وَن نیشن-وَن الیکشن: انتخابی کمیشن کو چاہیے 6 ماہ سے 1 سال تک کا وقت، کووند کمیٹی کی میٹنگ کل

ایک ملک-ایک انتخاب کے لیے تشکیل دی گئی کووند کمیٹی کی میٹنگ 25 اکتوبر کو ہونے والی ہے، ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتخابی کمیشن کو ایک ساتھ انتخاب کرانے کے لیے 6 ماہ سے 1 سال کا وقت چاہیے۔

<div class="paragraphs"><p>رام ناتھ کووند، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

رام ناتھ کووند، تصویر سوشل میڈیا

user

شالنی سہائے

انگریزی اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ نے 23 اکتوبر کو ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا ہے کہ انتخابی کمیشن نے وَن نیشن-وَن الیکشن پر بنی کووند کمیٹی، لاء کمیشن اور مرکزی حکومت کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ اسے پورے ملک میں ایک ساتھ انتخاب کرانے کے انتظامات کے لیے کم از کم 6 ماہ سے ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔

اس سلسلے میں سابق چیف الیکشن کمشنر او پی راوت نے ستمبر میں کہا تھا کہ ایک ملک-ایک انتخاب کی تجویز گزشتہ 8 سال سے سامنے ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ لاء کمیشن، نیتی آیوگ، مرکزی حکومت اور انتخابی کمیشن اس معاملے پر ایک طرح سے متفق ہیں۔ ایسے میں لاء کمیشن کے پاس اس بارے میں سفارش کرنے میں تاخیر کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔


ویسے وَن نیشن-وَن الیکشن کے ایشو پر کافی گہری نااتفاقیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ راوت نے اس تجویز کے حق میں دو نکات اٹھائے تھے۔ ایک نکتہ تھا کہ 1952 سے 1967 کے درمیان ملک میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخاب ایک ساتھ ہوئے تھے۔ انھوں نے 2019 کے لوک سبھا انتخاب کے ساتھ ہوئے اسمبلی انتخابات کی مثال بھی دی تھی اور کہا تھا کہ دونوں کے نتائج الگ رہے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستانی ووٹرس اس معاملے میں کافی پختہ ہیں اور یہ اندیشہ کے قومی ایشوز کے سامنے مقامی ایشوز دب جائیں گے، غلط ہے۔

راوت نے یہ بھی کہا تھا کہ انتخابی کمیشن نے اسمبلی انتخابات کو لوک سبھا انتخاب کے ساتھ کرانے کی دو ترکیبوں کا مشورہ دیا تھا۔ ایسی اسمبلیاں جو حال ہی میں منتخب کی گئی ہوں اور ان کی بیشتر مدت کار باقی ہو، ان میں انتخابات نہیں کرائے جائیں، جبکہ ایسی اسمبلیاں جن کی مدت کار مکمل ہونے میں کچھ ہی ماہ بچے ہوں ان کی بقیہ مدت کار کے مہینوں کے لیے ان ریاستوں میں صدر راج نافذ کر دیا جائے۔


لیکن انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق انتخابی کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کووڈ وبا اور روس-یوکرین جنگ کے سبب عالمی سطح پر سیمی کنڈکٹر کی کمی کے سبب ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) اور وی وی پیٹ (ووٹر ویریفائیڈ پیپر ٹریل) کی مشینوں کا پروڈکشن متاثر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی ای وی ایم اور وی وی پیٹ خریدنے کے لیے دیے گئے بجٹ کا 80 فیصد حصہ خرچ ہی نہیں ہوا ہے، کیونکہ ای وی ایم کا پروڈکشن کرنے والی کمپنی بھارت الیکٹرانکس لمیٹڈ اور الیکٹرانکس کارپوریشن آف انڈیا ای وی ایم نہیں بنا پا رہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2024 کا ہی لوک سبھا انتخاب کرانے کے لیے انتخابی کمیشن کو اضافی 11.49 لاکھ کنٹرول یونٹ، 15.9 لاکھ بیلٹ یونٹ اور 12.37 لاکھ وی وی پیٹ یونٹ چاہیے ہوں گی، جو ملک کے 11.8 لاکھ پولنگ اسٹیشن پر لگائی جائیں گی۔


واضح رہے کہ گزشتہ دنوں مرکزی حکومت نے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں وَن نیشن-وَن الیکشن کی تجویز پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ اس کمیٹی کی ایک اور میٹنگ 25 اکتوبر کو ہونے والی ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ اس میٹنگ میں کمیٹی ان سفارشات کو آخری شکل دے سکتی ہے جس میں ایسا کرنے کے لیے کم از کم چار قوانین میں تبدیلی کے لیے آئینی ترامیم کی ضرورت ہوگی۔

حالانکہ اپوزیشن کا لگاتار یہ ماننا ہےک ہ ایک ساتھ سبھی انتخابات کرانے کی تجویز پریکٹیکل نہیں ہے اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ اپوزیشن کی دلیل ہے کہ کسی بھی وجہ سے اگر مرکزی حکومت گرتی ہے (ایسا قبل میں ہو چکا ہے)، تو کیا سبھی اسمبلیوں کو بھی تحلیل کر صدر راج نافذ کر دیا جائے گا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ’وَن نیشن-وَن الیکشن‘ ایک جملے کے سوا کچھ نہیں ہے اور حقیقی ایشوز سے دھیان بھٹکانے کا ہتھیار بھر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے اس دلیل پر نہ تو لاء کمیشن اور نہ ہی انتخابی کمیشن نے کوئی جواب دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔