امت شاہ: ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا... سہیل انجم

جب امت شاہ نے 30عوامی جلسوں میں عوام سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ کمل کے نشان پر اتنے زور سے بٹن دبائیں کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک جائے تو ان کو بھی یہ امید رہی ہوگی کہ بس اب ہم جیت گئے۔

امت شاہ
امت شاہ
user

سہیل انجم

جب مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران ایک عوامی جلسے میں دیش کے غداروں کو گولی مارنے کا نعرہ لگوایا تھا تو نہ صرف ان کو بلکہ امت شاہ سمیت پوری بی جے پی کو یہ امید بندھی ہوگی کہ اب ہم دہلی کا الیکشن جیت لیں گے۔

جب امت شاہ نے تیس عوامی جلسوں میں عوام سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ کمل کے نشان پر اتنے زور سے بٹن دبائیں کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک جائے تو ان کو بھی یہ امید رہی ہوگی کہ بس اب ہم جیت گئے۔


جب وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک انتخابی ریلی میں تقریر کرتے ہوئے شاہین باغ کے دھرنے کو ملک کو توڑنے والا تجربہ قرار دیا تھا تو ان کو بھی اور تمام بی جے پی والوں کو بھی یہ یقین آ گیا ہوگا کہ بس کوئی نہیں ہرا سکتا۔

جب کپل مشرا نے یہ کہا تھا کہ آٹھ فروری کو دہلی میں ہندوستان اور پاکستان کا مقابلہ ہوگا تو ان کو بھی اور ان کے حامیوں کو بھی یہ امید پیدا ہوئی ہوگی کہ اب ان کی جیت پکی ہے۔ کیونکہ انھوں نے پاکستان کا نام اچھال دیا ہے اور یہ نام جب بھی الیکشن میں اچھلا ہے تو ووٹوں کا بازار بھی اچھلا ہے۔


جب پرویش ورما نے کہا تھا کہ کل کو مودی اور امت شاہ جی بچانے نہیں آئیں گے۔ آج خود کو بچانا ہو تو بچا لو ورنہ شاہین باغ کے لوگ ہندووں کے گھروں پر حملہ کریں گے اور ان کی بہن بیٹیوں کا ریپ کریں گے اور ان کو ماریں گے تو وہ بھی اندر سے بڑے خوش ہوئے ہوں گے کہ انھوں نے بی جے پی کی جیت میں اپنا یوگ دان دے دیا ہے۔

انھوں نے جب یہ کہا تھا کہ بی جے پی کی جیت کے ایک ماہ کے اندر ہی سرکاری زمینوں پر بنی تمام مسجدوں کو ہٹا دیا جائے گا تو خوش ہوئے ہوں گے کہ وہ ہندووں کے ہردے سمراٹ بن گئے ہیں۔ حالانکہ مسجدوں کی سرکاری زمینوں پر تعمیر کی بات بالکل بے بنیاد ہے۔


جب بی جے پی کے کئی لیڈروں نے اروند کیجریوال کو دہشت گرد قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ شاہین باغ کے مظاہرین کو بریانی کھلا رہے ہیں تو پوری پارٹی نے یہ سمجھ لیا ہوگا کہ بس اب کیجریوال کا کھیل ختم۔ کیونکہ دہلی کے عوام کسی دہشت گرد کو اپنا وزیر اعلیٰ نہیں بنا سکتے۔

جب گری راج کشور نے یہ کہا تھا کہ شاہین باغ میں خود کش بمباروں کو ٹریننگ دی جا رہی ہے تو ان کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی اور جب یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ کہا تھا کہ بولی سے نہیں گولی سے کام چلے گا تو بی جے پی کے اندر بیٹھے فرقہ پرست عناصر کی باچھیں کھل گئی ہوں گی کہ اب تو جیت پکی ہے۔ اور جب جامعہ میں اور شاہین باغ میں گولی چلی تو ان کا یقین اور پختہ ہو گیا ہوگا اور انھوں نے یہ نتیجہ نکال لیا ہوگا کہ دہلی میں بی جے پی کا بن واس ختم ہو رہا ہے۔


لیکن جب گیارہ فروری کو انتخابی نتائج سامنے آئے تو بھاجپائیوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ انھوں نے عوام کو نفرت کے جو انجکشن لگائے تھے وہ کہاں گئے۔ ان انجکشنوں کا کوئی اثر کیوں نہیں ہوا۔ شاہین باغ کو گالیاں دینے کا کوئی فائدہ کیوں نہیں ہوا۔ دیش کے غداروں کو گولی مارنے کا نعرہ بے اثر کیوں ہو گیا اور وہ تمام باتیں اور نعرے کوئی نتیجہ کیوں نہیں دکھا سکے جن پر ہم تکیہ کیے ہوئے تھے۔ گویا معاملہ یوں ہو گیا کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔

یہ تمام باتیں اپنی جگہ پر۔ اب ذرا الیکشن کے بعد کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیں۔ بی جے پی کے دو نمبر کے بڑے نیتا اور وزیر داخلہ امت شاہ نے نیوز چینل ٹائمس ناؤ کی نیوز ہیڈ ناویکا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان کے نام لینے اور گولی مارنے کے نعرے کا الٹا اثر ہوا اور اس کی وجہ سے بی جے پی ہار گئی۔ ورنہ ہم نے جس نتیجے کی امید کی تھی وہی نتیجہ نکلتا۔ لیکن کیا کریں کہ ان نعروں نے ہمیں دھوکہ دیا۔


امت شاہ اگر یہ سمجھتے تھے کہ اس قسم کے نعرے نقصاندہ ہیں تو انتخابی مہم کے دوران ہی کوئی بیان کیوں نہیں دیا۔ انھوں نے بی جے پی لیڈروں کو یہ ہدایت کیوں نہیں دی کہ وہ اشتعال انگیز نعرے نہ لگائیں اور بے بنیاد باتیں نہ کہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ان کو امید تھی کہ یہ نعرے بڑے ثمر آور ثابت ہوں گے اور ان درختوں سے ووٹ یوں برسیں گے جیسے کہ کسی پھل دار درخت سے پھل گرتے ہیں۔ انھوں نے تو اسی لیے ایسے نعروں کو منع نہیں کیا کیونکہ بی جے پی ایسے ہی نعرے لگا کر الیکشن جیتتی آئی ہے۔


بی جے پی کی پوری سیاست نفرت کی بنیاد پر ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت۔ دلتوں کے خلاف نفرت۔ دبے کچلے لوگوں کے خلاف نفرت۔ نفرت کی کھیتی کرتی آئی ہے وہ۔ اسے امید تھی کہ جس طرح پارلیمانی الیکشن میں پاکستان اور دہشت گردی مخالف نعرے لگا کر ہم نے الیکشن جیت لیا اسی طرح دہلی کو بھی جیت لیں گے۔

لیکن ان لوگوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ دہلی کے لوگوں نے کچھ اور ہی فیصلہ کرکے رکھا ہے۔ وہ نفرت کی سیاست کو ٹھکرانے کے لیے تیار ہیں۔ شاہین باغ کو کتنی ہی گالیاں کیوں نہ دی جائیں وہ شاہین باغ کے خلاف نہیں جائیں گے۔


الیکشن کے دوران سی اے اے کے معاملے کو بھی خوب اچھالا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ عوام بی جے پی کو جتا کر سی اے اے کی تائید و توثیق کرنے والے ہیں اور جس دن بی جے پی کی جیت ہوگی اس دن شاہین باغ کی ہار ہو جائے گی۔ حالانکہ اس الیکشن میں شاہین باغ امیدوار نہیں تھا۔ مگر اسے کھینچ کھانچ کر میدان میں لایا گیا اور اسے بھی ایک امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا۔

لیکن دہلی کے عوام نے بی جے پی ہرا کر شاہین باغ کو جتا دیا۔ سی اے اے کے خلاف اپنا فیصلہ سنا دیا۔ کاش امت شاہ کو پہلے ہی ہوش آجاتا یا وہ پہلے ہی عقل کے ناخن لے لیتے تو انھیں ہارنے کے بعد یہ نہیں کہنا پڑتا کہ فلاں نعرے کی وجہ سے ہم ہار گئے۔

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Feb 2020, 10:11 PM