پِرینکا اور اندرا گاندھی کے راستے ہی کانگریس پھر کھڑی ہو سکتی ہے... ظفر آغا

کانگریس 1977 میں جتنی بری حالت میں تھی آج وہ اس سے بہتر حال میں ہے۔ اس لیے ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں۔ پرینکا نے اندرا کا جو طریقہ اختیار کیا، اسی راستے سے کانگریس دوبارہ کھڑی ہو جائے گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

کیا ہندوستان کا تصور کانگریس کے بغیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ خیال محض نریندر مودی کو ہی آ سکتا ہے جو ’کانگریس مُکت بھارت‘ کی بات کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جدید ہندوستان جیسا بھی ہے، جو بھی ہے وہ کانگریس کی ہی بدولت ہے۔ جنگ آزادی سے لے کر جدید ہندوستان کے قیام تک اور پھر ملک کے آئین سے لے کر جمہوری نظام تک ہر جگہ کانگریس پارٹی کے نقش قدم صاف نظر آتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فی الحال ملک کے سیاسی پس منظر میں کانگریس کا وجود نہیں کے برابر نظر آتا ہے۔ محض پارلیمنٹ میں کانگریس کی کبھی کبھار آواز تو سنائی دے جاتی ہے۔ باقی پورے ملک میں کانگریس سمٹ سی گئی ہے۔ کانگریس کی یہ صورت حال نہ تو ملک کے حق میں ہے اور نہ ہی ملک والوں کے حق میں ہے۔ اسی لیے ہر سیکولر ہندوستانی کا یہی خیال ہے کہ کانگریس پارٹی کو پھر سے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا چاہیے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کانگریس کو ایک نئی زندگی کس طرح ملے! اس سوال کا کوئی سیدھا اور سادہ جواب نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی پچھلے ہفتے پرینکا گاندھی نے جس طرح سون بھدر میں قبائلیوں کے بے رحم قتل کے بعد پرامن احتجاج کے ذریعہ یوگی سرکار کو جھکنے پر مجبور کر دیا اس سے یہ محسوس ہوا کہ کانگریس کو دوسری زندگی مل سکتی ہے۔ پرینکا نے جو وہاں کیا، یعنی پارٹی کو عوام کے مسائل سے جوڑ کر ہی دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر پرینکا کا یہ طریقہ عمل کانگریس کے لیے کوئی نیا نہیں تھا۔ خود ان کی دادی اندرا گاندھی نے سنہ 80-1977 کے درمیان یہی حکمت عملی اختیار کی تھی۔ یہاں یہ ذکر کر دوں کہ اندرا گاندھی کو سب بہ حیثیت وزیر اعظم تو یاد کرتے ہیں، لیکن بحیثیت لیڈر حزب اختلاف ان کا ذکر عموماً نہیں ہوتا۔ مگر اندرا گاندھی بحیثیت اپوزیشن لیڈر اس ملک کی سب سے کامیاب اپوزیشن لیڈر تھیں۔ ذرا آپ خود غور فرمائیے کہ سنہ 1977 میں وہ بری طرح چناؤ ہاریں۔ پھر ایمرجنسی کی وجہ سے وہ رسوائے زمانہ ہو گئی تھیں۔ چناؤ کے بعد اندرا گاندھی کا نام لینا بھی گناہ تھا۔ لیکن اتنی بڑی ہار کے بعد تین سال سے کم مدت میں انھوں نے اس وقت مرار جی کی مقبول جنتا پارٹی حکومت کو اقتدار سے باہر کیا، جنتا پارٹی کو توڑ دیا اور دسمبر 1980 میں وہ دوبارہ اقتدار میں بحیثیت وزیر اعظم واپس بھی آ گئیں۔


لیکن اندرا گاندھی نے یہ کمال کیا کیسے! سنہ 1977 میں اپنی ہار کے بعد وہ کچھ عرصے کے لیے خاموش رہیں۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ سنہ 1978 میں پورے مشرقی اور شمالی ہندوستان میں زبردست باڑھ آ گئی اور تمام گاؤں، دیہات اور شہر ڈوب گئے۔ بس اندرا گاندھی نکل پڑیں اور اس آفت میں کبھی ناؤ پر سوار ہو کر تو کبھی پیدل تو کبھی کسی اور طرح مجبور اور بے آسرا ہندوستانیوں کے بیچ شہر شہر، گاؤں گاؤں پہنچ گئیں۔ اس سلسلے میں خود میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس کا ذکر بھی یہاں کر دوں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اندرا کیسی لیڈر تھیں۔ ہوا یہ کہ میں 1978 میں اپنے وطن الٰہ آباد میں تھا۔ جب باڑھ آئی تو میں اپنے نوجوان دوستوں کے ساتھ راحت رسانی کے کام پر نکل پڑا۔ دو دن بعد ہم کو پتہ چلا کہ شہر کے نزدیک ایک گاؤں کے سارے راستے محدود ہو گئے ہیں اور وہاں لوگوں کی حالت بہت خراب ہے۔ ہم لوگوں نے طے کیا کہ ہم اس گاؤں میں راحت کا سامان ضرور پہنچائیں گے۔ خیر، ہمارا گروپ وہاں پہنچا۔ لیکن واقعی اس گاؤں میں داخل ہونا محال تھا۔ چاروں طرف پانی اور کیچڑ سے دلدل ہو رہا تھا۔ پہلے تو ہم لوگ بھی ہمت ہار گئے۔ لیکن پھر کسی طرح اسی کیچڑ اور دلدل میں چل کر اندر گئے۔ راستے میں بدبو سے برا حال تھا۔ اندر داخل ہو کر راحت کا کام کیا۔ لوگ بہت خوش ہوئے۔ پھر واپس لوٹ رہے تھے کہ یکایک کانوں میں آواز آئی ’اندرا گاندھی زندہ باد‘۔ اب ہم نے اسی کیچڑ والے پانی میں سر اٹھا کر دیکھا تو اندرا گاندھی کیچڑ میں لت پت ہمارے سامنے تھیں۔ ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ انھوں نے پہلے ہم کو راحت کا کام کرنے کے لیے شاباشی دی۔ پھر وہ غریب لوگوں سے ایسے گھل مل گئیں جیسے وہ انہیں میں سے ایک ہوں۔ تھوڑی دیر میں وہ وہاں سےد وسرے دیہات چلی گئیں۔ لیکن ہم اور سارے گاؤں والے بس اس وقت اندرا کے گرویدہ ہو گئے۔

اسی طرح سنہ 1980 تک ملک میں کہیں بھی عوام کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوتی تو وہ وہاں پہنچ جاتیں۔ یہاں تک کہ بہار کے گاؤں بیلچی میں کچھ دلت مارے گئے تو وہاں وہ ہاتھی پر سوار ہو کر پہنچ گئیں۔ حد یہ ہے کہ سنہ 1978 اور سنہ 1980 کے بیچ وہ پارلیمنٹ بھی بہت کم گئیں۔ آخر وہ سنہ 1980 کے چناؤ میں پھر واپس اقتدار میں آ گئیں۔


یہی حکمت عملی ابھی پرینکا گاندھی نے سون بھدر میں اختیار کی اور عوام کا دل جیت لیا۔ کانگریس کے لیے اپنے پیروں پر پھر سے کھڑے ہونے کا بس ایک یہی راستہ ہے اور اسی راستے سے وہ دوبارہ اقتدار تک پہنچ سکتی ہے۔ کانگریس سنہ 1977 میں جتنی بری حالت میں تھی، آج وہ اس سے بہتر حال میں ہے۔ اس لیے ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں۔ پرینکا نے اندرا کا جو طریقہ اختیار کیا، اسی راستے سے کانگریس دوبارہ کھڑی ہو جائے گی۔ اور یہی ملک کے حق میں ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Jul 2019, 9:46 AM