہ یہ کوئی وضاحت نہیں ہے، لیکن اندیشہ کے طور پر یہ پھر سے مقدمہ کرنے جیسا ہے۔
آرٹیکل 143 کو درکنار کیوں نہیں کیا جا سکتا؟
حالانکہ آرٹیکل 143 صدر جمہوریہ کو عوامی اہمیت کے قانونی سوالوں کو سپریم کورٹ کے سامنے رکھنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن عدالت ہر سوال کا جواب دینے کو مجبور نہیں ہے۔ ’کاویری‘ (1998) معاملے میں عدالت کا واضح فیصلہ تھا کہ آرٹیکل 143 کا استعمال اپنے خود کے فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے یا انھیں از سر نو کھولنے کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کرنے کی اجازت دینا ’عدلیہ کی آزادی میں ایک سنگین مداخلت‘ ہوگی۔ ’کاویری‘ کی طرح یہ معاملہ کسی آئینی دھند کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ یہ محض ایک سلجھے ہوئے ایشو کو ایک اَن سلجھے ایشو کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ یہ آرٹیکل 143 کا مناسب استعمال نہیں ہے، بلکہ یہ غلط استعمال ہے۔
اگر حکومت کو سچ مچ لگا کہ تمل ناڈو کے فیصلے میں کوئی خامی تھی، تو اسے نظرثانی عرضی داخل کرنی چاہیے تھی۔ یہ عمل سخت مدتی حدود کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ریکارڈ میں خامی واضح طور سے دکھائی بھی دے۔ آرٹیکل 143 میں ایسی کوئی جانچ نہیں ہے۔ دونوں کو ملانا آئین میں دیے گئے علاجوں کے ڈھانچوں کو الٹنے جیسا ہے۔
وفاقی داؤ
طریقۂ کار سے بالاتر اصول بھی ہے۔ کئی ریاستوں نے تنبیہ دی ہے کہ اس معاملے کو قبول کرنے سے آئینی توازن مرکز کے حق میں جھک جائے گا۔ اگر مرکزی ریاستوں کو آئینی طاقت کی حفاظت کرنے والے کسی فیصلے کو محض ’وضاحت‘ کہہ کر پلٹ سکتا ہے، تو وفاقیت ایگزیکٹیو کی سہولت کا معاملہ بن جاتا ہے۔ تمل ناڈو معاملے کا فیصلہ صرف ایک ریاست کے بارے میں نہیں تھا۔ یہ اس ملک کے ہر اس مقننہ کے بارے میں تھا جس کے بل بغیر انتخابی عمل سے آئے گورنروں کے ذریعہ غیر معینہ مدت کے لیے روکے جا رہے ہیں۔ اگر آرٹیکل 143 منفی فیصلوں کو ٹالنے کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے تو مان لینا چاہیے کہ ہم بڑی خاموشی سے سنٹرلائزیشن کی طرف ایک پھسلن بھری ڈھلان پر ہیں۔
حتمی حالت متبادل نہیں
’عدالتی حتمیت‘ کوئی عیش و آرام تو ہے نہیں، یہ علم انصاف کا ایک قائم اصول اور ایک ضرورت ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو قانون کو طاقت سے الگ کرتی ہے۔ جیسا کہ ایک ریاست نے اپنی درخواست میں کہا ہے ’ذرائع میں غیر یقینی پورے نظام میں موجود ہے‘۔ اگر عدالت اس معاملے پر غور کرتا ہے تو اس سے یہ پیغام جائے گا کہ اگر حکومت کو کوئی فیصلہ زیادہ پسند نہیں ہے تو وہ کبھی بھی ’حتمی‘ نہیں ہوتا۔
یہ فکر خیالی نہیں ہے۔ ایک دیگر ریاست نے اپنے تحریری دلائل میں ایک خوفناک اندیشہ ظاہر کیا: کیا ہوگا اگر کل مرکزی حکومت وضاحت کے نام پر ’کیشوانند بھارتی‘، ’منروا ملس‘ یا ’آئی آر کوئلو‘ پر سوال داخل کر دے؟ آئین ایک لامتناہی مشاورتی عمل بن جائے گا، جو ایگزیکٹیو کی سنک پر منحصر ہوگا۔
سوال سیاسی ہے، قانونی نہیں
اس میں ایک نامعلوم سیاسی معاملہ بھی ہے۔ اپوزیشن حکمراں ریاستوں کے گورنر بار بار خاموشی اور تاخیر کو رخنہ ڈالنے کے اسلحہ کی شکل میں استعمال کرتے ہوئے قانون کو اٹکاتے رہے ہیں۔ تمل ناڈو کے فیصلے نے اس پر پانی پھیر دیا۔ اس نے قانون کی حکومت کی پھر سے تصدیق کر دی۔ اب یہ معاملہ آئینی خول میں ایک سیاسی رد عمل جیسا لگتا ہے۔
ایسے معاملوں میں عدالت کو اپنے صبر پر عمل کرنا چاہیے۔ عدالت نے پہلے بھی سیاسی تنازعات میں الجھے ایسے معاملوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ مثلاً 1993 کے ایودھیا انہدام کا معاملہ۔ اس معاملے میں بھی یہی رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔
عدالت اس معاملے پر غور کرنے کے لیے مجبور نہیں ہے۔ درحقیقت اسے نامنظور کرنا اس کی آئینی ذمہ داری ہے۔ اگر ایسا کرنے سے اس کے اپنے فیصلوں کی ایمانداری محفوظ رہتی ہے اور وفاقی سمجھوتے پر عمل ہوتا ہے۔ سوالات لوٹاتے ہوئے عدالت غالباً یہ کہہ سکتا ہے:
’’تمل ناڈو ریاست بنام تمل ناڈو کے گورنر معاملے میں آرٹیکل 200 اور 201 کی تشریح کر لینے کے بعد، اس عدالت کو کوئی آئینی اندیشہ یا قانونی مقصد نہیں ملتا جو آرٹیکل 143 کے تحت صلاحکار رائے کو مناسب ٹھہرائے۔ اس لیے، سوالات کو بغیر جواب کے لوٹایا جاتا ہے، اور یونین کو آرٹیکل 137 کے تحت دائرۂ اختیار کے جائزہ کا فائدہ اٹھانے کی آزادی دی جاتی ہے، اگر دستیاب ہو۔‘‘
عدالت کو یہی رخ اختیار کرنا چاہیے۔ وضاحت، وقار اور آئین کے تئیں ایمانداری کے ساتھ۔ یہ معاملہ ایک فیصلے کی قسمت سے کہیں بڑا ہے۔ یہ اس بارے میں ہے کہ ہماری آئینی جمہوریت میں آخری فیصلہ کس کا ہے۔ ریاستوں نے اپنی بات رکھی ہے... صرف اپنے لیے نہیں بلکہ نمائندہ حکومت کے غور و خوض کے لیے بھی۔
اگر سپریم کورٹ اس معاملے کو آگے بڑھنے دیتا ہے تو وہ خود کو اپنے ہی حقوق کے خلاف اپیل عدالت میں بدلنے کا جوکھم اٹھاتا ہے۔ یہ نہ صرف متعلقہ فیصلے کے تئیں، بلکہ آئین کے پورے ڈھانچہ کے تئیں بھی ناانصافی ہوگی۔ یہ پچھلے دروازے پر تالا لگا کر، سامنے والے دروازہ پر پہرے کا وقت ہے۔ اور تمل ناڈو کے فیصلے کو قائم رہنے دیں، کمزور یا ٹالا ہوا نہیں، بلکہ آئین کے مطالبہ کے ایک اہم اعلان کی شکل میں: حکومت قوانین سے چلتی ہے، نہ کہ لوگوں سے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔