ممتا خود ہی جال میں پھنستی جا رہی ہے... سہیل انجم

اگر مرکزی حکومت ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی خرابی کی آڑ میں ممتا کی حکومت برطرف کر دیتی ہے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمہ دار خود ممتا بھی ہوں گی۔ وہ اس ذمہ داری سے بچ نہیں سکتیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

کیا مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی ایک ایسے جال میں پھنستی جا رہی ہیں جس سے نکلنا دن بہ دن مشکل ہوتا جارہا ہے۔ واقعات و حادثات اس بات کی شہادت دیتے نظر آرہے ہیں کہ اگر انھوں نے دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں جب حالات ان کے قابو سے باہر ہو جائیں گے اور پھر اپنی حکومت کا دفاع کرنا ان کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

اس وقت جو صورت حال ہے وہ اچانک پیدا نہیں ہوئی ہے۔ اگر چہ ڈاکٹروں کی ہڑتال بہت پرانی نہیں ہے لیکن یہ ہڑتال کیوں ہوئی اور اس کا مقصد کیا ہے یہ جاننا ضروری ہے۔ اگر اس پوری صورت حال کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس کی تخم ریزی بہت پہلے کر دی گئی تھی۔ اگر ڈاکٹر ہڑتال پر نہیں جاتے تو کوئی اور واقعہ ہو سکتا تھا۔ ممکن ہے کہ ڈاکٹر کسی کے ہاتھ میں نہ کھیل رہے ہوں لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ معاملہ رفتہ رفتہ سیاسی بنتا جا رہا ہے۔


بی جے پی ایک عرصے سے بنگال میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پہلے جہاں بی جے پی کے لیے انتخابات کے دوران پولنگ ایجنٹ نہیں ملتے تھے وہیں اب یہ صورت حال ہے کہ اس کا ایک بہت بڑا کیڈر تیار ہو گیا ہے۔ اس کیڈر کو پوری چھوٹ حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہے ممتا بنرجی کو زچ کرے تاکہ اس کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔

انتخابات کے دوران بھی مختلف بہانوں سے انھیں پریشان کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس کی ذمہ دار کسی حد تک وہ خود بھی ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی سازشیں یا تو سمجھ نہیں پا رہی ہیں یا پھر جان بوجھ کر اس میں پھنستی جا رہی ہیں۔ ایسے مواقع پر انھیں جس سیاسی فہم و فراست کا ثبوت دینا چاہیے تھا اس میں وہ بری طرح ناکام ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی سیاسی مجبوریوں یا مصلحتوں کے تحت مسلمانوں سے ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور بی جے پی نے اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر لیا۔


الیکشن کے دوران جے شری رام کے نعرے لگانے پر انھوں نے بی جے پی کارکنوں کے خلاف کارروائی کی۔ ان کا یہ قدم بجائے خود اشتعال انگیز تھا۔ اس وقت ہمیں کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کی یاد آر ہی ہے۔ ان کا وہ ویڈیو خوب وائرل ہوا تھا جب ان کے قافلے کو دیکھ کر کچھ لوگ مودی مودی چلانے لگے تھے۔ پرینکا چاہتیں تو نعرہ بازوں کو نظرانداز کرکے آگے گزر جاتیں۔ یا انھیں برا بھلا کہنے لگتیں۔

لیکن انھوں نے اپنی گاڑی رکوائی اور مسکراتے ہوئے نعرہ بازوں کے پاس پہنچیں اور ان سے ہاتھ ملایا۔ انھوں نے ان لوگوں سے کہا کہ آپ اپنی جگہ پر میں اپنی جگہ پر۔ ان کے اس رویے نے مودی مودی کا نعرہ لگانے والوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا اور انھوں نے نہ صرف ان سے ہاتھ ملایا بلکہ ان کے ساتھ سیلفی بھی لی۔ اگر پرینکا گاندھی ان لوگوں کے نعرے پر مشتعل ہو جاتیں تو وہی ہوتا جو ممتا کے ساتھ ہوا۔


ممتا بنرجی اپنے قافلے کے ساتھ کہیں جا رہی تھیں کہ کچھ لوگ انھیں دیکھ کر جے شری رام کے نعرے لگانے لگے۔ وہ گاڑی سے اتریں اور انھوں نے ان لوگوں کو ڈانٹنا پھٹکارنا شروع کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جے شری رام کے نعرے کو ان کی چِڑ بنا دی گئی اور ان کو دیکھ کر بار بار یہی نعرہ لگایا جانے لگا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مودی اور شاہ نے اپنی تقریروں میں اس کو خوب کیش کرایا اور کہا کہ وہ جے شری رام کا نعرہ لگا رہے ہیں اگر ان میں ہمت ہے تو انھیں جیل میں ڈال دیں۔

ظاہر ہے اس سے بی جے پی کو فائدہ پہنچا۔ اس نے جن لوگوں کو ہندوتوا کی راہ پر ڈال دیا ہے ان کے جذبات مجروح ہونے لگے اور وہ ممتا کو ہندو مخالف سمجھنے لگے۔ حالانکہ ممتا نے جے شری رام کے مقابلے میں جے درگا کا نعرہ لگایا لیکن وہ بی جے پی کی چال کو کاؤنٹر کرنے میں ناکام رہیں۔


اسی طرح جب ایک جونئیر ڈاکٹر پر حملہ ہوا تھا تو انھوں نے اسی وقت حملہ آوروں کے خلاف قانونی کارروائی کی ہوتی خواہ وہ جو بھی رہے ہوں، تو معاملہ یہاں تک نہیں پہنچتا۔ انھوں نے شروع میں ڈاکٹروں کو ڈرا دھمکا کر کام نکالنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کی یہ کوشش الٹی پڑتی گئی اور معاملہ ان کے ہاتھ سے نکلتا گیا۔ جس طرح انھوں نے اب جا کر ڈاکٹروں کے مطالبات تسلیم کیے ہیں اگر پہلے ہی تسلیم کر لیے ہوتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بھی کوشش کی۔

حالانکہ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی معاملے کو فرقہ وارانہ اور مذہبی رنگ دینے میں وہ کیا کوئی بھی بی جے پی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ان کو اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے بچنا چاہیے تھا۔ ممتا تو تن و تنہا ہیں لیکن بی جے پی کے پاس ایک اتنی بڑی فوج ہے کہ جس کا مقابلہ اس وقت کوئی نہیں کر سکتا۔ بی جے پی کے ہاتھ میں مرکزی حکومت کی باگ ڈور ہے۔ اس کے ہاتھ میں ریاستی گورنر ہیں۔ وہ جب چاہے گورنر سے ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی مبینہ خرابی کی رپورٹ منگوا سکتی ہے اور اس کی بنیاد پر ممتا کی حکومت برخاست کر سکتی ہے۔


کیا ممتا کو، جو کہ اتنی سمجھدار سیاست داں ہیں، اتنی سی بات نہیں معلوم۔ کیا وہ اپنی ساری سیاسی فراست گنوا بیٹھی ہیں کہ اتنی معمولی سی بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب حشر خراب ہونا ہوتا ہے تو عقل ماری جاتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ممتا عقل سے محروم ہوتی جا رہی ہیں اور غلط سلط فیصلے کر کے بی جے پی کے بچھائے جال میں پھنستی جا رہی ہیں۔

ممتا کو نہیں بھولنا چاہیے کہ بی جے پی اس وقت اس بلی کی مانند گھات لگائے بیٹھی ہے جس کے سامنے اس کا شکار ہو اور وہ موقع پاتے ہی اس پر جھپٹ پڑے اور دبوچ بیٹھے۔ اگر مرکزی حکومت ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی خرابی کی آڑ میں ممتا کی حکومت برطرف کر دیتی ہے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمہ دار خود ممتا بھی ہوں گی۔ وہ اس ذمہ داری سے بچ نہیں سکتیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Jun 2019, 7:10 PM